انتخابات کے فوائد عامہ
یہ حقیقت ہم پر اچانک اس وقت کھلی جب ہم نے اخبار میں وہ خبرپڑھی جس میں الیکشن کے لیے مختص کردہ رقومات کاذکر تھا
ہم مانتے ہیں، اقرار کرتے ہیں بلکہ اقبال جرم کرتے ہیں کہ آج تک ہم نے جمہوریت، سیاست اورانتخابات کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ہے، برا کہا ہے اور ہم وہ سب کچھ واپس لیتے ہیں کہ یہ تینوں جمہوریت سیاست اورانتخابات جو اصل میں ''ایک'' ہیں، بڑے ہیں، بابرکت، باثواب، باادب باملاحظہ ہوشیار چیزیں ہیں۔
ہم ہی ناداؒں تھے جو ان کی شان میں اناپ شناپ بولتے تھے اورپیڑے پیڑے شک کرتے تھے، خیر دیر آئد درست آئد اوریہ حقیقت ہم پر اچانک اس وقت کھلی جب ہم نے اخبار میں وہ خبرپڑھی جس میں الیکشن کے لیے مختص کردہ رقومات کاذکر تھا، سرکاری رقومات کی تو ہمیں کوئی چنتا نہیں، خدا آئی ایم ایف کو سلامت رکھے، ہمارے ''ناک رگڑ'' لیڈروں کی خیر ہو اورپچیس کروڑ کالانعام پر ہمارے لیڈروں کاسایہ سلامت رہے ، ایک بہت ہی مشہور اورپرانے گراموفون ریکارڈوں کاایک پشتوگیت ہے جس میں ایک محترمہ گاتی ہے کہ ۔
سل پہ لالی پورے دایوہ پرے دا بنگڑو
( میرے سرتاج کے سر پر سو روپے کا قرض پہلے ہی سے چڑھا ہوا ہے تو ایک میری ''چوڑیوں'' کا بھی سہی)
اب حکومت نے ''الیکشن'' کے لیے یہ رقم مخصو ص کی ہے جو حصہ بقدر جثہ ، حق بہ حقدار رسید ہوجائے گی۔ یہ بھی ایک کارثواب ہی ہے، آخر وہ سرکاری ملازمین جو اپنی ملازمتیں خرید کرصرف تنخواہ پر اس منہگائی کامقابلہ کررہے ہیں، وہ بھی اس ملک کے برابر کے شہری ہیں اورملک کو ہرممکن طریقے سے لوٹنے کاحق رکھتے ہیں۔
اب الیکشن کے دوسرے فوائد کی طرف آئیے۔ یہ تو اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ الیکشن کے لیے جو سیلکٹ لوگ ہوتے ہیں، وہ اس موقع پر اپنے ''گولک'' اورگڈ لک کھول کر اپنے جمع مال وعددہ کے مظاہرے کرنے لگتے ہیں، یوں بہت سارے خلق خدا کو اپنا اپنا نصیبہ مل جاتاہے۔
نعرے لگانے والوں، بینرز، فلیکس اور بل بورڈز پرلکھائی کرنے والوں، چھپائی کرنے والوں، امیدواروں کے لیے دفتر کھولنے والوں، دیگیں پکانے والوں، گوشت فروخت کرنے والوں، چائے خانے والوں کو اپنا اپنا نصیبہ مل جاتاہے، حتیٰ کہ چمچے، کفگیر اورڈونگے اور تنبوقناعتیں بھی کام پر لگ جاتے ہیں، یوں کہیے کہ معیشت کے سارے برتن، بھانڈے ، کل وقتی خوشامدی ماہرین و تجزیہ کار باروزگار ہوجاتے ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں کہ شر میں بھی خیر ہوتا ہے، اگر ایک حلقے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے دوچار امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہوں تو سمجھ لیجیے کہ دس پندرہ کروڑ روپے اس حلقے کے چار پانچ لاکھ افراد کانصیبہ ہوجاتے ہیں۔ ظاہرہے کہ سرمایہ گردش میں ہوتاہے تو معاشرے کوکسی نہ کسی طرح فائدہ ہوتاہے۔
