اردو بازار

زمانہ قدیم میں عرف عام میں استعمال ہونے والا لفظ ’’بازار‘‘ ایسی کشادہ سڑک کا نام تھا


قمر عباس نقوی June 01, 2014

زمانہ قدیم میں عرف عام میں استعمال ہونے والا لفظ ''بازار'' ایسی کشادہ سڑک کا نام تھا جس کے دونوں اطراف میں موجود کاروباری لحاظ سے دکانیں ہوا کرتی تھیں، جہاں فروخت کرنے والے اور خریداروں کی ایک کثیر تعداد موجود ہوا کرتی تھی اور وہاں آپ کی اشیائے ضرورت باآسانی دستیاب ہوجایا کرتی تھیں۔ بازاروں کی بے شمار اقسام ہیں، لیکن عموماً ان بازاروں میں دو قسم کے بازارکافی شہرت کے حامل ہیں۔ (1) عام بازار، (2) مخصوص بازار۔

عام بازار سے ضروریاتِ زندگی کی ہر قسم کی شے خریدی جاسکتی ہے، مخصوص بازاروں میں صرافہ بازار جہاں سونے اور چاندی کی خریدو فروخت کی جاتی ہے، مینا بازار جہاں صرف خواتین کی ضروریات زندگی کی اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ کی بنیاد پر رعایتی نرخوں پر سامان کی فراہمی کے لیے عارضی بازار بدھ بازار، جمعہ بازار، پیر بازار، منگل بازار، جن کا انعقاد شہر کے کھلے اور وسیع میدانوں میں کیا جاتا ہے، ان کو شامیانہ بازار بھی کہا جاسکتا ہے۔ مگر آج ان تمام بازاروں کے علاوہ ایک ایسے بازار کا تذکرہ کرنا ہمارے کالم کا موضوعِ بحث ہے جس کا تعلق علم و ہنر کے پیاسوں کی آماجگاہ ''اردو بازار'' سے ہے۔

بلاشبہ مطالعاتی مواد کے حصول کا واحد ذریعہ کتاب، رسائل و جرائد، اخبارات ہوا کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے مطالعے کے لیے ہمیں یا تو شہر کی لائبریری کا سہارا لینا پڑتا ہے یا گھر کے قریب واقع کتابوں کی مقامی دکان یا بک اسٹال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اگر مطلوبہ کتاب یا مطالعاتی مواد، مقامی کتب خانے سے نہ مل سکے تو لامحالہ ہمیں شہر میں موجود مرکزی اردو بازار کی طرف جانا پڑتا ہے جہاں ہر قسم کی نصابی اور غیر نصابی کتب کا ذخیرہ کثیر تعداد میں دستیاب ہوتا ہے۔ علم و ہنر کی دولت سے مالا مال یہ بازار متذکرہ بالا بازاروں پر افضلیت رکھتا ہے۔

اس بازار کے ملحقہ علاقوں میں چھاپہ خانوں اور کتابت کے مراکز کی خاصی تعدداد موجود ہوتی ہے، جو بے شمار لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ یہاں سے چھپنے والی کتابیں اور ہر قسم کا مطالعاتی مواد کتابی شکل میں تیار ہوکر ملک کے ہر شہر میں اس کی فراہمی کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ اس بازار کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہم نے شعوری طور پر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا کہ اس بازار میں کتابوں کی خریدوفروخت کی وجہ سے اس کا نام کتاب بازار، علم و ہنر بازار یا کتاب گھر، صرف اردو بازار کیوں؟ کیونکہ یہاں اردو کے علاوہ بیشتر کتب کا تعلق انگریزی زبان میں مختلف سائنسی علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دوسرے انسانی طرز عمل کے مطالعے کی بے شمار نصابی اور غیر نصابی کتب کی فروخت کی جاتی ہے، ہم نے مختلف ذرایع سے اس کی ارتقائی منازل کے بارے میں جاننے کی بھرپور کوشش کی۔

