ایران واقعہ پر ردعمل سوشل میڈیا کے تقاضوں پر نہیں دینا نگراں وزیراطلاعات
دونوں ملکوں کے تعلقات میں اچھے برے دور آتے رہتے ہیں، مرتضٰی سولنگی
نگراں وفاقی وزیراطلاعات مرتضٰی سولنگی نے کہا ہے کہ ایران کا حملہ غیرمعمولی واقعہ ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں نگراں وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ایران واقعہ پر رد عمل سوشل میڈیا کے تقاضوں پر نہیں دینا۔ یہ بچوں کا کھیل نہیں ریاستوں کے درمیان کا معاملہ ہے۔
نگراں وزیراطلاعات نے کہا کہ ایران کا حملہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ وزارت خارجہ نے رد عمل دیا اورایرانی ناظم الامور کو طلب کیا۔ یہ ابتدائی رد عمل ہے مکمل ردعمل نہیں۔ متعلقہ حکام اس پر غور کر رہے ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں اچھے برے معاملات آتے رہتے ہیں۔ ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ملک میں کئی قسم کے بحران ہیں ویژنری قیادت کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ 8 فروری کو الیکشن کے بعد جو جماعت یا جماعتوں کا گروپ حکومت بنائے وہ سنجیدگی سے کام کرے۔ جو حکومت آئے وہ لوگوں کو جوڑے ، توڑے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک غیر معمولی تقسیم سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت ، اظہار رائے کی ازادی کو خدشات ہیں۔ دہشت گردی نے سر اٹھایا ہے اور علاقائی ٹینشن ختم نہیں ہورہی ہے۔ ایک جماعت بتا دیں جس کو لیول پلینگ فیلڈ ملنے کی شکایت نہ ہو۔ مولانا فضل الرحمٰن کا دورہ افغانستان غیر سرکاری تھا۔ کوئی بھی جماعت دو ممالک کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرے تو اس کا خیر مقدم ہوتا ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں نگراں وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ایران واقعہ پر رد عمل سوشل میڈیا کے تقاضوں پر نہیں دینا۔ یہ بچوں کا کھیل نہیں ریاستوں کے درمیان کا معاملہ ہے۔
نگراں وزیراطلاعات نے کہا کہ ایران کا حملہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ وزارت خارجہ نے رد عمل دیا اورایرانی ناظم الامور کو طلب کیا۔ یہ ابتدائی رد عمل ہے مکمل ردعمل نہیں۔ متعلقہ حکام اس پر غور کر رہے ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں اچھے برے معاملات آتے رہتے ہیں۔ ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ملک میں کئی قسم کے بحران ہیں ویژنری قیادت کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ 8 فروری کو الیکشن کے بعد جو جماعت یا جماعتوں کا گروپ حکومت بنائے وہ سنجیدگی سے کام کرے۔ جو حکومت آئے وہ لوگوں کو جوڑے ، توڑے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک غیر معمولی تقسیم سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت ، اظہار رائے کی ازادی کو خدشات ہیں۔ دہشت گردی نے سر اٹھایا ہے اور علاقائی ٹینشن ختم نہیں ہورہی ہے۔ ایک جماعت بتا دیں جس کو لیول پلینگ فیلڈ ملنے کی شکایت نہ ہو۔ مولانا فضل الرحمٰن کا دورہ افغانستان غیر سرکاری تھا۔ کوئی بھی جماعت دو ممالک کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرے تو اس کا خیر مقدم ہوتا ہے۔