برسوں سے لاپتا 10 افراد کی بازیابی کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا حکم
متعدد شہریوں کو لاپتا ہوئے 10 سال سے زائد عرصہ گزر گیا، شہریوں کے اہل خانہ بازیابی کے لیے عدالتوں میں گڑگڑاتے رہے
سندھ ہائی کورٹ نے کئی برس سے لاپتا دس سے زائد افراد کی بازیابی کے لیے پولیس کو جدید ڈیوائسز اور ٹیکنالوجی کے استعمال کا حکم دے دیا۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو 10 سے زائد لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ایک لاپتا شہری کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا 12 سال سے لاپتا ہے جے آئی ٹیز میں کچھ بھی نہیں ہوتا جے آئی ٹیز میں بلایا جاتا ہے بٹھا بٹھا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے 12 سال سے اب تک کوئی سراغ نہیں لگایا گیا، اگر میرے بیٹے کا کوئی جرم ہے تو اسے عدالت پیش کیا جائے اور سزا دی جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کتنی جے آئی ٹیز ہو چکی ہیں؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ 23 جے آئی ٹیز اور 16 پی ٹی ایف اجلاس ہو چکے ہیں۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے استفسار کیا کہ 12 سال سے لاپتا ہے آپ کیا جواب دیں گے؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ تمام ایجنسیوں کو خطوط لکھے ہیں شہری کو بازیاب کرانے کے لئے بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔
لاپتا شہری کے اہل خانہ نے کہا کہ 11 سال سے شوہر لاپتا ہے، کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، جے آئی ٹیز میں بلایا جاتا ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ پریشان نہیں ہوں ہم آپ کو انصاف دلوائیں گے۔ جج نے سال 2014ء سے لاپتا شہری علی کی بازیابی کے لیے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ 19 جے آئی ٹیز ہو چکی ہیں 12 ڈیپارٹمنٹس کو خطوط لکھے ہیں، بلوچستان، سندھ، پنجاب اور کے پی کے کی تمام ایجنسیوں کو خطوط بھیجے ہیں ان کے رد عمل کا انتظار کر رہے ہیں۔
اسی طرح لاپتا شہری ابوبکر اور زاہد اللہ پولیس کو مطلوب تھے دونوں شہری مقدموں میں گرفتار ہیں، عدالت نے دونوں لاپتا شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستیں نمٹا دی۔
عدالت نے تمام لاپتا شہریوں کی بازیابی کے لیے ماڈرن ڈیوائسز اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا حکم جاری کردیا۔ عدالت نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو 10 سے زائد لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ایک لاپتا شہری کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا 12 سال سے لاپتا ہے جے آئی ٹیز میں کچھ بھی نہیں ہوتا جے آئی ٹیز میں بلایا جاتا ہے بٹھا بٹھا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے 12 سال سے اب تک کوئی سراغ نہیں لگایا گیا، اگر میرے بیٹے کا کوئی جرم ہے تو اسے عدالت پیش کیا جائے اور سزا دی جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کتنی جے آئی ٹیز ہو چکی ہیں؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ 23 جے آئی ٹیز اور 16 پی ٹی ایف اجلاس ہو چکے ہیں۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے استفسار کیا کہ 12 سال سے لاپتا ہے آپ کیا جواب دیں گے؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ تمام ایجنسیوں کو خطوط لکھے ہیں شہری کو بازیاب کرانے کے لئے بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔
لاپتا شہری کے اہل خانہ نے کہا کہ 11 سال سے شوہر لاپتا ہے، کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، جے آئی ٹیز میں بلایا جاتا ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ پریشان نہیں ہوں ہم آپ کو انصاف دلوائیں گے۔ جج نے سال 2014ء سے لاپتا شہری علی کی بازیابی کے لیے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ 19 جے آئی ٹیز ہو چکی ہیں 12 ڈیپارٹمنٹس کو خطوط لکھے ہیں، بلوچستان، سندھ، پنجاب اور کے پی کے کی تمام ایجنسیوں کو خطوط بھیجے ہیں ان کے رد عمل کا انتظار کر رہے ہیں۔
اسی طرح لاپتا شہری ابوبکر اور زاہد اللہ پولیس کو مطلوب تھے دونوں شہری مقدموں میں گرفتار ہیں، عدالت نے دونوں لاپتا شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستیں نمٹا دی۔
عدالت نے تمام لاپتا شہریوں کی بازیابی کے لیے ماڈرن ڈیوائسز اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا حکم جاری کردیا۔ عدالت نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی۔