توانائی کا بحران اور متبادل ذرایع کا استعمال
توانائی کے متبادل ذرایع کی بات کی جائے تو بائیو گیس کا آپشن بھی موجود ہے
پٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے فی لیٹر کمی کردی گئی ہے، اب نئی قیمت259 روپے 34 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ نگران حکومت نے نندی پور اورگڈو پاور پلانٹ کی نجکاری کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پارو پلانٹس کے شیئرز پی ایس او کو ملنے سے گیس سیکٹرکا گردشی قرضہ ایک سو ارب روپے کم ہوگا، جب کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں لگا تار اضافوں کے باوجود توانائی سیکٹرکا گردشی قرضہ مسلسل اضافے کے ساتھ 5.73 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی قابل ستائش اقدام ہے، لیکن دوسری جانب ملک میں جاری توانائی کا بحران اورگردشی قرضوں میں اضافہ الارمنگ صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے۔ تیل کی قمیت میں کمی اچھی بات لیکن گیس اور بجلی کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔اس وجہ سے متوسط اور غریب طبقے کی مالی مشکلات ناقابل بیان حد تک بڑھ چکی ہیں۔
کسی ملک کی معاشی خوشحالی کی بنیاد توانائی کا شعبہ ہے، توانائی کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔ پاکستان فی الوقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک کی کل آبادی کا تقریبا 68 فیصد دیہی آبادی لکڑی،کوئلے اور گوبرپاتھیوں کو بطور ایندھن استعمال کرتی ہے۔
شہروں میں اگرچہ گیس و بجلی دستیاب ہیں مگر یہ مسلسل مہنگی ہوتی جارہی ہے ۔ شہروں میں ہریالی مسلسل کمی ہورہی ہے جب کہ جنگلات کا رقبہ بھی انتہائی مختصر ہوچکا ہے ،گاڑیوں اور کارخانوں کے دھوین اور ویسٹ کی وجہ سے فضا آلو ہوچکی ہے ۔
نگران حکومت نے 60 فیصد بجلی توانائی کے متبادل ذرایع سے پیدا کرنے کا ہدف مقررکیا ہے جن میں ہائیڈرو، ونڈ اور سولر انرجی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں پانی، ہوا اور سولر انرجی اور کوڑے کرکٹ کے ذریعے بجلی پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں فصلوں کی باقیات اور کوڑے کرکٹ سے اچھی خاصی مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
ملک میں فصلوں کی باقیات کا سالانہ حجم 15 ملین ٹن کے قریب ہے جس سے 120 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دوسرا بڑا فضلہ میونسپل سالڈ ویسٹ، کوڑا کرکٹ ہے اور ملک میں یومیہ 60 ہزار ٹن کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا جاتا ہے، جس میں سالانہ 2.5 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔
فصلوں کی باقیات اور کوڑے کرکٹ کے علاوہ متبادل ذرایع یعنی ہوا، سورج اور بائیو ماس وغیرہ توانائی حاصل کرکے تھرمل بجلی،قدرتی گیس اور تیل پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے اور درآمدی بل میں بھی نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔
دنیا بھر میں توانائی کے متبادل ذرایع میں بائیو انرجی کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بائیو انرجی انڈسٹری، پائیدار جنگلات کو فروغ دینے کے ساتھ مقامی افراد کو روزگار کی ضمانت بھی دیتی ہے۔ پاکستان توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے چین کے تعاون سے سی پیک کے تحت کئی کول پاور پلانٹس منصوبوں پرکام کررہا ہے۔
گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان نے توانائی کے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا ہے، جن کی وجوہات میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، گیس اور بجلی کی شدید قلت، گردشی قرضے اور بجلی اور گیس کی تقسیم اور منتقلی کے پرانے اور ناقص نظام ہیں۔