اس مشن کی تکمیل کے لیے ہم نے اردو ادب سے متعلق تمام اقسام کی کتب کی ورق گردانی کی اور شہر کی مختلف لائبریریوں سے بھی استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر افسوس باوجود کوشش کے ہم اردو بازار کی تاریخ اور اس کے ارتقاء کے بارے میں واضح طور پر معلومات حاصل نہیں کرسکے۔ ہاں البتہ تھوڑا بہت معلومات ضرور حاصل ہوئیں جس کی ابتداء ہندوستان کے شہر دہلی سے ہوئی، جو اردو ادب کا سب سے بڑا مرکز تھا۔

ترکی اور منگولین زبانیں ملا کر ایک لفظ ''اوردو'' تھا جس کا مطلب آرمی/ ملٹری کا محصور کیمپ تھا۔ یہ کیمپ غیر منقسم ہندوستان کے وسطی علاقہ میں واقع تھا، اس کیمپ کی حدود میں ایک بہت بڑی مارکیٹ قائم تھی جو چاندنی چوک سے دہلی کی جامع مسجد کے درمیان ایک نہر سے منسلک تھی۔ اس کیمپ کی نسبت سے یہ مارکیٹ اوردو بازار کے نام سے مشہور تھی، یہ مارکیٹ عام اشیاء کی خرید و فروخت کا سب سے بڑا کیمپ کا مرکز تھا۔ بنیادی اور ادبی لحاظ سے عربی اور فارسی کی آمیزش نے اس علاقے کو نستعلیق طرز کی حروفِ تہجی والی زبان جس کو محاورتاً ''زبان اردوئے معلیٰ'' کہا جاتا تھا جو اس علاقے میں شہرت کا سبب بنی۔

عصر قدیم یعنی 1857 کی جنگ آزادی میں اس علاقے میں بغاوتوں اور شورشوں کا بازار گرم رہا اور یوں جنگ و جدل کے نتیجے میں اس کی اصل شکل ختم ہوکر رہ گئی۔ حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ وہاں اردو زبان کا استعمال کثرت سے ہونے لگا تو یہاں کے بازار کا نام ''اوردو'' سے اردو بازار میں تبدیل ہوگیا۔ بلاشبہ ہر خاص و عام جانتے ہیں کہ ''اردو'' ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے لشکر یا چھائونی۔ حافظ محمود شیرانی اپنی کتاب ''مقالات حافظ محمود شیرانی'' جلد اول کے صفحہ نمبر 11 پر فرماتے ہیں کہ ''یہ لفظ اصل ترکی میں مختلف شکلوں میں ملتا ہے یعنی ''اوردا'' ''اروہ'' ''اوردو'' ''اردو'' جس کے معنی فرود گاہ لشکر اور پڑائو نیز لشکر و حصہ لشکر ہیں۔

اس کے علاوہ اس کا استعمال خیمہ، بازار لشکر، حرم گاہ، محل و محل سرائے و شاہی قلعے پر بھی ہوتا ہے۔'' ان تمام تحقیق و تجسس کے باوجود یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس نام کی مناسبت سے کتب و رسائل کی خرید و فروخت کا مرکز کا سلسلہ کب کیسے اور کیوں ہوا۔ اس مخصوص بازار کا نام اردو بازار کیوں رکھا گیا، اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی۔ ان تمام اسباب و واقعات کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بلکہ ایک جگہ اسد اﷲ خان غالب فرماتے ہیں ''اردو بازار کو کوئی نہیں جانتا تھا تو کہاں تھی اردو۔ بخدا! دہلی نہ تو شہر تھا، نہ چھائونی، نہ قلعہ، نہ بازار''۔

پاکستان کا سب سے بڑا کتابی ذخیرے کا مرکز لاہور کا اردو بازار ہے جو اپنی قدیمی شکل میں اب تک موجود ہے۔ میرا چونکہ تعلیم کا سنہرا دور اسی شہر سے وابستہ ہے، مجھے یاد ہے کہ لاہور کے اس علم و ہنر کے عظیم بازار میں نہ صرف نئی کتب خریدی جاسکتی ہیں بلکہ پرانی کتب کی خریدو فروخت بھی کی جاسکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں