پاکستان عوامی تحریک ق لیگ اور مستقبل
شریف برادران کو اپنی توجہ گجرات کے مودی سے ہٹا کر گجرات کے چوہدریوں پر مبذول کرنی ہوگی۔
ڈاکٹر طاہر القا دری اور چوہدری شجاعت حسین،پرویز الٰہی کی لندن میں ملاقات اورحکومت مخالف اتحاد کے بعد سیاسی بازار ایک مرتبہ پھر گرم ہوگیا ہے۔ اس اتحاد کے بنیادی اغراض و مقاصد محض مخالفت نہیں بلکہ حکومت کو چلتا کرنے اور نئے انتخابات کرانے ہیں۔ ایسے انتخابات جس میں حکمران جماعت نوازلیگ کا اس سے بھی برا حال ہو کہ جیسا قاف لیگ کا 2013 کے عام انتخابات میں ہوا۔ ایسے انتخابات جن کے ذریعے پنجاب میں شریف خاندان کی سیاست پر ایک طویل مدت کے لیے تالہ لگ جائے۔
اگرچہ عمران خان کی تحریک انصاف نے اس مرتبہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو ظاہراًاس اتحاد سے علیحدہ رکھاہے مگر اس ملک میں شاید ہی کسی کو یہ غلط فہمی ہو کہ عمران خان اس، حکومت گرائو، نئے انتخابات کرائو، مہم سے زیادہ دیر تک عملی طور پر عدم دلچسپی اورلاتعلقی قائم رکھ سکیں گے۔ ان کی طرف سے ہونے والے پنجاب گیر جلسوں کے عمل سے نیت کا اظہار ہورہا ہے۔ الفاظ چاہے جو بھی ہوں اعمال واضح نشا ندہی کررہے ہیں کہ اگر نواز لیگ نے پاکستان تحر یک ا نصاف کے دھاندلی الزامات پر کسی بڑی رعایت جیسے چارحلقوں میں دوبارہ گنتی کا اعلان نہیں کیا تو یہ جلسے سڑکوں پر احتجاج کا ہراول دستہ ثابت ہوں گے۔
لندن گروپ کا لائحہ عمل ابھی سامنے آنا ہے مگر اس کو سمجھنے کے لیے کوئی خاص ذہنی مشقت کرنے کی ضروت نہیں۔ ظاہر ہے کہ چوہدری برادران ڈاکٹر طاہرالقادری کی تنظیمی صلاحیتوں کے ذریعے جی ٹی روڈ کے اردگرد اور کراچی میں احتجاج اور گھیرائو کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ حکومت کی طرف سے پتھرائو کی صورت میں اس 'تحریک'میں تحریک انصاف بھی شریک ہونے پر مجبور ہوجائے گی (یاپہلے سے شمولیت کے لیے تیار ہوگی) چوہدری برادران پنجاب میں نواز لیگ کے دھڑوں کے دل میں شک کا بیج بو دیں گے کہ شریفوں کی نائو بس اب ڈوبنے کو ہے۔ بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر ،اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ میں یا پھر دبی ہوئی ناراضگیوں کے اظہار کے طور پر سیا سی خاندان، امراء اور چند درجن ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی طوطا چشمی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اُس شاخ سے اُڑکر اس شاخ پر آن بیٹھیں گے۔
یعنی کچھ ایسا ہی ہوگا جیسے 2013 کے انتخابات سے پہلے قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا تھاکہ جب اُن کے مکتب سے اُٹھ کر جانے والوں نے نواز لیگ اور تحریک انصاف کے اسکول میں بغیر امتحان پاس کیے بڑے درجے میں داخلہ لے لیا تھا۔ احتجاج زور پکڑے گا ملک میں سب کچھ منجمند ہوجائے گا (ویسے بھی جنگلہ بس اور بھارت تجارت کے سوا کوئی اور پہیہ متحرک نظر بھی نہیں آرہا) فوج کے ذریعے یا عدالتوں کی ایماء پر نئے انتخابات کا مقدمہ اس قدر مقبول اور قابل قبول نظر آئے گا کہ بینائی سے عاری شخص بھی اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔
مگر یہ سب ایک آئیڈیل سوچ ہے جس کے پیچھے مفروضہ یہ ہے کہ سب کچھ ویسے ہی ہوگا جیسے اُس کی خواہش کی جارہی ہے۔دوسرا مفروضہ یہ بھی ہے کہ نوازلیگ یا تو ساکت حالت میں چلی جائے گی اور یا پھر کسی قسم کی قوت مدافعت کا مظاہرہ کیے بغیر معذرت خواہانہ اندازمیں پسپائی اختیار کرتے ہوئے بھائو تائو اور سمجھوتے پر رضا مند ہوکر سیاسی جان بخشی کرائے گی۔ یہ دوسرا مفروضہ حقیقت سے اتنے ہی دور ہے جتنے تمام مفروضے حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔ نوازلیگ گھاگ سیاست دانوں کا گڑھ ہے۔ طاقت میں ہے۔ وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے پاس جوڑ توڑ والے بھی ہیں اور شیخ رشید جیسے سیاستدانوں کا جواب دینے والے بھی۔چوڑیاں انھوں نے بھی نہیں پہنی ہوئی۔ اس مرتبہ وہ تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہر اینٹ کا جواب اس سے بڑے پتھر سے دیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ لندن گروپ کی صفوں میں اتحاد بھی کمزور اور وقتی ہے۔ چوہدری پرویزالٰہی، ڈاکٹر طاہرالقادری اور اگر عمران خان بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تو وہ بھی وزیراعظم بننے کے خواہش مندہیں۔ تینوں جماعتوں میں نظریاتی طور پر اگر کوئی قدر مشترک ہے تو وہ یہ کہ انھوں نے کسی نہ کسی سال اور مقدارمیں جنرل پرویز مشرف کا دست راست بننے میں فخر محسوس کیا تھا (اگر چہ یہ اعزازنواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں موجود درجنوں ناموراورنمایاں سیاست دانوں کے پاس بھی موجود ہے) اس کے علاوہ قاف لیگ،عوامی تحریک اور تحریک انصاف بڑے قومی معاملات پر مخالف نظر یات رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری طالبان کے خلاف فتوں پر مبنی کتابی تخلیق کو انسانیت کی بہترین خدمت قرار دیتے ہیں جب کہ عمران خان کے لیے یہ تما م گروپ ان بچھڑے ہوئے بھائیوں کی طر ح ہیں جن کو تلاش کرکے گھر واپس لائے بغیر قومی خاندان مکمل نہیں ہوتا۔ رہی قاف لیگ تو وہ دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی آئینی سیاست'' کی حامی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وقت کی ضرورت کودیکھتے ہوئے آئینی شقوں کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح وترجمہ کریں۔ ہر قسم کی قلابازی کو اصولوں کے عین مطابق قرار دے کر ہر نئے نظام کا حصہ بنیں۔ جب ہر کوئی دوسرے کو استعمال کرنے کے چکر میں ہوتو بننے والا اکٹھ عموما اس کچے گھڑے کی طرح ہر وقت غیر یقینی کا شکار رہتا ہے۔
یقیناً نواز لیگ لند ن گروپ کی اندرونی کمزوری سے بخوبی واقف ہوگی۔ اور اس کے ذریعے ان کے احتجاج کو ناکارہ کرنے کی بھر پور کاوش کرے گی۔ اس گرم سیا سی بازار میں حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی اُس سرد جنگ کا ذکر کیے بغیر منظر نامہ مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سردجنگ جاری وساری ہے اور باوجود اس کہ وفاقی حکومت''سب کچھ درست ہے''کا بناوٹی انداز اپنائے ہوئے ہے۔ جیو بحران کے بعد سے وزیراعظم کے انڈیا دورے کے بعد تک حالات کافی بگڑ چکے ہیں۔ جن کو سدھارنے کا کوئی مربوط بندوبست ابھی تک نہیں ہوپایا۔ شائد اس وجہ سے شریف برادران کو اپنی توجہ گجرات کے مودی سے ہٹا کر گجرات کے چوہدریوں پر مبذول کرنی ہوگی۔
اگرچہ عمران خان کی تحریک انصاف نے اس مرتبہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو ظاہراًاس اتحاد سے علیحدہ رکھاہے مگر اس ملک میں شاید ہی کسی کو یہ غلط فہمی ہو کہ عمران خان اس، حکومت گرائو، نئے انتخابات کرائو، مہم سے زیادہ دیر تک عملی طور پر عدم دلچسپی اورلاتعلقی قائم رکھ سکیں گے۔ ان کی طرف سے ہونے والے پنجاب گیر جلسوں کے عمل سے نیت کا اظہار ہورہا ہے۔ الفاظ چاہے جو بھی ہوں اعمال واضح نشا ندہی کررہے ہیں کہ اگر نواز لیگ نے پاکستان تحر یک ا نصاف کے دھاندلی الزامات پر کسی بڑی رعایت جیسے چارحلقوں میں دوبارہ گنتی کا اعلان نہیں کیا تو یہ جلسے سڑکوں پر احتجاج کا ہراول دستہ ثابت ہوں گے۔
لندن گروپ کا لائحہ عمل ابھی سامنے آنا ہے مگر اس کو سمجھنے کے لیے کوئی خاص ذہنی مشقت کرنے کی ضروت نہیں۔ ظاہر ہے کہ چوہدری برادران ڈاکٹر طاہرالقادری کی تنظیمی صلاحیتوں کے ذریعے جی ٹی روڈ کے اردگرد اور کراچی میں احتجاج اور گھیرائو کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ حکومت کی طرف سے پتھرائو کی صورت میں اس 'تحریک'میں تحریک انصاف بھی شریک ہونے پر مجبور ہوجائے گی (یاپہلے سے شمولیت کے لیے تیار ہوگی) چوہدری برادران پنجاب میں نواز لیگ کے دھڑوں کے دل میں شک کا بیج بو دیں گے کہ شریفوں کی نائو بس اب ڈوبنے کو ہے۔ بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر ،اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ میں یا پھر دبی ہوئی ناراضگیوں کے اظہار کے طور پر سیا سی خاندان، امراء اور چند درجن ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی طوطا چشمی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اُس شاخ سے اُڑکر اس شاخ پر آن بیٹھیں گے۔