ماہرین سیاسی سنجیدگی کا فقدان، غلط ترجیحات، مناسب پالیسیوں کی غیر موجودگی اور کرپشن کو پاکستان میں توانائی کے مسائل کی بڑی وجوہات قرار دیتے ہیں۔ بجلی بنانے والے کئی یونٹس اپنی صلاحیت کے مطابق کام نہیں کررہے ہیں، بہت سے ڈیمز کی کئی ٹربائنز خراب ہوتی رہتی ہی،۔ بجلی کی تقسیم کا نظام ناقص ہے جس کے باعث صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی توانائی ضایع ہو جاتی ہے۔
نئے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق وعدے تو بہت زیادہ کیے جاتے ہیں لیکن جوڈیم جلد تعمیر ہوکر پیداورا دے سکتے ہیں، ان کے بجائے ایسے بڑے پروجیکٹس پر پر قومی سرمایہ لگایا جارہا ہے ، جن کا کام شروع ہونے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں گیس کی ضرورت پوری کرنے کا واحد حل ایل این جی کی درآمد ہے جسے بہتر طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جاتا۔
توانائی کے متبادل ذرایع کی بات کی جائے تو بائیو گیس کا آپشن بھی موجود ہے، بائیوگیس گائے اور بھینسوں کے گوبر سے بنائی جاتی ہے، یہ ماحول دوست توانائی ہے۔
اس گیس کو حرارت کے حصول،کھانا پکانے اور دیگر سرگرمیوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے، دیہات میں بائیوگیس پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں، جو بجلی اورگیس کی فراہمی کا ایک عمدہ اور سستا حل ہے، بھارت میں بائیوگیس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
دیہات میں یونین کونسل کی سطح پر بائیوگیس پلانٹ لگا کردیہی آبادی کو سستی توانائی فراہم کی جاسکتی ہے جب کہ بائیوگیس پلانٹ کے ویسٹ سے کسانوں کو کھاد فراہمی کی جاسکتی ہے ، ایسا ہوجائے تو دیہی زندگی آسان اور سستی ہوسکتی ہے ۔
بائیوگیس بنانے کے لیے کم وبیش تمام قسم کے جانوروں کے فضلہ جات، تمام سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے اور درختوں کے پتے وغیرہ تک استعمال ہوتے ہیں۔ دنیا میں بھارت ، چین اورکئی یورپی ملکوں میں بائیوگیس استعمال کی جارہی ہے ۔
کراچی میں ریڈ لائن بس راہداری منصوبے کے لیے میتھین گیس کو قدرتی گیس سے الگ کر کے مخصوص بس ڈپوں کے سی این جی ٹنکیوں تک پہنچایا جائے گا۔
ان خصوصی بسوں میں چھتوں تک گیس کی ترسیل کے لیے سلنڈر لگے ہوں گے۔ اسی طرح کی بسیں ڈنمارک، سویڈن، اٹلی اور ترکی میں عوامی نقل و حرکت کے نظام کا ایک حصہ ہیں۔ حال ہی میں یہ نظام دہلی میں بھی متعارف کروایا گیا ہے۔
کراچی میں ریڈ لائن بس راہداری منصوبے میں چونکہ اس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے موافقت اور تخفیف کے متعدد اقدامات شامل ہیں، چناچہ یہ دنیا کا سب سے پہلا ٹرانسپورٹ پروجیکٹ ہے جو گرین کلائمیٹ فنڈ سے بائیو گیس پلانٹ کے لیے تقریباً 4 کروڑ ڈالر اور گرین فیول کی ٹیکنالوجی کے لیے اضافی لاگت اور تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی اضافی گرانٹ حاصل کرے گا۔
اس منصوبے سے ہر سال 2 لاکھ 45 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی بچت ہوگی جب کہ 20 سال کی مدت میں 49 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ممکن ہوگا۔
اس میں سے بی آر ٹی پروجیکٹ کے (ماڈل شفٹ اور کارکردگی) کی وجہ سے 38 فیصد اخراج کی بچت اور اور 62 فیصد فضلے سے ایندھن بننے والی بائیو گیس منصوبے کی وجہ سے بچت ممکن ہوگی۔
پاکستان کی ساحلی پٹی جو تقریباً 1050 کلو میٹر ہے جس پر ہمیشہ بارہ تا پندرہ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا چلتی ہے اس قدرتی ہوا کو استعمال میں لاکر ونڈ ٹربائن جو کہ پوری دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں کو لگایا جائے جو دو سے چار میگا واٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اُن کی انسٹالیشن ایک دفعہ ہوتی ہے اور اُس سے ہمیشہ بجلی حاصل ہوتی رہے گی۔
سولرپینل کو کون نہیں جانتا لیکن ہر شخص اِسے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ لہٰذا اس کو بینک کے ذریعے تمام لوگوں کو انسٹالمنٹ کے ذریعے دیا جائے اُسی طرز پر جس طرح اسرائیل نے تمام لوگوں کو سولر پینل بذریعہ بینک دے کر اپنے ملک سے بجلی کا مسئلہ حل کیا۔ پاکستان میں منگلہ اور تربیلہ کے بعد کوئی حکومت بڑا آبی ذخیرہ نہیں بنا سکی ہے جس کی وجہ سے ملک میں بجلی کا بحران پیدا ہو گیا۔
غالباً اس دورکی سب سے کم لاگت کی بجلی صرف تھرمل طریقے سے ہی بن سکتی ہے، لیکن جب چائنہ میں ڈیم بن رہے ہیں اور انڈیا پاکستان کے پانیوں کو روک کر ڈیم بنا رہا ہے، ہمیں ڈیم بنانے پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ کیونکہ یہی سب سے سستا بجلی کا ذریعہ ہے۔
ہمیں اپنی بقا کے لیے جوہری ایٹمی گھروں کو بنانا ہوگا اور موجودہ جوہری گھروں کی استعداد پہلے سے زیادہ کرنی ہوگی اور یہ جوہری پلانٹ صرف بجلی کے حصول کے لیے ہوں گے۔ سولر ہیٹ پلانٹ، دنیا کے بہت سارے ممالک میں حتیٰ کہ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ریفلیکٹر شیشوں کی مدد سے تمام روشنی اور ہیٹ کو ایک نقطے پر مرکوز کر کے اُس بے انتہااضافہ شدہ ہیٹ سے پانی گرم کیا جاتاہے اور اُس ہیٹ سے اسٹیم ٹربائن جنریٹر چلا کر بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح آبشاروں کے گرتے ہوئے پانی کے نیچے ٹربائن جنریٹر لگا کر اس پانی سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں بھی بڑھتی آبادی، مہنگائی اور زوال پذیر معیشت میں توانائی کے قابل تجدید ذرایع کو کام میں لا نا ضروری ہے۔
توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے سرعت سے فیصلہ سازی اور موثر پلاننگ اہم ترین ضروریات ہیں۔ دوسری بہت ساری چیزوں کے علاوہ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعے توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
پارو پلانٹس کے شیئرز پی ایس او کو ملنے سے گیس سیکٹرکا گردشی قرضہ ایک سو ارب روپے کم ہوگا، جب کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں لگا تار اضافوں کے باوجود توانائی سیکٹرکا گردشی قرضہ مسلسل اضافے کے ساتھ 5.73 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی قابل ستائش اقدام ہے، لیکن دوسری جانب ملک میں جاری توانائی کا بحران اورگردشی قرضوں میں اضافہ الارمنگ صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے۔ تیل کی قمیت میں کمی اچھی بات لیکن گیس اور بجلی کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔اس وجہ سے متوسط اور غریب طبقے کی مالی مشکلات ناقابل بیان حد تک بڑھ چکی ہیں۔
کسی ملک کی معاشی خوشحالی کی بنیاد توانائی کا شعبہ ہے، توانائی کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔ پاکستان فی الوقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک کی کل آبادی کا تقریبا 68 فیصد دیہی آبادی لکڑی،کوئلے اور گوبرپاتھیوں کو بطور ایندھن استعمال کرتی ہے۔
شہروں میں اگرچہ گیس و بجلی دستیاب ہیں مگر یہ مسلسل مہنگی ہوتی جارہی ہے ۔ شہروں میں ہریالی مسلسل کمی ہورہی ہے جب کہ جنگلات کا رقبہ بھی انتہائی مختصر ہوچکا ہے ،گاڑیوں اور کارخانوں کے دھوین اور ویسٹ کی وجہ سے فضا آلو ہوچکی ہے ۔
نگران حکومت نے 60 فیصد بجلی توانائی کے متبادل ذرایع سے پیدا کرنے کا ہدف مقررکیا ہے جن میں ہائیڈرو، ونڈ اور سولر انرجی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں پانی، ہوا اور سولر انرجی اور کوڑے کرکٹ کے ذریعے بجلی پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں فصلوں کی باقیات اور کوڑے کرکٹ سے اچھی خاصی مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
