کوئی بولا نہ قتل پر میرے
سردست میر کا ایک مصرعہ یاد آ گیا ہے۔ پورا شعر یاد نہیں آ رہا۔
سردست میر کا ایک مصرعہ یاد آ گیا ہے۔ پورا شعر یاد نہیں آ رہا۔ مگر پورا مضمون مصرعہ میں سمٹ آیا ہے ع
کوئی بولا نہ قتل پر میرے
لیکن اب سب بول رہے ہیں۔ مار پیچھے پکار۔ اس قتل کے سلسلہ میں دو رشتے بار بار ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ سنگسار ہونے والی کا باپ اور اس کے دو بھائی۔ ارے یہی تو سنگ بدمت پیش پیش تھے۔ مگر ان رشتوں کے بیچ ایک رشتہ اور بھی تو ہے۔ ماں کا رشتہ۔ ابھی تک کسی نے ذکر نہیں کیا کہ اس بی بی کی کوئی ماں بھی تھی۔ اگر تھی تو وہ کہاں تھی۔ اصل میں یہ سوال ہمارے ذہن میں اس نسبت سے آیا کہ انھیں دنوں سندھ کے مشہور شاعر امداد حسینی کی اردو نظموں غزلوں کا مجموعہ ہماری نظر سے گزرا۔ اس ظالم رسم کا جسے کاروکاری کہتے ہیں وہاں بار بار ذکر آیا ہے۔ ایک نظم ماں کے حوالے سے۔ سنئیے
مرد اس کا جیل میں تھا
قتل کے الزام میں
روپوش بیٹا
اور بیٹی ہو چکی 'کاری' کبھی کی
اور اب اس کے لیے
دن نہیں پھانسی کا پھندا تھا گلے میں
دن جیسے تیسے گزر جاتا ہے۔ اب شام ہونے لگی ہے؎
دکھ سرہانے
پائنتی
گزرے ہوئے دن کی تھکن
رکھک کر
چٹائی پر وہ جیسے جا کے لیٹی
آنکھ اس کی جا کے اک روشن ستارے پر ٹکی
پل اُپل میں وہ اسے
اپنی بیٹی کا رخ روشن لگا
پھر اتر آیا وہ اس کی آنکھ میں
اب اسی شاعر نے اک دوسرا منظر پیش کیا ہے اسے بھی دیکھ لیجیے ؎
اور پھر بارش ہونے لگی پتھروں کی
اور کوئی نہیں تھا اٹھتے ہاتھوں کو روکنے والا
اور یہ کہنے والا کہ
پہلا پتھر وہ مارے
جس نے گناہ نہ کیا ہو
یاں اگر ہوتا بھی
تو لوگ پہلے اسے ہی سنگسار کرتے
اپنے آپ کو پاکباز ثابت کرنے کے لیے
اور راستوں پر
ٹریفک کا سیلاب یوں ہی بہتا رہا
اور سورج نے
شہر کے لوگوں کے چہروں پر کالک مل دی تھی
اور اب ہم سوچ رہے ہیں کہ جہاں سنگزنی کا یہ واقعہ گزرا وہ تو شہر لاہور کا بیچ تھا۔ ہائی کورٹ کی عمارت کے عقب میں فین روڈ پر جہاں عدالت کے اوقات کے دوران بہت آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کالے کوٹ بہت نظر آتے ہیں اور رنگ رنگ کی مخلوق۔ ایسی سڑک پر اگر کوئی موٹر کسی اسکوٹر سے' کسی دوسری تیز رفت موٹر سے ٹکرا جائے تو دم کے دم میں اتنا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے کہ پولیس کو اسے موقعہ واردات سے ہٹانے میں کتنی دقت پیش آتی ہے۔ اگر کوئی ایسی صورت احوال ہو کہ مذہب کا حوالہ کسی رنگ سے درمیان میں آ جائے تو یہ مجمع ابل پڑتا ہے۔ شہروں میں قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ تو جب وہ بی بی درد سے چلا رہی تھی اور لوگوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھی تو مجمع تو اکٹھا ہوا ہو گا۔ مگر عجب ہے کہ اس کی طرف سے کسی قسم کا ردعمل نہیں ہوا۔ کیا اس سارے ہجوم کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
یا یہ سمجھا جائے کہ ہمارا معاشرہ اب مکمل طور پر dehumanize ہو چکا ہے۔ انسانی جذبات سے عاری۔ کہئے کہ اب یہ ایک سنگدل معاشرہ ہے۔ مگر شاید اس معاشرے کو تھوڑی سی رعایت دی جاسکتی ہے، یہ کہہ کر کہ صرف عورت کے سلسلہ میں وہ سنگ دلی دکھاتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب کوئی لڑکی پرانے رسم و رواج میں اسیر ماں باپ کا کہنا ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ پس پھر وہ ہم جنسوں کی ہمدردی سے محروم ہو جاتی ہے اور معاشرے میں اکیلی رہ جاتی ہے۔ پھر اپنے ہوں یا پرائے ہوں سب کی نظروں میں مجرم ٹھہرتی ہے۔ پھر اس کے ساتھ جو سلوک بھی روا رکھا جائے بیشک وہ گینگ ریپ والا ہی سلوک کیوں نہ ہو روا سمجھا جاتا ہے۔ لیجیے پھر ہمیں امداد حسینی کی ایک نظم یاد آ گئی۔ عنوان ہے ''مارئی قید میں ہے '؎
مارئی قید میں ہے
سوچتی ہے
بھیڑ بکری بھی اگر کھو جائے
ڈھونڈنے اس کو نکل پڑتے ہیں لوگ
پوچھتے پھرتے ہیں گائوں گائوں
کھوجتے پھرتے ہیں نگری نگری
میں تو انسان تھی
بیٹی تھی' میں تھر کی بیٹی
کاش میں کچھ بھی نہیں ہوتی' فقط
بھیڑ ہوتی' کوئی بکری ہوتی
مارئی قید میں ہے
سوچتی ہے
صاحب عجب نقشہ ہے۔ ایک طرف صورت یہ ہے کہ بیٹی جب تک اپنے دل دماغ کو معطل کر کے باپ اور بھائیوں کے حکم کے تابع رہتی ہے تب تک وہ بیٹی ہے' بہن ہے۔ ادھر اس نے غیر انسانی احکامات کے خلاف چون و چرا کی پھر نہ وہ بیٹی ہے' نہ بہن ہے۔ بس گردن زدنی ہے۔ ادھر وہ سوچ رہی ہے کہ میں کسی انسانی گھرانے میں کیوں پیدا ہوئی ہوں۔ انسانی جنس سے میرا تعلق کیوں ہے۔ کیوں میں بھیڑ نہیں ہوں' بکری نہیں ہوں۔
اور ہاں امداد حسینی۔ شاعر سے تعارف تو بیچ ہی میں رہ گیا۔ ارے اس سے بہتر تعارف اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے واسطے سے اپنے معاشرے کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ اور کیسی مدد۔ شاعری ہے یا یوں کہئے کہ ؎
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کر