
بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ میں متھرا کی قدیم مسجد کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی سماعت جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکار دتا نے کی جنھوں نے مسجد کی انتظامیہ اور انتہا پسند ہندو جماعت کا مؤقف سنا۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ کے ججز نے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کو رکوا دیا اور فیصلے میں لکھا کہ مسجد کا سروے کرنے کے لیے کمیشن بہت کمزور بنیاد پر بنایا گیا تھا۔
واضح رہے بھارتی ریاست اترپردیش کے علاقے متھرا کی 17 ویں صدی میں تعمیر کی گئی شاہی مسجد کو انتہا پسند ہندوؤں نے بھگوان کرشنا کی جنم بھومی قرار دے کر مندر بنانے کے لیے 13.37 ایکڑ زمین پر ملکیت کا دعویٰ دائر کیا تھا۔
یہ خبر پڑھیں : بابری مسجد کی جگہ تعمیرکردہ مندر کو پوجا کیلیے جنوری میں کھول دیا جائے گا
انتہا پسند ہندوؤں نے عدالت سے اس حقیقت کو جاننے کے لیے کہ آیا مسجد کسی مندر پر بنائی گئی ہے آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ سے سروے کرانے کی استدعا کی تھی جیسا کہ وارانسی مسجد میں بھی کیا گیا تھا۔
جس پر دسمبر 2023 کو الہ آباد کی ہائیکورٹ نے کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔ تاکہ شاہی عید گاہ مسجد کے بارے میں حتمی فیصلہ کیا جا سکے کہ یہ کسی مندر پر بنائی گئی ہے یا ہندو اکثریت کا اس بارے میں موقف درست نہیں ہے۔
عدالتی حکم پر بنائے گئے کمیشن نے مسجد کے سروے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے الہ آباد کے فیصلے پر تاریخی شاہی عید گاہ مسجد کا سروے رکوادیا۔
خیال رہے کہ یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا افتتاح وزیر اعظم مودی کرنے جا رہے ہیں جب کہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ مودی یہ سب الیکشن میں کامیابی کے لیے کر رہے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