ملک میں فصلوں کی باقیات کا سالانہ حجم 15 ملین ٹن کے قریب ہے جس سے 120 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دوسرا بڑا فضلہ میونسپل سالڈ ویسٹ، کوڑا کرکٹ ہے اور ملک میں یومیہ 60 ہزار ٹن کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا جاتا ہے، جس میں سالانہ 2.5 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔
فصلوں کی باقیات اور کوڑے کرکٹ کے علاوہ متبادل ذرایع یعنی ہوا، سورج اور بائیو ماس وغیرہ توانائی حاصل کرکے تھرمل بجلی،قدرتی گیس اور تیل پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے اور درآمدی بل میں بھی نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔
دنیا بھر میں توانائی کے متبادل ذرایع میں بائیو انرجی کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بائیو انرجی انڈسٹری، پائیدار جنگلات کو فروغ دینے کے ساتھ مقامی افراد کو روزگار کی ضمانت بھی دیتی ہے۔ پاکستان توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے چین کے تعاون سے سی پیک کے تحت کئی کول پاور پلانٹس منصوبوں پرکام کررہا ہے۔
گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان نے توانائی کے بڑے بحرانوں کا سامنا کیا ہے، جن کی وجوہات میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، گیس اور بجلی کی شدید قلت، گردشی قرضے اور بجلی اور گیس کی تقسیم اور منتقلی کے پرانے اور ناقص نظام ہیں۔
ماہرین سیاسی سنجیدگی کا فقدان، غلط ترجیحات، مناسب پالیسیوں کی غیر موجودگی اور کرپشن کو پاکستان میں توانائی کے مسائل کی بڑی وجوہات قرار دیتے ہیں۔ بجلی بنانے والے کئی یونٹس اپنی صلاحیت کے مطابق کام نہیں کررہے ہیں، بہت سے ڈیمز کی کئی ٹربائنز خراب ہوتی رہتی ہی،۔ بجلی کی تقسیم کا نظام ناقص ہے جس کے باعث صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی توانائی ضایع ہو جاتی ہے۔
نئے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق وعدے تو بہت زیادہ کیے جاتے ہیں لیکن جوڈیم جلد تعمیر ہوکر پیداورا دے سکتے ہیں، ان کے بجائے ایسے بڑے پروجیکٹس پر پر قومی سرمایہ لگایا جارہا ہے ، جن کا کام شروع ہونے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں گیس کی ضرورت پوری کرنے کا واحد حل ایل این جی کی درآمد ہے جسے بہتر طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جاتا۔
توانائی کے متبادل ذرایع کی بات کی جائے تو بائیو گیس کا آپشن بھی موجود ہے، بائیوگیس گائے اور بھینسوں کے گوبر سے بنائی جاتی ہے، یہ ماحول دوست توانائی ہے۔
اس گیس کو حرارت کے حصول،کھانا پکانے اور دیگر سرگرمیوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے، دیہات میں بائیوگیس پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں، جو بجلی اورگیس کی فراہمی کا ایک عمدہ اور سستا حل ہے، بھارت میں بائیوگیس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
دیہات میں یونین کونسل کی سطح پر بائیوگیس پلانٹ لگا کردیہی آبادی کو سستی توانائی فراہم کی جاسکتی ہے جب کہ بائیوگیس پلانٹ کے ویسٹ سے کسانوں کو کھاد فراہمی کی جاسکتی ہے ، ایسا ہوجائے تو دیہی زندگی آسان اور سستی ہوسکتی ہے ۔
بائیوگیس بنانے کے لیے کم وبیش تمام قسم کے جانوروں کے فضلہ جات، تمام سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے اور درختوں کے پتے وغیرہ تک استعمال ہوتے ہیں۔ دنیا میں بھارت ، چین اورکئی یورپی ملکوں میں بائیوگیس استعمال کی جارہی ہے ۔
کراچی میں ریڈ لائن بس راہداری منصوبے کے لیے میتھین گیس کو قدرتی گیس سے الگ کر کے مخصوص بس ڈپوں کے سی این جی ٹنکیوں تک پہنچایا جائے گا۔
ان خصوصی بسوں میں چھتوں تک گیس کی ترسیل کے لیے سلنڈر لگے ہوں گے۔ اسی طرح کی بسیں ڈنمارک، سویڈن، اٹلی اور ترکی میں عوامی نقل و حرکت کے نظام کا ایک حصہ ہیں۔ حال ہی میں یہ نظام دہلی میں بھی متعارف کروایا گیا ہے۔
کراچی میں ریڈ لائن بس راہداری منصوبے میں چونکہ اس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے موافقت اور تخفیف کے متعدد اقدامات شامل ہیں، چناچہ یہ دنیا کا سب سے پہلا ٹرانسپورٹ پروجیکٹ ہے جو گرین کلائمیٹ فنڈ سے بائیو گیس پلانٹ کے لیے تقریباً 4 کروڑ ڈالر اور گرین فیول کی ٹیکنالوجی کے لیے اضافی لاگت اور تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی اضافی گرانٹ حاصل کرے گا۔
اس منصوبے سے ہر سال 2 لاکھ 45 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی بچت ہوگی جب کہ 20 سال کی مدت میں 49 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ممکن ہوگا۔
اس میں سے بی آر ٹی پروجیکٹ کے (ماڈل شفٹ اور کارکردگی) کی وجہ سے 38 فیصد اخراج کی بچت اور اور 62 فیصد فضلے سے ایندھن بننے والی بائیو گیس منصوبے کی وجہ سے بچت ممکن ہوگی۔
پاکستان کی ساحلی پٹی جو تقریباً 1050 کلو میٹر ہے جس پر ہمیشہ بارہ تا پندرہ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا چلتی ہے اس قدرتی ہوا کو استعمال میں لاکر ونڈ ٹربائن جو کہ پوری دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں کو لگایا جائے جو دو سے چار میگا واٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اُن کی انسٹالیشن ایک دفعہ ہوتی ہے اور اُس سے ہمیشہ بجلی حاصل ہوتی رہے گی۔
سولرپینل کو کون نہیں جانتا لیکن ہر شخص اِسے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ لہٰذا اس کو بینک کے ذریعے تمام لوگوں کو انسٹالمنٹ کے ذریعے دیا جائے اُسی طرز پر جس طرح اسرائیل نے تمام لوگوں کو سولر پینل بذریعہ بینک دے کر اپنے ملک سے بجلی کا مسئلہ حل کیا۔ پاکستان میں منگلہ اور تربیلہ کے بعد کوئی حکومت بڑا آبی ذخیرہ نہیں بنا سکی ہے جس کی وجہ سے ملک میں بجلی کا بحران پیدا ہو گیا۔
غالباً اس دورکی سب سے کم لاگت کی بجلی صرف تھرمل طریقے سے ہی بن سکتی ہے، لیکن جب چائنہ میں ڈیم بن رہے ہیں اور انڈیا پاکستان کے پانیوں کو روک کر ڈیم بنا رہا ہے، ہمیں ڈیم بنانے پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ کیونکہ یہی سب سے سستا بجلی کا ذریعہ ہے۔
ہمیں اپنی بقا کے لیے جوہری ایٹمی گھروں کو بنانا ہوگا اور موجودہ جوہری گھروں کی استعداد پہلے سے زیادہ کرنی ہوگی اور یہ جوہری پلانٹ صرف بجلی کے حصول کے لیے ہوں گے۔ سولر ہیٹ پلانٹ، دنیا کے بہت سارے ممالک میں حتیٰ کہ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ریفلیکٹر شیشوں کی مدد سے تمام روشنی اور ہیٹ کو ایک نقطے پر مرکوز کر کے اُس بے انتہااضافہ شدہ ہیٹ سے پانی گرم کیا جاتاہے اور اُس ہیٹ سے اسٹیم ٹربائن جنریٹر چلا کر بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح آبشاروں کے گرتے ہوئے پانی کے نیچے ٹربائن جنریٹر لگا کر اس پانی سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں بھی بڑھتی آبادی، مہنگائی اور زوال پذیر معیشت میں توانائی کے قابل تجدید ذرایع کو کام میں لا نا ضروری ہے۔
توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے سرعت سے فیصلہ سازی اور موثر پلاننگ اہم ترین ضروریات ہیں۔ دوسری بہت ساری چیزوں کے علاوہ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعے توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