جب میں نانی بن کر پڑھ سکتی ہوں تو دیگر خواتین کیوں نہیں رئیسہ بیگم

علم حاصل کرنے میں شرم کیسی؟ ایم اے تک تعلیم حاصل کروں گی

55 سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دینے والی رئیسہ بیگم۔ فوٹو: فائل

لاہور:
کہتے ہیں کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ انسان عمر کے کسی بھی حصے میں علم کی پیاس بجھا سکتا ہے۔

آج کل ایسے اقوال کو محض کتابی قرار دیا جاتا ہے، کیوں کہ عملاً ایسی مثالیں کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔۔۔ لیکن اگر ہمت کرے انسان تو سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے۔ بالخصوص خواتین کے اوائل عمر میں دیکھے گئے کسی سپنے کے سچ کرنے میں اکثر بہت سی رکاوٹیں حائل ہو جاتی ہیں، پھر زندگی کے جھمیلوں میں مصروف ہو کر وہ بھول جاتی ہیں کہ ان کے کیا خواب تھے۔

ایسا ہی ایک خواب دیکھا تھا، 1959ء میں لاہور میں آنکھ کھولنے والی رئیسہ بیگم نے بھی۔۔۔ خوب تعلیم حاصل کرنے کا خواب۔۔۔ مگر تقدیر کا کرنا ایسا ہوا کہ میٹرک کے امتحان دے کر رشتے داروں سے ملنے کراچی آئیں۔ جس دن پہنچیں، اسی شام ان کا نکاح پھوپھی زاد محب اللہ خان سے پڑھا دیا گیا، جو ان دنوں دبئی سے چھٹیوں پر کراچی آئے ہوئے تھے اور انہیں اگلی صبح لوٹنا تھا۔ وہ دبئی میں ایک تیل کمپنی سے منسلک تھے۔ یوں ایک دم سے رئیسہ بیگم کی زندگی ایک نئی راہ پر گام زن ہوگئی۔ شادی کے بعد دبئی چلی گئیں، تو نہ صرف ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوا، بلکہ وہ اپنے میٹرک کے نتائج بھی نہ جان سکیں۔

تعلیم کا سلسلہ جوڑنا چاہتی تھیں، شوہر بھی ان کے ہم خیال تھے، لیکن گھر اور بچوں کی مصروفیات کے سبب ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ تعلیم کی شیدائی رئیسہ بیگم نے اپنے سب بچوں کو اعلا تعلیم دلائی۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ بڑی بیٹی شادی شدہ ہے، جب کہ دیگر بیٹیاں وکالت، فیشن ڈیزائننگ اور کمپیوٹر کے شعبوں سے وابستہ ہیں، جب کہ ایک بیٹی ایم بی اے اور تین بیٹے بالترتیب اے سی سی اے، بی کام اور میٹرک میں زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے تعلیم کے میدان میں بچوں کی بساط بھر مدد بھی کی اور ان کے لیے کبھی ٹیوشن پر انحصار نہیں کیا۔

رئیسہ بیگم نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کچھ تعلیمی مراحل طے کیے، اس دوران اردو اور انگریزی کتب و رسائل کا مطالعہ جاری رہا۔ کہتی ہیں کہ ''انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی، لیکن پڑھ، پڑھ کر مختلف الفاظ یاد کرتی رہتی تھی، جو بعد میں انگریزی پڑھنے میں کافی مددگار ثابت ہوئے۔''

رئیسہ بیگم کا سب سے چھوٹا بیٹا میٹرک میں آیا، تو ان کے بچوں نے ان کی بھی میٹرک بورڈ میں رجسٹریشن کرا دی۔ یوں انہوں نے 37 برس بعد دوبارہ میٹرک سے اپنی تعلیم کا سلسلہ جوڑا اور پانچ ماہ میں کلاس نہم کے پرچے دیے۔ اردو کا مضمون بے حد پسند ہے۔ د بئی میں رہتے ہوئے عربی کی شد بد حاصل کر لی، اسی بنا پر سندھی زبان بھی انہیں آسان معلوم ہوئی۔ البتہ ریاضی کا پرچہ پہلے کی طرح خاصا کٹھن رہا۔ بقول رئیسہ بیگم ''یہ پرچہ کسی پل صراط کی طرح معلوم ہوتا تھا!'' ریاضی کے لیے انہیں ایک ماہ گھر پر ٹیوشن لینا پڑی۔ امتحان کی تیاری کے لیے ان کی بیٹی روزانہ ان کا ٹیسٹ لیتی تھی۔

تعلیمی سلسلہ مزید جاری رکھنے کے لیے بلند حوصلہ رئیسہ بیگم اردو یا انگریزی میں ماسٹرز کرنے کی خواہش مند ہیں۔ محنت سے کام یابی پر یقین رکھتی ہیں، چاہے کم نمبر آئیں، لیکن ان کا دل مطمئن رہتا ہے کہ انہوں نے نقل نہیں کی۔

37 سال بعد میٹرک کے پرچے دینے کے تجربے کا ذکر نکلا، تو انہوں نے بتایا کہ کمرہ امتحان میں بہت چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھنا پڑتا۔ ان کی نشست خصوصی طور پر سب سے آگے رکھی گئی تھی۔ بیٹی کے ساتھ جب پیپر دینے جاتی، تو اسکول کا چوکیدار دروازے پر روک لیتا کہ ''آپ کی بیٹی کا پرچہ ہے، صرف وہی جائے گی، آپ کس لیے اندر جا رہی ہیں؟'' اسے سمجھانا پڑتا کہ بچی کا نہیں، بلکہ انہی کا پیپر ہے۔ چوتھے پیپر میں انہیں کچھ تاخیر ہوئی۔ حسب سابق چوکیدار نے رئیسہ بیگم کو اندر جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ہیڈ مسٹریس سے اس معاملے کی شکایت کی، تو اسی وقت چوکیدار کی سرزنش اور تنبیہ کی گئی۔

عمر کے اس حصے میں پڑھائی دوبارہ شروع کرنے کا محرک جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں اس خیال سے حوصلہ ملا کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ ماضی کی تعلیم سے تقابل کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پہلے کے اساتذہ بہت ایمان داری سے پڑھاتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح ان کے شاگرد کا مستقبل سنور جائے، جب کہ آج کل کے استاد کو صرف اپنی تنخواہ سے مطلب ہے۔


پرانے زمانے میں تختیاں لکھوانے کے عمل کو رئیسہ بیگم بہت ضروری خیال کرتی ہیں۔ ''پانچویں جماعت تک تختیاں لکھوانے سے طالب علموں کا خط نہایت صاف ہوتا تھا۔ اساتذہ بار بار مشق کراتے تھے اور طلبہ تختیاں لکھنے، صاف کرنے، دھونے اور پھر اسے خشک کرنے کی مشقت بھی کرتے۔'' رئیسہ کا خیال ہے کہ آج بچوں کو دوبارہ قلم، دوات اور تختی سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی لکھائی اچھی ہوگی، بلکہ منہگائی کے اس دور میں کاپیوں کا خرچ بھی بچے گا۔

شادی کے بعد شاذ ہی کوئی خاتون تعلیم کا سلسلہ دوبارہ جوڑ پاتی ہے۔ ایسی خواتین کے حوالے سے رئیسہ بیگم کا کہنا تھا ''شادی کے بعد جب بھی فرصت ملے تو خواتین اپنی تعلیم ضرور مکمل کریں، اور کوئی شرم محسوس نہ کریں، میں نے اسی لیے اپنی دوبارہ تعلیم شروع کی اور کسی سے نہیں چھپایا تاکہ ایسی دیگر خواتین بھی شادی کے بعد اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کوئی عار نہ سمجھیں۔ جب میں نانی بن کر ایسا کرسکتی ہوں، تو دیگر خواتین کیوں نہیں کر سکتیں۔''

رئیسہ بیگم کو سماجی سرگرمیوں کے علاوہ سیاحت کا شوق ہے۔ صرف لاہور، کراچی اور دبئی کے ہی سفر کا موقع ملا، دیگر جگہوں کے سفر کی بھی خواہش ہے۔ گھر کے تمام کام اب ماسیوں کے سپرد ہیں۔ ان کا زیادہ تر وقت مطالعے اور سماجی خدمات میں گزرتا ہے۔ بچپن کا ذکر کرتے ہوئے رئیسہ بیگم کہتی ہیں کہ بہن، بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی، اسی لیے ان کی امی نے باورچی خانے کے زیادہ کام نہیں کرائے۔ 1994ء میں دبئی سے کراچی لوٹیں، تو اس وقت کراچی کے خراب حالات کی بنا پر لاہور میں مقیم میکے والے انہیں لاہور بلاتے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ''میرے لاہور آجانے سے کیا ہوگا، یہاں تو پورا شہر رہتا ہے۔''

رئیسہ بیگم چاہتی ہیں کہ ہر عام آدمی کو انصاف اور جان کا تحفظ ملنا چاہیے۔ خواتین کے مسائل میں منہگائی کو سب سے بڑا گردانتی ہیں کہ خواتین کی اکثریت گھروں میں شوہروں کی کمائی کو خرچ کرنے کی ذمہ دار ہیں اور ہوش رُبا گرانی کے باعث انہیں شدید دشواریاں ہیں۔

رئیسہ بیگم قومی سیاست سے مطمئن نہیں۔ بقول ان کے ''یہاں جو سب سے زیادہ چالاکی دکھائے، اسے بہت بڑا سیاست دان سمجھا جاتا ہے۔'' اس لیے کسی سیاست دان سے متاثر نہیں، تاہم جنرل ضیاالحق کی جہیز پر پابندی کے اقدام کو سراہتی ہیں، بقول ان کے وہ جس علاقے میں رہتی تھیں، وہاں کی لڑکیوں کے لیے جہیز ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ کسی شہر یا صوبے کو اپنا کہنے کے سیاسی نعروںکو غلط سمجھتی ہیں۔ چاہتی ہیں کہ سب متحد ہو کے رہیں۔ اگر لوگ چاہیں تو خود کو تبدیل کر کے معاشرے اور نظام کو درست کر سکتے ہیں۔ زندگی میں کسی سے نہ ڈرنے والی رئیسہ بیگم کو کسی کی بد دعا خوف زدہ کر دیتی ہے۔ اسی لیے اپنے بچوں کو ہمیشہ اچھے سلوک کی تلقین کرتی ہیں۔

طلبہ سیاست سے کونسلر کی امیدواری تک:

رئیسہ بیگم کی بیٹی رخشی خان ایڈووکیٹ زمانہ طالب علمی میں اے پی ایم ایس او (آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کی سرگرمیوں کے سلسلے میں خورشید ہال، عزیز آباد جاتیں، تو رئیسہ بیگم کے ساتھ جاتیں، تاہم انہیں وہاں روک لیا جاتا کہ یہاں والدین نہیں، بلکہ صرف طلبہ ہیں، جب وہ عذر بتاتیں کہ ان کی بیٹی اکیلی نہیں آسکتی، تو انہیں بھی اجازت مل جاتی، پھر جب انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں رجسٹریشن کرائی اور طالبہ بن کر ''اے پی ایم ایس او'' میں سرگرم ہونے کی خواہش بھی پوری کی۔

گزشتہ دنوں جب بلدیاتی انتخابات کے لیے امیدواروں کے کاغذات نام زَدگی جمع ہونے شرو ع ہوئے، تو انہیں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے علاقے کا کونسلر نام زَد کیا گیا۔ رئیسہ کہتی ہیں کہ ''میری ایسی کوئی خواہش نہیں کہ انتخاب لڑوں۔ مجھ سے بہتر اور بہت سے لوگ موجود ہیں، لیکن بہت زیادہ اصرار کیا گیا کہ ہمیں آپ جیسے سچے اور کھرے لوگوں کی ہی ضرورت ہے، جو ہر معاملے میں بول سکیں۔'' بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کے بعد ان کے انتخاب لڑنے کا معاملہ بھی التوا میں پڑ گیا۔ تاہم وہ پرعزم ہیں کہ ''اگر موقع ملا تو ایمان داری سے اپنے علاقے، شہر اور ملک کے مفاد میں کام کروں گی۔''

صحافی بننا چاہتی تھیں:

رئیسہ بیگم کے والد سلطان احمد خان 35 برس پاکستان ٹائمز سے منسلک رہے۔ ان کے ایک بھائی بھی صحافت سے وابستہ ہوئے۔ رئیسہ اپنے والد کے زیادہ قریب تھیں۔ اکثر ان کے ساتھ دفتر جایا کرتی تھیں۔ ان کی پذیرائی سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں اور ان کے دل میں بھی یہ امنگ جاگی کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح صحافی بنیں، مگر جلد شادی ہونے کی بنا پر وہ اس شعبے کا رخ نہ کر سکیں۔ انہیں آج کل کی صحافت میں سیاسی خبروں کی زیادتی محسوس ہوتی ہے۔ کہتی ہیں کہ ''آج کل کی سیاست میں جھوٹ کا بہت دخل ہے، اسی بنا پر صحافت میں بھی سچائی کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ سیاست اورصحافت دونوں میں سچائی ہونی چاہیے۔''
Load Next Story