جھگڑا نہیں تو مذاکرات پر آمادہ کیوں

ان کے لیے وکلا حضرات جو جدوجہدکر رہے ہیں، وہ کوئی سیاستدان اور سیاسی کارکن کر ہی نہیں سکتا تھا


Muhammad Saeed Arain January 17, 2024
[email protected]

میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے نئے نامزد چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے' پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اس کی بات سنی جائے، ہماری پارٹی مقتدر حلقوں کے ساتھ میز پر بیٹھنے کو تیار ہے تاکہ غلط فہمیاں دور ہو سکیں۔

بیرسٹر گوہر خان پاکستان کی سیاست میں کبھی بڑا نام نہیں رہے اور نہ ان کی کوئی سیاسی اہمیت ہے۔اب سے پہلے وہ پی پی ٹی میں کبھی کسی مرکزی عہدے پر نہیں رہے۔

وہ تھوڑا عرصہ قبل ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں اور پارٹی کے بانی چیئرمین نے انھیں ممکنہ طویل سزا کے خوف سے اپنی جگہ چیئرمین بنوایا تھا۔سیاسی تجزیہ نگار اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بانی چیئرمین کی حکمت عملی یہ ہے کہ طاقتور وکلاء کے ذریعے عدلیہ سے ریلیف لیا جاسکے۔ بیرسٹر گوہرخان، لطیف کھوسہ،بیرسٹر علی ظفر اور حامد خان پی ٹی آئی کے وکیل بھی ہیں اور پارٹی رہنما بھی ہیں۔

بانی پی ٹی آئی نے اپنی گرفتاری سے قبل بڑے بڑے قانون دانوں تک کو اہمیت نہیں دی تھی نہ انھیں اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا ، حالانکہ جو وکیل پی ٹی آئی کے بانی ارکان ہیں، ان میں حامد خان اور جسٹس وجیہہ الدین جیسے نامور نام شامل تھے ۔لیکن وہ خوشامد کرنے اور ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ نہیں ہیں بلکہ حقائق ماننے اور آئین و قانون کی بات کرنے والے ہیں، اسی لیے ان لوگوں کو سائیڈ لائن ہونے یا پارٹی چھوڑ دینے پر مجبور کیا گیا یا انھیں پارٹی سے نکالا گیا، جن میں اکبر ایس بابر بھی شامل ہیں۔

اب پی ٹی آئی کی کمان کسی تجربہ کار سیاستدان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ وکلا کے ہاتھ میں ہے۔ بانی چیئرمین یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے لیے وکلا حضرات جو جدوجہدکر رہے ہیں، وہ کوئی سیاستدان اور سیاسی کارکن کر ہی نہیں سکتا تھا۔

ججز بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد سے وکلا کی طاقت میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے ۔ وکلاء تنظیموں کے عہدیدار ججز اور پولیس کو دباؤ میں رکھنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ انھوں نے تو لاہور میں دل کے اسپتال تک پر ہلہ بول دیا تھا اور مریضوں کو بھی نہیں بخشا تھا ۔

پی ٹی آئی حکومت میں اسپتال پر حملہ کرنے وکیلوںکے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ ماتحت عدالتوں میں ججز سے لڑنے اور بدتمیزی کرنے والوں کو بھی سزائیں نہیں ملتیں، اب اعلیٰ عدلیہ بھی وکلاء کی اس روش کا شکار ہورہی ہے ۔

پولیس کے لیے تو مشہور ہے کہ وہ وکیلوں سے ڈرتی ہے۔ پولیس افسران اور اہلکار پولیس وردی میں بعض وکیلوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں کیونکہ اس معاملے میں وکلا آزاد ہیں اور اعلیٰ عدالتیں بھی وکیلوں کا لحاظ کرتی ہیں۔

پولیس وکیلوں سے منہ ماری کی بھی جرأت نہیں کرتی اور اپنی بے عزتی کے باوجود خاموش رہتی ہے کیونکہ انھیں علم ہے کہان کی کہیں شنوائی نہیں ہونی، اس لیے وکیلوں سے نہ ہی الجھا جائے۔ گزشتہ دنوں ایک گرفتار وکیل کی عدالت میں ہتھکڑی کھلوائی گئی، ان کی درخواست ایک ہی دن میں نمٹا دی گئی اور رات گئے، ان کی رہائی بھی ہوگئی ۔

حالانکہ الزام پولیس پر حملے کا تھا ، سوچیں اگر ایسا ہی الزام کسی عام آدمی پر ہوتا تو کیا ہوتا۔اب تو چند وکیل چیف جسٹس پاکستان کو بھی للکار رہے ہیں ، پاک فوج کا بھی خیال اور احساس نہیں کیا جارہا جو مسلسل دہشت گردوں کے ساتھ جنگ کررہی ہے ، ذرا سوچیں، اگر دہشت گردوں کے سامنے پاک فوج کی دیوار نہ ہوتی تو پاکستان دوسرا افغانستان، یمن ، صومالیہ یا شام بن چکا ہوتا۔

امریکا، برطانیہ ، روس اور چین میں کوئی گروہ فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوجائے، حساس فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچائے، کیا اس کے ذمے داران سزا سے بچ پائیں گے؟ لیکن پاکستان میں فوجی املاک پر حملہ کرنے والے ملزموںکی حمایت کی جاتی ہے۔

بیرسٹر گوہر کایہ کہنا کہ ان کی پارٹی کا فوج سے کوئی جھگڑا نہیں اور وہ طاقتوروں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات چاہتے ہیں' اپنی جگہ ایک اچھی بات ہے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مذاکرات کبھی طاقتوروں اور کمزوروں کے درمیان نہیں ہوتے بلکہ حکومت اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہوتے ہیں۔

سب کو پتہ ہے کہ 9 مئی کے ملزموں کا فوجی ٹرائل رکا ہوا ہے۔سانحہ 9مئی کے تمام ملزموں کی پی ٹی آئی کے وکلا وکالت کر رہے ہیں اور انھیں سزاؤں سے بچانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور وہ گرفتار ملزموں کو بے گناہ سمجھتے ہیں اور سانحہ 9مئی میں گرفتار اپنے لوگوں کو الیکشن بھی لڑوا رہے ہیں اور ان کی رہائی کے خواہش مند بھی ہیں۔ایسی صورت حال میں کیسے ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اور طاقتوروں کے درمیان کوئی مذاکرات ہوں۔

باہمی مذاکرات اور جرگوں میں بھی حملہ آور اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں ، سرنڈر کرتے ہیں، پھر جرگوں اور پنچائتوں کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ان کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر یہاں تو پی ٹی آئی اپنی غلطی ہی تسلیم نہیں کر رہی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میز پر بھی بیٹھنا چاہتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