یعنی کچھ ایسا ہی ہوگا جیسے 2013 کے انتخابات سے پہلے قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا تھاکہ جب اُن کے مکتب سے اُٹھ کر جانے والوں نے نواز لیگ اور تحریک انصاف کے اسکول میں بغیر امتحان پاس کیے بڑے درجے میں داخلہ لے لیا تھا۔ احتجاج زور پکڑے گا ملک میں سب کچھ منجمند ہوجائے گا (ویسے بھی جنگلہ بس اور بھارت تجارت کے سوا کوئی اور پہیہ متحرک نظر بھی نہیں آرہا) فوج کے ذریعے یا عدالتوں کی ایماء پر نئے انتخابات کا مقدمہ اس قدر مقبول اور قابل قبول نظر آئے گا کہ بینائی سے عاری شخص بھی اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔
مگر یہ سب ایک آئیڈیل سوچ ہے جس کے پیچھے مفروضہ یہ ہے کہ سب کچھ ویسے ہی ہوگا جیسے اُس کی خواہش کی جارہی ہے۔دوسرا مفروضہ یہ بھی ہے کہ نوازلیگ یا تو ساکت حالت میں چلی جائے گی اور یا پھر کسی قسم کی قوت مدافعت کا مظاہرہ کیے بغیر معذرت خواہانہ اندازمیں پسپائی اختیار کرتے ہوئے بھائو تائو اور سمجھوتے پر رضا مند ہوکر سیاسی جان بخشی کرائے گی۔ یہ دوسرا مفروضہ حقیقت سے اتنے ہی دور ہے جتنے تمام مفروضے حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔ نوازلیگ گھاگ سیاست دانوں کا گڑھ ہے۔ طاقت میں ہے۔ وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے پاس جوڑ توڑ والے بھی ہیں اور شیخ رشید جیسے سیاستدانوں کا جواب دینے والے بھی۔چوڑیاں انھوں نے بھی نہیں پہنی ہوئی۔ اس مرتبہ وہ تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہر اینٹ کا جواب اس سے بڑے پتھر سے دیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ لندن گروپ کی صفوں میں اتحاد بھی کمزور اور وقتی ہے۔ چوہدری پرویزالٰہی، ڈاکٹر طاہرالقادری اور اگر عمران خان بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تو وہ بھی وزیراعظم بننے کے خواہش مندہیں۔ تینوں جماعتوں میں نظریاتی طور پر اگر کوئی قدر مشترک ہے تو وہ یہ کہ انھوں نے کسی نہ کسی سال اور مقدارمیں جنرل پرویز مشرف کا دست راست بننے میں فخر محسوس کیا تھا (اگر چہ یہ اعزازنواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں موجود درجنوں ناموراورنمایاں سیاست دانوں کے پاس بھی موجود ہے) اس کے علاوہ قاف لیگ،عوامی تحریک اور تحریک انصاف بڑے قومی معاملات پر مخالف نظر یات رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری طالبان کے خلاف فتوں پر مبنی کتابی تخلیق کو انسانیت کی بہترین خدمت قرار دیتے ہیں جب کہ عمران خان کے لیے یہ تما م گروپ ان بچھڑے ہوئے بھائیوں کی طر ح ہیں جن کو تلاش کرکے گھر واپس لائے بغیر قومی خاندان مکمل نہیں ہوتا۔ رہی قاف لیگ تو وہ دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی آئینی سیاست'' کی حامی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وقت کی ضرورت کودیکھتے ہوئے آئینی شقوں کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح وترجمہ کریں۔ ہر قسم کی قلابازی کو اصولوں کے عین مطابق قرار دے کر ہر نئے نظام کا حصہ بنیں۔ جب ہر کوئی دوسرے کو استعمال کرنے کے چکر میں ہوتو بننے والا اکٹھ عموما اس کچے گھڑے کی طرح ہر وقت غیر یقینی کا شکار رہتا ہے۔
یقیناً نواز لیگ لند ن گروپ کی اندرونی کمزوری سے بخوبی واقف ہوگی۔ اور اس کے ذریعے ان کے احتجاج کو ناکارہ کرنے کی بھر پور کاوش کرے گی۔ اس گرم سیا سی بازار میں حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی اُس سرد جنگ کا ذکر کیے بغیر منظر نامہ مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سردجنگ جاری وساری ہے اور باوجود اس کہ وفاقی حکومت''سب کچھ درست ہے''کا بناوٹی انداز اپنائے ہوئے ہے۔ جیو بحران کے بعد سے وزیراعظم کے انڈیا دورے کے بعد تک حالات کافی بگڑ چکے ہیں۔ جن کو سدھارنے کا کوئی مربوط بندوبست ابھی تک نہیں ہوپایا۔ شائد اس وجہ سے شریف برادران کو اپنی توجہ گجرات کے مودی سے ہٹا کر گجرات کے چوہدریوں پر مبذول کرنی ہوگی۔