حکومت نے سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مہم کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دیدی

جے آئی ٹی مہم کے پیچھے چھپے حقائق اور ذمہ داروں کا تعین اور مستقبل کے لیے تجاویز دے گی، وزارت داخلہ کا نوٹیفکیشن


ویب ڈیسک January 16, 2024
چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم کے خلاف جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مہم کے محرکات اور ذمہ داروں کے حوالے سے تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کی سائبر کرائم ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں 6 رکنی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔

وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 کی دفعہ 30 کے تحت وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ججوں کو بدنام کرنے کے لیے چلائی جانے والی مہم کی تحقیقات کے لیے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں جے آئی ٹی انٹیلی جینس بیورو (آئی بی)، انٹرسروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے 20 گریڈ کے افسران، اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے 20 گریڈ کے افسر اور ایک افسر پر مشتمل ہوگی۔

نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی کے ٹی آر اوز میں سپریم کورٹ کے معزز ججوں کی بدنامی کی کوشش کے لیے سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کے پیچھے چھپے حقائق کا تعین کرنا، ملزمان کی شناخت کرکے ان کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ کرنا اور متعلقہ عدالتوں میں پیش کرنے علاوہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے تجاویز مرتب کرنا شامل ہے۔

جے آئی ٹی سے کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کو 15 روز میں ابتدائی رپورٹ جمع کرا دی جائے گی اور ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز جے آئی ٹی کو تعاون فراہم کرے گا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری مہم کے تناظر میں اسلام آباد میں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل سمیت دیگر عہدیداران نے پریس کانفرنس میں اداروں اور ججوں پر تنقید کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کو کہتے ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان کے خلاف مہم چلانے والوں پر کارروائی کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں