ایک صاحب کتاب کا کمزور مقدمہ
ایسے افسر خاصے ہیں، جو حکمرانوں کے سامنے سچی بات نہیں کرتے اور اہم افراد کو ناراض نہیں کرتے ہیں
ہمارے ملک میں خصوصاً سول سروسز میں ایسے افسر بھی ہیں جو قانون و ضابطے کے مطابق سچ بات کرتے ہیں لیکن ایسے افسر خاصے ہیں، جو حکمرانوں کے سامنے سچی بات نہیں کرتے اور اہم افراد کو ناراض نہیں کرتے ہیں۔
حکمرانوں یا بااثر افراد کی ناراضگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق گوئی کا مظاہرہ کرنے والے سول سرونٹس ناپید ہوتے جارہے ہیں، اگرکوئی ایسا ہیرا مل جائے تو اس کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔
واپڈا کے ایک سابق چیئرمین محترم شمس الملک صاحب ایک ایسے ہی روشن ضمیر شخص ہیں، نہایت قابل انجینئر اور ہر لحاظ سے دیانتدار اور حق گو سول سرونٹ، وہ اپنے پیشہ ورانہ علم اور دیانت کی بناء پر کالا باغ ڈیم کے بارے میں ایک واضح موقف رکھتے ہیں اور اس پر کئی دہائیوں سے ثابت قدمی کے ساتھ قائم ہیں۔
کالا باغ کے شدید مخالفین کے گڑھ میں رہتے ہیںمگر انھوں نے اپنے صوبے کے طاقتور سیاسی لیڈروں کے خوف سے کبھی اپنا موقف تبدیل نہیں کیا، مگر قومی یکجہتی کا تقاضا یہی ہے کہ اس سطح کا میگا پروجیکٹ تمام صوبوں کے اتفاق رائے کے بغیر شروع نہ کیا جائے۔
شمس الملک صاحب کے لیے دل میں احترام کے جذبات بہت تھے۔ میں اس وقت ڈی آئی جی کوہاٹ تھا جب وہ 2008 میں صوبۂ خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ بن گئے۔
امن و امان کے سلسلے میں اُن کی میٹینگوں میں شرکت کا موقع ملا تو ان کے لیے عزت و احترام میں مزید اضافہ ہوا۔ چند سال پہلے جب میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس تھری میں سرکاری رہائش گاہ میں رہتا تھاکہ ایک روز کوہسار مارکیٹ سے ملحقہ مسجد سے نکلتے ہوئے ان سے ملاقات ہوگئی، بڑی شفقت سے ملے اور ناچیز کے بارے میں بھی کلماتِ خیرکہتے رہے۔
کچھ دنوں بعد میں اپنی پہلی کتاب ''دو ٹوک باتیں'' شمس الملک صاحب کو پیش کرنے کے لیے ان کے دفتر گیا، تو وہاں ایک اور صاحب بھی موجود تھے جن سے میں واقف نہیں تھا، انھوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا ، ''میں سابق چیف سیکریٹری شکیل درانی ہوں اور میں بھی کتاب لکھنے کا سوچ رہا ہوں، آپ بتائیں کہ کس سے رابطہ کیاجائے۔'' میں نے کہا ''سر! آپ بڑے اہم عہدوں پر رہے ہیں۔
اس لیے آپ کو اپنے تجربات ضرور لکھنے چاہئیں، میری کتاب کے پبلشر نے تو مجھ سے خود رابطہ کیا تھا''۔ اس کے بعددرانی صاحب سے بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔اب کئی سالوں بعد ان سے ملاقات ہوئی ہے اور وہ بھی ان کی کتاب کے ذریعے۔ انھوں نے جس کتاب کے لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، وہ Frontier stations کے نام سے لکھی جسے ایک معروف پبلشنگ ہاؤس نے چھاپا ہے۔
کافی عرصہ پہلے یہ کتاب پڑھ کر اس پر تبصرہ اپنی ڈائری میں لکھ چکا تھا، اب سوشل میڈیا پر اس کا پھر اشتہار دیکھا تو تبصرہ قارئین سے شیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ قارئین جو ہر سول سرونٹ میں کسی مختار مسعود اور کتابوں میں ْآوازِ دوست، کو تلاش کرتے ہیں ،موجودہ دور کے سول سرونٹس میں ایسے لکھاری ملنا مشکل ہے تاہم شکیل درانی صاحب کی کتاب پڑھ کر مجھے ''مایوسی'' نہیں ہوئی، میں انھیں سب سے پہلے اس بات کی مبارکباد دوںگا کہ انھوں نے کتاب لکھنے کا پروجیکٹ مکمل کر ڈالا۔
دوسرا یہ کہ انھوں نے معیاری زبان (انگریزی) میں اپنی سروس کے کئی واقعات اور تجربات شیئر کیے ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور معلوماتی بھی۔ تیسرا یہ کہ مصنف نے کچھ مشکوک افراد کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ان شخصیات کے لیے بھی جنھوں نے اپنی زندگی دوسروں کے دکھ درد بانٹنے اور ان کے مصائب کم کرنے کے لیے وقف کردی ہے۔
پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور آخری یہ کہ انھوں نے کتاب میں ہمارے پیارے اور قابلِ فخر بھانجے اسامہ احمد (ڈپٹی کمشنر چترال) کی شہادت پر دکھ کا اظہار ہے۔ اس آخری وجہ کے باعث راقم نے سوچا تھا کہ کتاب پر لکھوں ضرور لیکن اپنے ذاتی تحفظات کا اظہار نہ کروں۔ مگرintellectual honesty کا تقاضا بھی تھا اور دباؤ بھی کہ ملک کے اہم اور سنگین واقعات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور مصنف کے موقف پر اپنی دیانتدارانہ رائے کا اظہارکیا جائے۔
کتاب کی جانب آتے ہیں، ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''ا ب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ہمارا ملک اپنے مسائل حل کرنے میں کیوں ناکام رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر حکمران لالچی اور مفاد پرست تھے''۔ بیوروکریسی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ'' ماضی میں بیوروکریسی کا طرزِعمل منصفانہ اور باوقار ہوتا تھامگر اب سیاستدان بیوروکریسی کے ساتھ مالک اور نوکر کا تعلق چاہتے ہیں''۔
یہاں ایک روایتی بیوروکریٹ کی طرح انھوں نے اپنی برادری کی کمزوریوں، خامیوں، مفاد پرستی، مالی ہوس کا تذکرہ نہیں کیا' حالانکہ انھیں یہ لکھنا چاہیے تھا کہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی بھی عوام کی توقعات پر قطعاً پورا نہیں اُتری، ان میں سے زیادہ تر کرپشن میں ملوث ہیں اورایک بڑی اکثریت حکمرانوں کے ذاتی نوکر بننے کے لیے تیار رہتی ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
مئی2007 میں کتاب کے مصنف سندھ کے چیف سیکریٹری تھے۔ 12مئی2007کو کراچی کی سڑکوں پر بدترین درندگی کا مظاہرہ ہوا اور انسانی خون سے ہولی کھیلی گئی(جسے طلعت حسین سمیت کچھ صحافیوں نے جان پر کھیل کر رپورٹ کیا،) وہ کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی، ان واقعات میں پچاس بے گناہ انسانوں کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا تھا۔
مصنف نے خود بھی اسے ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ وہ خود مانتے ہیں کہ اس خونی کھیل کی منصوبہ بندی کئی دنوں سے ہو رہی تھی، چیف سیکریٹری بھی یقیناً آگاہ ہوں گے۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ صاحب کتاب 12مئی کے سانحے کا ذکر کس طرح کرتے ہیں۔ اس سانحے کا کتاب کے آغاز میں مختصر مگر آخر میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔
مصنف لکھتے ہیں کہ ''چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کامیاب ریلیوں نے جنرل مشرف اور اس کی وردی کے بل پر بنے ہوئے وزرائے اعلیٰ کو خوفزدہ کردیا تھا، اس لیے جنرل مشرف اوراس کی تخلیق کردہ سندھ حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ چیف جسٹس کی اس طرح کی ریلی کراچی میںنہیں نکلنے دی جائے گی۔
افتخار چوہدری سندھ ہائیکورٹ میں کراچی بار سے خطاب کے لیے 12 مئی کو آنا چاہتے تھے اور وکلاء انھیںایئرپورٹ سے جلوس کی صورت میں سندھ ہائیکورٹ لانا چاہتے تھے، اس جلوس اور ریلی کو روکنے کے لیے بارہ مئی سے چار روز پہلے گورنر ہاؤس میں میٹنگیں شروع ہوگئیں جس میں تمام متعلقہ سول اور عسکری حکام شریک ہوتے رہے،ان میٹنگوں میں طے ہوا کہ چیف جسٹس کو ایئرپورٹ بلڈنگ سے باہر نہیں آنے دیا جائے گا۔
اس وقت کا وزیرِاعلیٰ سندھ صدر مشرف کے حکم کی تعمیل چاہتا تھا مگر انٹیلی جنس ایجنسی کا ایک اعلیٰ عہدیدار اس سے بھی زیادہ پرجوش تھے اور کہتے تھے کہ افتخار چوہدری کو کسی قیمت پر ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکلنے دیا جائے گا''۔
مصنف نے لکھا ہے کہ گورنر ہاؤس میں ہونے والی میٹنگوں میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ نہ صرف چیف جسٹس کے استقبال کے لیے وکلاء اور شہریوں کو جلوس نہیں نکالنے دیا جائے گا بلکہ اس کے مقابلے میں حکومت کے حامی شاہراہِ فیصل پر ایک زبردست ریلی نکالیں گے۔ اس صورتِ حال میں تصادم ناگزیر تھا ۔ مصنف نے جنرل مشرف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''حکمران کراچی کی سڑکوں پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے''۔
مصنف مزید لکھتے ہیں''یوں محسوس ہوتا تھا کہ آئی جی سندھ اور سی سی پی او کراچی میں جرأت اور احساسِ ذمّے داری کا فقدان ہے، کیونکہ وہ قانون کو فراموش کرکے صدر اور وزیرِاعلیٰ کو سپورٹ کررہے تھے''۔ اس کے بعدوہ بتاتے ہیں کہ '' 12مئی سے ایک روز پہلے سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد نے گورنر کو لکھا کہ امن برقرار رکھنے کے لیے کراچی میں ہر قسم کی ریلیوں پر پابندی لگا دی جائے۔
اس پر گورنر نے اطمینان کا سانس لیا کہ اب حالات پر امن رہیں گے مگر جب بات اسلام آباد پہنچی تو انھوں نے (یعنی جنرل مشرف نے) گورنر کو چیف جسٹس کی ہدایت نظر انداز کرکے عوامی طاقت کامظاہرہ کرنے یعنی چیف جسٹس کے خلاف ریلی نکالنے کے پروگرام پر قائم رہنے کی ہدایت کی'' ۔
(جاری ہے)
حکمرانوں یا بااثر افراد کی ناراضگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق گوئی کا مظاہرہ کرنے والے سول سرونٹس ناپید ہوتے جارہے ہیں، اگرکوئی ایسا ہیرا مل جائے تو اس کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔
واپڈا کے ایک سابق چیئرمین محترم شمس الملک صاحب ایک ایسے ہی روشن ضمیر شخص ہیں، نہایت قابل انجینئر اور ہر لحاظ سے دیانتدار اور حق گو سول سرونٹ، وہ اپنے پیشہ ورانہ علم اور دیانت کی بناء پر کالا باغ ڈیم کے بارے میں ایک واضح موقف رکھتے ہیں اور اس پر کئی دہائیوں سے ثابت قدمی کے ساتھ قائم ہیں۔
کالا باغ کے شدید مخالفین کے گڑھ میں رہتے ہیںمگر انھوں نے اپنے صوبے کے طاقتور سیاسی لیڈروں کے خوف سے کبھی اپنا موقف تبدیل نہیں کیا، مگر قومی یکجہتی کا تقاضا یہی ہے کہ اس سطح کا میگا پروجیکٹ تمام صوبوں کے اتفاق رائے کے بغیر شروع نہ کیا جائے۔
شمس الملک صاحب کے لیے دل میں احترام کے جذبات بہت تھے۔ میں اس وقت ڈی آئی جی کوہاٹ تھا جب وہ 2008 میں صوبۂ خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ بن گئے۔
امن و امان کے سلسلے میں اُن کی میٹینگوں میں شرکت کا موقع ملا تو ان کے لیے عزت و احترام میں مزید اضافہ ہوا۔ چند سال پہلے جب میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس تھری میں سرکاری رہائش گاہ میں رہتا تھاکہ ایک روز کوہسار مارکیٹ سے ملحقہ مسجد سے نکلتے ہوئے ان سے ملاقات ہوگئی، بڑی شفقت سے ملے اور ناچیز کے بارے میں بھی کلماتِ خیرکہتے رہے۔
کچھ دنوں بعد میں اپنی پہلی کتاب ''دو ٹوک باتیں'' شمس الملک صاحب کو پیش کرنے کے لیے ان کے دفتر گیا، تو وہاں ایک اور صاحب بھی موجود تھے جن سے میں واقف نہیں تھا، انھوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا ، ''میں سابق چیف سیکریٹری شکیل درانی ہوں اور میں بھی کتاب لکھنے کا سوچ رہا ہوں، آپ بتائیں کہ کس سے رابطہ کیاجائے۔'' میں نے کہا ''سر! آپ بڑے اہم عہدوں پر رہے ہیں۔
اس لیے آپ کو اپنے تجربات ضرور لکھنے چاہئیں، میری کتاب کے پبلشر نے تو مجھ سے خود رابطہ کیا تھا''۔ اس کے بعددرانی صاحب سے بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔اب کئی سالوں بعد ان سے ملاقات ہوئی ہے اور وہ بھی ان کی کتاب کے ذریعے۔ انھوں نے جس کتاب کے لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، وہ Frontier stations کے نام سے لکھی جسے ایک معروف پبلشنگ ہاؤس نے چھاپا ہے۔
کافی عرصہ پہلے یہ کتاب پڑھ کر اس پر تبصرہ اپنی ڈائری میں لکھ چکا تھا، اب سوشل میڈیا پر اس کا پھر اشتہار دیکھا تو تبصرہ قارئین سے شیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ قارئین جو ہر سول سرونٹ میں کسی مختار مسعود اور کتابوں میں ْآوازِ دوست، کو تلاش کرتے ہیں ،موجودہ دور کے سول سرونٹس میں ایسے لکھاری ملنا مشکل ہے تاہم شکیل درانی صاحب کی کتاب پڑھ کر مجھے ''مایوسی'' نہیں ہوئی، میں انھیں سب سے پہلے اس بات کی مبارکباد دوںگا کہ انھوں نے کتاب لکھنے کا پروجیکٹ مکمل کر ڈالا۔
دوسرا یہ کہ انھوں نے معیاری زبان (انگریزی) میں اپنی سروس کے کئی واقعات اور تجربات شیئر کیے ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور معلوماتی بھی۔ تیسرا یہ کہ مصنف نے کچھ مشکوک افراد کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ان شخصیات کے لیے بھی جنھوں نے اپنی زندگی دوسروں کے دکھ درد بانٹنے اور ان کے مصائب کم کرنے کے لیے وقف کردی ہے۔
پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور آخری یہ کہ انھوں نے کتاب میں ہمارے پیارے اور قابلِ فخر بھانجے اسامہ احمد (ڈپٹی کمشنر چترال) کی شہادت پر دکھ کا اظہار ہے۔ اس آخری وجہ کے باعث راقم نے سوچا تھا کہ کتاب پر لکھوں ضرور لیکن اپنے ذاتی تحفظات کا اظہار نہ کروں۔ مگرintellectual honesty کا تقاضا بھی تھا اور دباؤ بھی کہ ملک کے اہم اور سنگین واقعات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور مصنف کے موقف پر اپنی دیانتدارانہ رائے کا اظہارکیا جائے۔
کتاب کی جانب آتے ہیں، ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''ا ب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ہمارا ملک اپنے مسائل حل کرنے میں کیوں ناکام رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر حکمران لالچی اور مفاد پرست تھے''۔ بیوروکریسی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ'' ماضی میں بیوروکریسی کا طرزِعمل منصفانہ اور باوقار ہوتا تھامگر اب سیاستدان بیوروکریسی کے ساتھ مالک اور نوکر کا تعلق چاہتے ہیں''۔
یہاں ایک روایتی بیوروکریٹ کی طرح انھوں نے اپنی برادری کی کمزوریوں، خامیوں، مفاد پرستی، مالی ہوس کا تذکرہ نہیں کیا' حالانکہ انھیں یہ لکھنا چاہیے تھا کہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی بھی عوام کی توقعات پر قطعاً پورا نہیں اُتری، ان میں سے زیادہ تر کرپشن میں ملوث ہیں اورایک بڑی اکثریت حکمرانوں کے ذاتی نوکر بننے کے لیے تیار رہتی ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
مئی2007 میں کتاب کے مصنف سندھ کے چیف سیکریٹری تھے۔ 12مئی2007کو کراچی کی سڑکوں پر بدترین درندگی کا مظاہرہ ہوا اور انسانی خون سے ہولی کھیلی گئی(جسے طلعت حسین سمیت کچھ صحافیوں نے جان پر کھیل کر رپورٹ کیا،) وہ کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی، ان واقعات میں پچاس بے گناہ انسانوں کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا تھا۔
مصنف نے خود بھی اسے ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ وہ خود مانتے ہیں کہ اس خونی کھیل کی منصوبہ بندی کئی دنوں سے ہو رہی تھی، چیف سیکریٹری بھی یقیناً آگاہ ہوں گے۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ صاحب کتاب 12مئی کے سانحے کا ذکر کس طرح کرتے ہیں۔ اس سانحے کا کتاب کے آغاز میں مختصر مگر آخر میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔
مصنف لکھتے ہیں کہ ''چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کامیاب ریلیوں نے جنرل مشرف اور اس کی وردی کے بل پر بنے ہوئے وزرائے اعلیٰ کو خوفزدہ کردیا تھا، اس لیے جنرل مشرف اوراس کی تخلیق کردہ سندھ حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ چیف جسٹس کی اس طرح کی ریلی کراچی میںنہیں نکلنے دی جائے گی۔
افتخار چوہدری سندھ ہائیکورٹ میں کراچی بار سے خطاب کے لیے 12 مئی کو آنا چاہتے تھے اور وکلاء انھیںایئرپورٹ سے جلوس کی صورت میں سندھ ہائیکورٹ لانا چاہتے تھے، اس جلوس اور ریلی کو روکنے کے لیے بارہ مئی سے چار روز پہلے گورنر ہاؤس میں میٹنگیں شروع ہوگئیں جس میں تمام متعلقہ سول اور عسکری حکام شریک ہوتے رہے،ان میٹنگوں میں طے ہوا کہ چیف جسٹس کو ایئرپورٹ بلڈنگ سے باہر نہیں آنے دیا جائے گا۔
اس وقت کا وزیرِاعلیٰ سندھ صدر مشرف کے حکم کی تعمیل چاہتا تھا مگر انٹیلی جنس ایجنسی کا ایک اعلیٰ عہدیدار اس سے بھی زیادہ پرجوش تھے اور کہتے تھے کہ افتخار چوہدری کو کسی قیمت پر ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکلنے دیا جائے گا''۔
مصنف نے لکھا ہے کہ گورنر ہاؤس میں ہونے والی میٹنگوں میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ نہ صرف چیف جسٹس کے استقبال کے لیے وکلاء اور شہریوں کو جلوس نہیں نکالنے دیا جائے گا بلکہ اس کے مقابلے میں حکومت کے حامی شاہراہِ فیصل پر ایک زبردست ریلی نکالیں گے۔ اس صورتِ حال میں تصادم ناگزیر تھا ۔ مصنف نے جنرل مشرف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''حکمران کراچی کی سڑکوں پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر تُلے ہوئے تھے''۔
مصنف مزید لکھتے ہیں''یوں محسوس ہوتا تھا کہ آئی جی سندھ اور سی سی پی او کراچی میں جرأت اور احساسِ ذمّے داری کا فقدان ہے، کیونکہ وہ قانون کو فراموش کرکے صدر اور وزیرِاعلیٰ کو سپورٹ کررہے تھے''۔ اس کے بعدوہ بتاتے ہیں کہ '' 12مئی سے ایک روز پہلے سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد نے گورنر کو لکھا کہ امن برقرار رکھنے کے لیے کراچی میں ہر قسم کی ریلیوں پر پابندی لگا دی جائے۔
اس پر گورنر نے اطمینان کا سانس لیا کہ اب حالات پر امن رہیں گے مگر جب بات اسلام آباد پہنچی تو انھوں نے (یعنی جنرل مشرف نے) گورنر کو چیف جسٹس کی ہدایت نظر انداز کرکے عوامی طاقت کامظاہرہ کرنے یعنی چیف جسٹس کے خلاف ریلی نکالنے کے پروگرام پر قائم رہنے کی ہدایت کی'' ۔
(جاری ہے)