فضائی آلودگی اور موسمیاتی تغیرات
ہمیں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی تعداد کم سے کم کرنا ہو گی، جگہ جگہ کچرا پھینکنے اور اسے جلانے سے گریز کرنا ہوگا
ملک کے بیشتر میدانی علاقوں میں شدید دھند ہے، پنجاب، بالائی سندھ اور خیبر پختون خوا کے میدانی علاقے اسموگ کی لپیٹ میں ہیں۔ شدید دھند اور حد نگاہ کم ہونے پر موٹر ویز کو مختلف مقامات سے بندکر دیا گیا۔
اہم شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہے، جب کہ دھند اور اسموگ کی وجہ سے ٹریفک حادثات بڑھ گئے ہیں۔ دھند کے باعث پروازوں کا شیڈول بھی متاثر ہوا، سرکاری اور نجی ایئر لائنز کی متعدد پروازیں منسوخ، بعض تاخیر کا شکار ہوئیں۔
صنعتی انقلاب اور جدید ٹیکنالوجی نے جہاں انسان کو سہولیات اور آسانیاں فراہم کی ہیں، وہیں ماحول کو شدید نقصان بھی پہنچایا ہے۔ فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے، دنیا بھر میں موسمی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پاکستان کے موسم اور ماحول میں بھی ریکارڈ تبدیلی آرہی ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان بارہ ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ موسمی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ یہ صورتحال ہر اعتبار سے قابل تشویش ہے۔ موسمیاتی تبدیلی خشک سالی اور سیلاب کے ساتھ ساتھ غذائی پیداوار میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے، قحط کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ گرمی اور سردی کے موسم کے مہینوں میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔
دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندو کش اور قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا میں برف کے سب سے بڑے ذخائر انھی تین پہاڑی سلسلوں پر ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والا پانی ملک کے وسیع رقبے کو سیراب کرتا ہے۔ بیس برس پہلے برف ان پہاڑوں کے وسیع حصے کو ڈھانپے ہوئے تھی اور اب کئی حصے برف سے بالکل خالی ہو چکے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کا شمار بھی اسموگ سے متاثرہ ممالک میں کیا جارہا ہے۔ تاہم، پنجاب اور بالخصوص وسطی پنجاب اور لاہور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ لاہور شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ شہر اور نواح میں رات کے وقت شدید دھند پڑنے سے شہری مشکلات کا شکار ہیں۔ اسموگ، کم بارشوں اور آلودہ فضا کے باعث شہر بھر میں آنکھ، ناک اور گلے کی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
دوسری جانب ابرِ رحمت کا نہ برسنا شہریوں کے لیے زحمت بن گیا ہے۔ اسموگ کی سب سے عام قسم فوٹوکیمیکل نائٹروجن آکسائیڈ، متغیر نامیاتی مرکبات (وی او سی) اور سورج کی روشنی کے درمیان تعلق سے پھیلتی ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج گاڑیوں اور صنعتی مراکز سے ہوتا ہے جب کہ وی او سی کا اخراج گاڑیوں، ایندھن اور پینٹ وغیرہ سے ہوتا ہے۔ جب سورج کی روشنی ان آلودہ مادوں سے ٹکراتی ہے تو زمینی سطح پر اوزون اور دیگر نقصان دہ ذرات بنتے ہیں۔
جہاں تک انڈسٹریل اسموگ کی بات ہے تو وہ کوئلہ اور دیگر روایتی ایندھن جلانے سے بنتی ہے، جب موسم سرد ہونے لگتا ہے تو ہوا چلنے کی رفتار کم ہوتی ہے جس سے دھویں اور دھند کو فضا میں موجود رہنے میں مدد ملتی ہے جس سے اسموگ بننے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں، صنعتی پلانٹس کا دھواں اور فصلیں جلانا اسموگ بننے کی بڑی وجوہات ہیں۔
اسموگ صحت پر متعدد منفی اثرات مرتب کرتی ہے، جیسے سانس لینا مشکل ہو سکتا ہے، کھانسی، سینے میں تکلیف، آنکھوں میں خارش، دمہ کی علامات کی شدت بڑھنا، ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ زہریلا دھواں پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
آبی ذخائر مثلا دریا، سمندر اور جھیلیں وغیرہ جب کسی بھی سبب آلودہ ہوجائیں، تو اس کے اثرات نظامِ حیات پرلازما مرتب ہوتے ہیں۔ آبی آلودگی کی وجوہ میں صنعتی و گھریلو فضلہ، کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک کا کچرا نذرِ آب کرنا، بحری جہاز سے خارج ہونے والا تیل اور زہریلے مادے شامل ہیں۔ پھر مصنوعی کھاد اور زرعی ادویہ کے استعمال کے نتیجے میں بھی زیر ِزمین پانی میں کیمیائی مادوں کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جب کہ زہریلے اورکیڑے مار اسپرے بھی آبی آلودگی بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔
کوڑے کرکٹ کی آلودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کوڑا کرکٹ ایک جگہ جمع ہوتا رہے تو اس سے ہر قسم کی آلودگی پھیلتی ہے۔ مثلا کچرا کا تعفن فضا میں شامل ہو کر اسے آلودہ کردیتا ہے، اگر یہی کچرا سیوریج کے پائپس میں چلا جائے، تو رکاوٹ بننے کے نتیجے میں گلیوں، بازاروں میں گندا پانی اکٹھا ہونا شروع ہو جاتا ہے، جو پھر آس پاس کا ماحول بھی آلودہ کر کے کئی امراض کا سبب بن جاتا ہے، اگرچہ شوروغل سے پیدا ہونے والی آلودگی دکھائی نہیں دیتی، لیکن ہر جان دار پر اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔
اگرچہ دنیا بھر میں شور کی آلودگی پر قابو پانے کے لیے قوانین تشکیل دیے جا رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی عوام الناس میں شعوروآگاہی اُجاگرکرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، ممکن ہو تو رہائش مین روڈ سے ہٹ کر اختیار کی جائے۔ گھر میں شور کرنے والے گھریلو آلات ایسی جگہ رکھے جائیں، جہاں سے شور باہر نہ آئے یا کم آئے۔ رہائشی علاقوں کو ایئر پورٹ سے دور آباد کیا جائے۔ صنعتی اور رہائشی علاقوں کی حد بندی کی جائے۔
نیز، گاڑیوں کے سائلینسرز، ہارنز اور انجنز سے پیدا ہونے والے شور کا بھی سدِ باب کیا جائے۔ آلودگی کے سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین گیسز کے لیول میں اضافے سے زمین کا درجہ حرارت معمول سے بڑھنا شروع ہوجائے اور ساتھ ہی جنگلات کی کٹائی کا عمل زیادہ اور شجرکاری کی شرح کم ہو، تو گلوبل وارمنگ کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔
گلوبل وارمنگ جنگلات میں آگ، گلیشیرز کے پگھلنے، پانی کی مقدار میں اضافے، ضرورت سے زیادہ بارشوں، گرمی یا سردی، سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگز کا سبب بنتی ہے۔ روزمرہ زندگی پران قدرتی آفات کے بعض اثرات فوری اور کچھ وقت کے ساتھ اثرانداز ہوتے ہیں، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آلودگی کے زرعی اجناس پر نہات ہی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عام طور پر شہروں اور دیہات میں کاشت کی جانے والی سبزیوں اور پھلوں کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے، کیوں کہ دیہی علاقوں میں ان کی کاشت کے لیے نہری، جب کہ شہروں میں ناقص پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ پھرکیمیائی کھاد، جراثیم کش اسپرے اور فوڈ پروسیسنگ کے جدید طریقوں کی وجہ سے بھی اجناس متاثر ہورہی ہیں۔ آبی انواع کا معدوم ہوجانا بھی موسمیاتی تبدیلی کا ایک نتیجہ ہے۔
پاکستان میں اسموگ کے مسئلے نے 2015 میں اس وقت شدت اختیار کی جب موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور اور پنجاب کے بیشتر حصوں کو شدید دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان میں اسموگ کے سیزن کا آغاز اکتوبر سے شروع ہوتا ہے اور یہ جنوری تک جاری رہتا ہے اور اس سے فوری ریلیف صرف بارش سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان میں ہرسال اسموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوتی ہے بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوتی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماریاں کھانسی، نزلہ، زکام، دل، دمہ، آنکھ، جلد کے امراض، پھیپھڑوں کا کینسر، ذیابیطس اور برین اسٹروک جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ہدایات کے مطابق ہوا میں موجود گیسوں کی مقدار PM 2.5 ہو تو اسے صاف ہوا کہا جا سکتا ہے۔ ہر سال فضائی آلودگی دنیا میں تقریباً 20 فیصد نوزائیدہ بچے موت کا شکار بنتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد اسموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب اسموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں ہی میں رہنا چاہیے۔ ہمیں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی تعداد کم سے کم کرنا ہو گی، جگہ جگہ کچرا پھینکنے اور اسے جلانے سے گریز کرنا ہوگا، فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھوئیں کے اثرات کم کرنے کے لیے فلٹرز کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے شجر کاری مہم شروع کرنی ہوگی اور پہلے سے موجود جنگلات کا تحفظ کرنا ہوگا۔
ساحلی جنگلات کی تعداد میں اضافہ کر کے بھی فضا میں موجود کاربن ختم کرنے کی صلاحیت کو دگنا کیا جاسکتا ہے، اگر آج ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والے دنوں میں فضائی آلودگی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گی۔
اہم شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہے، جب کہ دھند اور اسموگ کی وجہ سے ٹریفک حادثات بڑھ گئے ہیں۔ دھند کے باعث پروازوں کا شیڈول بھی متاثر ہوا، سرکاری اور نجی ایئر لائنز کی متعدد پروازیں منسوخ، بعض تاخیر کا شکار ہوئیں۔
صنعتی انقلاب اور جدید ٹیکنالوجی نے جہاں انسان کو سہولیات اور آسانیاں فراہم کی ہیں، وہیں ماحول کو شدید نقصان بھی پہنچایا ہے۔ فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے، دنیا بھر میں موسمی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پاکستان کے موسم اور ماحول میں بھی ریکارڈ تبدیلی آرہی ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان بارہ ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ موسمی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ یہ صورتحال ہر اعتبار سے قابل تشویش ہے۔ موسمیاتی تبدیلی خشک سالی اور سیلاب کے ساتھ ساتھ غذائی پیداوار میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے، قحط کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ گرمی اور سردی کے موسم کے مہینوں میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔
دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندو کش اور قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا میں برف کے سب سے بڑے ذخائر انھی تین پہاڑی سلسلوں پر ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والا پانی ملک کے وسیع رقبے کو سیراب کرتا ہے۔ بیس برس پہلے برف ان پہاڑوں کے وسیع حصے کو ڈھانپے ہوئے تھی اور اب کئی حصے برف سے بالکل خالی ہو چکے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کا شمار بھی اسموگ سے متاثرہ ممالک میں کیا جارہا ہے۔ تاہم، پنجاب اور بالخصوص وسطی پنجاب اور لاہور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ لاہور شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ شہر اور نواح میں رات کے وقت شدید دھند پڑنے سے شہری مشکلات کا شکار ہیں۔ اسموگ، کم بارشوں اور آلودہ فضا کے باعث شہر بھر میں آنکھ، ناک اور گلے کی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
دوسری جانب ابرِ رحمت کا نہ برسنا شہریوں کے لیے زحمت بن گیا ہے۔ اسموگ کی سب سے عام قسم فوٹوکیمیکل نائٹروجن آکسائیڈ، متغیر نامیاتی مرکبات (وی او سی) اور سورج کی روشنی کے درمیان تعلق سے پھیلتی ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج گاڑیوں اور صنعتی مراکز سے ہوتا ہے جب کہ وی او سی کا اخراج گاڑیوں، ایندھن اور پینٹ وغیرہ سے ہوتا ہے۔ جب سورج کی روشنی ان آلودہ مادوں سے ٹکراتی ہے تو زمینی سطح پر اوزون اور دیگر نقصان دہ ذرات بنتے ہیں۔
جہاں تک انڈسٹریل اسموگ کی بات ہے تو وہ کوئلہ اور دیگر روایتی ایندھن جلانے سے بنتی ہے، جب موسم سرد ہونے لگتا ہے تو ہوا چلنے کی رفتار کم ہوتی ہے جس سے دھویں اور دھند کو فضا میں موجود رہنے میں مدد ملتی ہے جس سے اسموگ بننے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں، صنعتی پلانٹس کا دھواں اور فصلیں جلانا اسموگ بننے کی بڑی وجوہات ہیں۔
اسموگ صحت پر متعدد منفی اثرات مرتب کرتی ہے، جیسے سانس لینا مشکل ہو سکتا ہے، کھانسی، سینے میں تکلیف، آنکھوں میں خارش، دمہ کی علامات کی شدت بڑھنا، ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ زہریلا دھواں پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
آبی ذخائر مثلا دریا، سمندر اور جھیلیں وغیرہ جب کسی بھی سبب آلودہ ہوجائیں، تو اس کے اثرات نظامِ حیات پرلازما مرتب ہوتے ہیں۔ آبی آلودگی کی وجوہ میں صنعتی و گھریلو فضلہ، کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک کا کچرا نذرِ آب کرنا، بحری جہاز سے خارج ہونے والا تیل اور زہریلے مادے شامل ہیں۔ پھر مصنوعی کھاد اور زرعی ادویہ کے استعمال کے نتیجے میں بھی زیر ِزمین پانی میں کیمیائی مادوں کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جب کہ زہریلے اورکیڑے مار اسپرے بھی آبی آلودگی بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔
کوڑے کرکٹ کی آلودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کوڑا کرکٹ ایک جگہ جمع ہوتا رہے تو اس سے ہر قسم کی آلودگی پھیلتی ہے۔ مثلا کچرا کا تعفن فضا میں شامل ہو کر اسے آلودہ کردیتا ہے، اگر یہی کچرا سیوریج کے پائپس میں چلا جائے، تو رکاوٹ بننے کے نتیجے میں گلیوں، بازاروں میں گندا پانی اکٹھا ہونا شروع ہو جاتا ہے، جو پھر آس پاس کا ماحول بھی آلودہ کر کے کئی امراض کا سبب بن جاتا ہے، اگرچہ شوروغل سے پیدا ہونے والی آلودگی دکھائی نہیں دیتی، لیکن ہر جان دار پر اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔
اگرچہ دنیا بھر میں شور کی آلودگی پر قابو پانے کے لیے قوانین تشکیل دیے جا رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی عوام الناس میں شعوروآگاہی اُجاگرکرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، ممکن ہو تو رہائش مین روڈ سے ہٹ کر اختیار کی جائے۔ گھر میں شور کرنے والے گھریلو آلات ایسی جگہ رکھے جائیں، جہاں سے شور باہر نہ آئے یا کم آئے۔ رہائشی علاقوں کو ایئر پورٹ سے دور آباد کیا جائے۔ صنعتی اور رہائشی علاقوں کی حد بندی کی جائے۔
نیز، گاڑیوں کے سائلینسرز، ہارنز اور انجنز سے پیدا ہونے والے شور کا بھی سدِ باب کیا جائے۔ آلودگی کے سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین گیسز کے لیول میں اضافے سے زمین کا درجہ حرارت معمول سے بڑھنا شروع ہوجائے اور ساتھ ہی جنگلات کی کٹائی کا عمل زیادہ اور شجرکاری کی شرح کم ہو، تو گلوبل وارمنگ کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔
گلوبل وارمنگ جنگلات میں آگ، گلیشیرز کے پگھلنے، پانی کی مقدار میں اضافے، ضرورت سے زیادہ بارشوں، گرمی یا سردی، سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگز کا سبب بنتی ہے۔ روزمرہ زندگی پران قدرتی آفات کے بعض اثرات فوری اور کچھ وقت کے ساتھ اثرانداز ہوتے ہیں، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آلودگی کے زرعی اجناس پر نہات ہی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عام طور پر شہروں اور دیہات میں کاشت کی جانے والی سبزیوں اور پھلوں کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے، کیوں کہ دیہی علاقوں میں ان کی کاشت کے لیے نہری، جب کہ شہروں میں ناقص پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ پھرکیمیائی کھاد، جراثیم کش اسپرے اور فوڈ پروسیسنگ کے جدید طریقوں کی وجہ سے بھی اجناس متاثر ہورہی ہیں۔ آبی انواع کا معدوم ہوجانا بھی موسمیاتی تبدیلی کا ایک نتیجہ ہے۔
پاکستان میں اسموگ کے مسئلے نے 2015 میں اس وقت شدت اختیار کی جب موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور اور پنجاب کے بیشتر حصوں کو شدید دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان میں اسموگ کے سیزن کا آغاز اکتوبر سے شروع ہوتا ہے اور یہ جنوری تک جاری رہتا ہے اور اس سے فوری ریلیف صرف بارش سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان میں ہرسال اسموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوتی ہے بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوتی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماریاں کھانسی، نزلہ، زکام، دل، دمہ، آنکھ، جلد کے امراض، پھیپھڑوں کا کینسر، ذیابیطس اور برین اسٹروک جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ہدایات کے مطابق ہوا میں موجود گیسوں کی مقدار PM 2.5 ہو تو اسے صاف ہوا کہا جا سکتا ہے۔ ہر سال فضائی آلودگی دنیا میں تقریباً 20 فیصد نوزائیدہ بچے موت کا شکار بنتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد اسموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب اسموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں ہی میں رہنا چاہیے۔ ہمیں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی تعداد کم سے کم کرنا ہو گی، جگہ جگہ کچرا پھینکنے اور اسے جلانے سے گریز کرنا ہوگا، فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھوئیں کے اثرات کم کرنے کے لیے فلٹرز کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے شجر کاری مہم شروع کرنی ہوگی اور پہلے سے موجود جنگلات کا تحفظ کرنا ہوگا۔
ساحلی جنگلات کی تعداد میں اضافہ کر کے بھی فضا میں موجود کاربن ختم کرنے کی صلاحیت کو دگنا کیا جاسکتا ہے، اگر آج ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والے دنوں میں فضائی آلودگی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گی۔