اب فرض کریں اورخدا نہ کرے خدانہ کرے، اگر یہ الیکشنوں کاسلسلہ نہ ہوتو ان سرمایہ داروں کا اربوں روپے کا ڈھیر ایک جگہ جمع ہوتا رہے گا اور بڑھتا رہا تو لازماً وہ ''پر'' لگا کر کسی غیر ملک میں جاکر وہاںکے درخت میں آستانہ بنائے گا اوراس کافائدہ اپنے گھر سے باہرکے لوگوں کو پہنچائے گا، اس لیے انتخابات اچھے ہیں، ملک کے لیے، قوم کے لیے اورمحروموں ،مجبوروں اورحاجت مندوں کے لیے وہ ایک مشہورکہانی تو ہم آپ کو پہلے بھی سنا چکے ہیں کہ ایک گاؤں کے پاس دوبسوں کاحادثہ ہوگیا ، گاؤں والے امداد کو پہنچے اورحادثے میں مرنے والوں اور زخمیوں کی جیبوں سے نقدی، گھڑیاں، موبائل فونز اور زیورات نکال کر ان کے سامان کا وزن ہلکا کیا۔
یہ واقعہ اتنا مشہورہوگیا کہ آس پاس کے دوسرے دیہات والوں نے مشہور کردیا کہ اس گاؤں والوں کو ہمیشہ کسی حادثے کاانتظار رہتاہے بلکہ دعائیں مانگتے ہیں کہ کوئی اچھا سا، ڈھنگ کا ایکسیڈنٹ ہوجائے ، بلکہ آپس میں اکثر یہ کہتے ہوئے بھی پائے جاتے ہیں کہ یاردے دوں گاتمہارا قرضہ، کوئی اچھا سا ایکسیڈنٹ ہونے دو۔ اکثر والدین اپنے بچوں سے کہتے پائے جاتے ہیں، ہوجائے گی تمہاری شادی بھی، دعا کرواورکسی اچھے ایکسیڈنٹ تک صبرکرو۔
آج کل بھی متعلقہ گاؤں والے یہی کچھ کررہے ہیں، جب سے سیاسی ایکسیڈنٹ عرف الیکشن کے چرچے ہونے لگے ہیں ، سارے متعلقہ ہنرمند اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوچکے ہیں، اپنے اپنے اوزار تیزکررہے ہیں اوراپنی صفیں درست کرنے میں لگ چکے ہیں ، بینرز، دیواریں اور بل بورڈ لکھنے والوں نے رنگوں کے ڈبے، برش اور شاگرد اسٹاک کرلیے ہیں۔
دیگوں والوں نے نئی دیگیں اورچولہے خریدلیے ہیں ، نعرے لگانے والوں نے بھی گلاصاف کرنے کے نسخے خرید لیے ہیں یہاں تک ''الہ دین '' نے مقبرے کے احاطے میں کھڑے درختوں کا ایک جھنڈ بھی قبضے میں کر لیاہے، الہ دین جدی پشتی اوراچھا خاصا مشہورووٹوں کا دکاندار ہیں اورالیکشن کے دن وہ اپنی دکان قریبی مقبرے میں جماتاہے۔
مال تو پہلے ہی اس کے پاس موجودرہتاہے، صرف خریدار کافیصلہ آخری دنوں میں ہوتا ہے اورریٹ بھی موقع اوروقت کے مطابق طے ہوتا ہے، مطلب یہ کہ سیزن کی مناسبت سے حکمت عملیاں ترتیب دی جارہی ہیں بلکہ ترتیب دی جاچکی ہیں، اب آپ خود انصاف کریں، ایسے میں کون کافر ہوگا جو الیکشنوںکی مخالفت کرکے اتنے سارے لوگوں کی بددعائیں لے گا۔
سو ہم نے بھی اپنا پرانا دل آزار نظریہ تیاگ دیا ہے اوراعلان کرتے ہیں کہ الیکشن اچھے ہیں، قوم کے لیے بلکہ ہم نے تو جب سے الیکشنوں کے ہمہ گیرفوائد کی جانکاری حاصل کی ہے، تب سے چاہتے ہیں کہ یہ پانچ سال کاعرصہ بہت زیادہ ہے ،کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ، اس ہمہ گیرفیوض وبرکات والی روایت کو اگر چھ مہینے میں نہیں تو سال میں ایک مرتبہ ضرور دہرایا جائے ورنہ دو سال میں تو ضرورالیکشن ہونے چاہیں تاکہ خزانوں کے منہ کھلیں اورسرمائے کو تازہ ہوا میسر آئے ۔
بلکہ اب تو ہم یونان کے اس ڈیماکریٹس عرف دمیقراط کی ذہانت کے بھی قائل ہوگئے ہیں ، جی چاہتاہے کہ کہیں سے قرض ادھار لے کر یونان جائیں اوراس کی قبر ڈھونڈ کراپنا خراج عقیدت پیش کریں، حالانکہ پہلے ہمارا ارادہ اس کی قبرکے ساتھ کچھ اورکرنے کا تھا لیکن اب ہم اسے انسانیت کاسب سے بڑا محسن سمجھتے ہیں۔