پاکستان استحکام کی راہ پر
وکلاء کو ملک کے اہم ترین اداروں کو متنازعہ بنانے کی مہم سے خود کو الگ کرنا ہو گا
پاکستان میں کئی مثبت پیشرفت دیکھنے میں آئی ہیں' پاکستان کی معیشت دبائو میں ضرور ہے لیکن دیوالیہ ہونے سے بچ چکی ہے۔
تمام تر رکاوٹوں کے باوجود معاشی اشاریے بہتری کی نوید دے رہے ہیں' اس کے ساتھ ساتھ ملک میں عام انتخابات کا عمل بھی شروع ہے اور یہ یقینی ہے کہ الیکشن 8فروری کو مکمل ہو جائیں گے۔یوں ملک میں جمہوری عمل چلتا رہے گا'ورنہ پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کی تو پوری کوشش تھی کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے۔
پی ٹی آئی کے بانی نے ملک کے اعلیٰ عہدوں کو متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کی ہے اور یہ اب تک جاری ہے۔ پاک فوج کے سربراہ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن اللہ کو جو منظور تھا وہ ہو کر رہا' دونوں کو قدرت نے یہ موقعہ فراہم کیا ہے اور وہ ملک میں نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ان ایام میں اب تک وہ کچھ ہو گیا جس کا 76 سالوں میں تصور تک نہیں تھا۔
جس وقت پی ٹی آئی کے بانی ملک کے وزیر اعظم تھے' انھوں نے پوری کوشش کی کہ جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس نہ بن سکے۔ اپنے اقتدار کے عروج پر 16 ستمبر 2023 کو موجودہ چیف جسٹس کے خلاف اپنے ماتحت صدر مملکت کے ذریعے سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس بھیجا تھا مگر قدرت کو نام کے قاضی کو چیف جسٹس بنوانا منظور تھا اس لیے پی ٹی آئی حکومت کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔
موجودہ آرمی چیف نے ملک کے بعض اہم مسائل پربھرپور توجہ دی ہے اور ملک میں ڈالر کی بڑھتی قیمت کنٹرول کرائی بلکہ تین سو روپے سے بڑھ جانے والا ڈالر پونے تین سو روپے کے قریب آ گیا بلکہ سونے کی قیمت نمایاں طور پر کم ہوئی اور ملک میں انڈیکس بڑھنے کا ریکارڈ قائم ہوا۔ آرمی چیف نے زراعت کے فروغ پر توجہ دی اور گرین پاکستان کے سلسلے میں ایک سیمینار کا انعقاد بھی کرایا۔
ملک میں آرمی چیف پہلے بھی ملک کے اہم معاملات کو بہتر بنانے پر توجہ دے چکے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے صنعتکار اور تاجر سیاسی حکومتوں پر اعتماد نہیں کرتے اور آرمی چیف کی یقین دہانیوں کو ہی قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ سیاسی حکومتیں پسند اور نا پسند کی بنیاد پر کام کرتی ہیں ' ان کی پالیسیاں بھی وقتی ضرورت کے تحت بنتی ہیں' یہی وجہ ہے کہ کاروباری طبقہ سیاسی حکومتوں کی یقین دہانیوں پر اعتبار نہیں کرتا۔
پاکستان میں کئی مواقع پر سیاسی حکومتیں بھی اہم معاملات میں اپنی ناکامی کے بعد فوج کی مدد حاصل کرتی رہی ہیں۔ سیاسی حکومتوں نے اپنی ناکام پالیسیوں کا کبھی تجزیہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کی روایت ڈالی ہے۔ اکثر اوقات سیاسی حکومتیں باہمی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ نے جو فیصلے کیے اس میں بھی ملک میں عدم استحکام پیدا کیا ' یوں نظام حکومت پیچیدہ سے پیچیدہ ہونا شروع ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ کمزور بھی ہوتا گیا۔جسٹس منیر سے شروع ہونے والے نظریہ ضرورت کا فلسفہ کسی نہ کسی رنگ میں چیف جسٹس ثاقب نثار سے عمر عطا بندیال تک چلتا رہا ہے۔ یہ تمام متنازع اور جانبدارانہ فیصلے پاکستانی تاریخ کا حصہ ہیں۔
جن میں بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کو نااہل قرار دینے جیسے فیصلے شامل ہیں۔ان فیصلوں کی بنیاد پر قوم اب تک تقسیم ہے۔ جو غلط فیصلے ماضی میں ہو چکے ان کی تلافی تو ممکن نہیں مگر ان کا اعلیٰ عدلیہ اعتراف کرکے مستقبل کے لیے غلط فیصلوں کی روک تھام کے لیے بند ضرور باندھ سکتی ہے اور ایسا موجودہ عدلیہ کے ججز صاحبان سے ہی ممکن ہے۔
9 مئی کی ذمے دار پارٹی اور اس کے حواریوں نے پاک فوج کو اپنے سوشل میڈیا ٹرولرز کے ذریعے نشانہ بنا رکھا ہے اور اسی پارٹی کے حامی وکلا موجودہ چیف جسٹس اور ان کی مرضی کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرکے آئین پر عمل کرنے والے ججز کے خلاف تقاریر کر رہے ہیں مگر اپنے گریبانوں میں جھانکنے پر تیار نہیں۔
وکلاء کو ملک کے اہم ترین اداروں کو متنازعہ بنانے کی مہم سے خود کو الگ کرنا ہو گا کیونکہ کچھ قوتیں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے وکلاء کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں' وکلاء کو اس حوالے سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے' انھیں مقدمات اور ان کے فیصلوں کو صرف آئین اور قانون کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔کسی جماعت کے لیے اداروں کو متنازعہ بنانا کم از کم قانون دانوں کا کام نہیں ہونا چاہیے۔
تمام تر رکاوٹوں کے باوجود معاشی اشاریے بہتری کی نوید دے رہے ہیں' اس کے ساتھ ساتھ ملک میں عام انتخابات کا عمل بھی شروع ہے اور یہ یقینی ہے کہ الیکشن 8فروری کو مکمل ہو جائیں گے۔یوں ملک میں جمہوری عمل چلتا رہے گا'ورنہ پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کی تو پوری کوشش تھی کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے۔
پی ٹی آئی کے بانی نے ملک کے اعلیٰ عہدوں کو متنازعہ بنانے کی پوری کوشش کی ہے اور یہ اب تک جاری ہے۔ پاک فوج کے سربراہ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن اللہ کو جو منظور تھا وہ ہو کر رہا' دونوں کو قدرت نے یہ موقعہ فراہم کیا ہے اور وہ ملک میں نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ان ایام میں اب تک وہ کچھ ہو گیا جس کا 76 سالوں میں تصور تک نہیں تھا۔
جس وقت پی ٹی آئی کے بانی ملک کے وزیر اعظم تھے' انھوں نے پوری کوشش کی کہ جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس نہ بن سکے۔ اپنے اقتدار کے عروج پر 16 ستمبر 2023 کو موجودہ چیف جسٹس کے خلاف اپنے ماتحت صدر مملکت کے ذریعے سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس بھیجا تھا مگر قدرت کو نام کے قاضی کو چیف جسٹس بنوانا منظور تھا اس لیے پی ٹی آئی حکومت کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔
موجودہ آرمی چیف نے ملک کے بعض اہم مسائل پربھرپور توجہ دی ہے اور ملک میں ڈالر کی بڑھتی قیمت کنٹرول کرائی بلکہ تین سو روپے سے بڑھ جانے والا ڈالر پونے تین سو روپے کے قریب آ گیا بلکہ سونے کی قیمت نمایاں طور پر کم ہوئی اور ملک میں انڈیکس بڑھنے کا ریکارڈ قائم ہوا۔ آرمی چیف نے زراعت کے فروغ پر توجہ دی اور گرین پاکستان کے سلسلے میں ایک سیمینار کا انعقاد بھی کرایا۔
ملک میں آرمی چیف پہلے بھی ملک کے اہم معاملات کو بہتر بنانے پر توجہ دے چکے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے صنعتکار اور تاجر سیاسی حکومتوں پر اعتماد نہیں کرتے اور آرمی چیف کی یقین دہانیوں کو ہی قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ سیاسی حکومتیں پسند اور نا پسند کی بنیاد پر کام کرتی ہیں ' ان کی پالیسیاں بھی وقتی ضرورت کے تحت بنتی ہیں' یہی وجہ ہے کہ کاروباری طبقہ سیاسی حکومتوں کی یقین دہانیوں پر اعتبار نہیں کرتا۔
پاکستان میں کئی مواقع پر سیاسی حکومتیں بھی اہم معاملات میں اپنی ناکامی کے بعد فوج کی مدد حاصل کرتی رہی ہیں۔ سیاسی حکومتوں نے اپنی ناکام پالیسیوں کا کبھی تجزیہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کی روایت ڈالی ہے۔ اکثر اوقات سیاسی حکومتیں باہمی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ نے جو فیصلے کیے اس میں بھی ملک میں عدم استحکام پیدا کیا ' یوں نظام حکومت پیچیدہ سے پیچیدہ ہونا شروع ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ کمزور بھی ہوتا گیا۔جسٹس منیر سے شروع ہونے والے نظریہ ضرورت کا فلسفہ کسی نہ کسی رنگ میں چیف جسٹس ثاقب نثار سے عمر عطا بندیال تک چلتا رہا ہے۔ یہ تمام متنازع اور جانبدارانہ فیصلے پاکستانی تاریخ کا حصہ ہیں۔
جن میں بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کو نااہل قرار دینے جیسے فیصلے شامل ہیں۔ان فیصلوں کی بنیاد پر قوم اب تک تقسیم ہے۔ جو غلط فیصلے ماضی میں ہو چکے ان کی تلافی تو ممکن نہیں مگر ان کا اعلیٰ عدلیہ اعتراف کرکے مستقبل کے لیے غلط فیصلوں کی روک تھام کے لیے بند ضرور باندھ سکتی ہے اور ایسا موجودہ عدلیہ کے ججز صاحبان سے ہی ممکن ہے۔
9 مئی کی ذمے دار پارٹی اور اس کے حواریوں نے پاک فوج کو اپنے سوشل میڈیا ٹرولرز کے ذریعے نشانہ بنا رکھا ہے اور اسی پارٹی کے حامی وکلا موجودہ چیف جسٹس اور ان کی مرضی کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرکے آئین پر عمل کرنے والے ججز کے خلاف تقاریر کر رہے ہیں مگر اپنے گریبانوں میں جھانکنے پر تیار نہیں۔
وکلاء کو ملک کے اہم ترین اداروں کو متنازعہ بنانے کی مہم سے خود کو الگ کرنا ہو گا کیونکہ کچھ قوتیں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے وکلاء کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں' وکلاء کو اس حوالے سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے' انھیں مقدمات اور ان کے فیصلوں کو صرف آئین اور قانون کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔کسی جماعت کے لیے اداروں کو متنازعہ بنانا کم از کم قانون دانوں کا کام نہیں ہونا چاہیے۔