بچوں کو امن کی فوری ضرورت ہے
اقوام متحدہ نے رواں سال کو بچوں کے لیے مشکل ترین سال قرار دیدیا، یونیسیف نے کہا ہے کہ تنازعات کے امکانات عالمی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت سے بچوں کے حقوق اور زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں جس سے بچوں کی تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور غذائیت متاثر ہوگی۔ بچوں کی حفاظت کا طریقہ معاشی یکجہتی، مارکیٹ میں تعاون اور مستقبل کی مہارتوں میں سرمایہ کاری ہے۔
یہ ایک بھیانک حقیقت ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کی زندگی اور صحت کو ترجیح دینے میں عالمی برادری مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے، سب سے زیادہ خطرات سے دوچار بچے ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ ایک سو سے زائد دنوں میں اسرائیلی جارحیت کی خوفناک وڈیوز پریشان کن ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونی سیف) کے مطابق، جنگ سے متعلق تمام اموات میں نصف سے زیادہ بیماری اور غذائی قلت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
آج دنیا کی نصف سے زیادہ خواتین اور بچے تنازعات کا سامنا کرنے والے ممالک میں رہ رہے ہیں، عالمی برادری ان کی حالت زار کو نظرانداز نہیں کرسکتی، نئے اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ آبادی میں اضافے، مزید تنازعات، شہری علاقوں میں روایتی اورکیمیائی ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے استعمال اور مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں دنیا بھر میں مسلح تنازعات سے متاثرہ خواتین اور بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اس وقت بھی جنگ کے لیے کنونشنز موجود ہیں، لیکن طاقتور کے لیے سفاکیت مسلط کرنا جنگ کا فن ہے، یہاں تک کہ انسانیت کی قیمت پر بھی۔
دوسری جانب متواتر بڑھتی عالمی حدت سے دنیا کے نصف بچوں کو ناقابل تلافی نقصان کے مزید امکانات موجود ہیں۔
بڑھتے ہوئے تند و تیز طوفانوں میں بچے اپنے گھروں یا اسکولوں سے محروم ہو سکتے ہیں، خشک سالی کے باعث انھیں جسمانی کمزوری کا سامنا ہو سکتا ہے، یہی نہیں بلکہ شدید گرمی کی لہروں یا ہوائی آلودگی کے نتیجے میں نمونیا لاحق ہونے کے باعث ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ یونیسف کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ بچے ایسے ممالک میں رہتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
نومبر 1989کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کا عالمی معاہدہ کیا اور 2ستمبر 1990 میں اسے عملی شکل دی۔ یہ معاہدہ کل54دفعات پر مشتمل ہے۔
ان میں سے 41دفعات بچوں کے حقوق پر مشتمل ہیں جب کہ 13دفعات ایسی ہیں جو کہ ریاستوں اور اقوام متحدہ کے اداروں کی ذمے داری ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت ڈھائی کروڑ سے زائد جب کہ پنجاب میں 77 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں، پاکستان میں ہر سال91 ہزار بچے نمونیا اور 53 ہزار سے زائد بچے اسہال کے باعث انتقال کر جاتے ہیں، لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار اور ہزاروں جنسی و جسمانی ہراسانی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب نے صورتحال کو مزید متاثر کیا ہے۔
اِس عالمی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان سمیت تمام ممالک بچوں کو اُن کی نشوونما، اُن کی صحت وتعلیم، اُن کی تفریح، نگہداشت پرورش بچے کو ذہنی اور جسمانی تشدد اور بدسلوکی سے بچاؤ سمیت تمام وہ اقدامات کرنے کے پابند ہونگے جن کے ذریعے بچوں کو ملک کا ایک موثر شہری بنایا جا سکے۔
خصوصاً اس معاہدے کے تحت کم عمر بچوں سے جبری مشقت کی سخت ممانعت کی گئی ہے اور ریاستوں سے ضمانت لی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں بچوں کی مشقت کے خلاف موثر قانون سازی کریں گے۔
اس طرح ہر ملک یا ریاست اپنے ملک میں بچوں کے لیے علیحدہ صحت کی سہولیات مہیا کریں گے بچوں کی جیلیں علیحدہ ہونگی جہاں بچوں کو خصوصی رعایت حاصل ہوگی۔ اس معاہدے کے مطابق ریاست تمام بچوں کو یکساں تعلیم کے برابر مواقع فراہم کرے گی اور پرائمری تک لازمی اور مفت تعلیم فراہم کی جائے گی۔ بچوں کی حاضری کو باقاعدہ بنانے کے اقدامات اور اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد کم کرنے کے اقدامات کریں گے۔
اس طرح بچوں کے لیے تفریحی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمے داری ہوگی اس معاہدے میں ریاستیں اس حق کو نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ بچے کی عمر کے مطابق اُس کی تفریح اور فنونِ لطیفہ کی سرگرمیوں کے لیے اقدامات کی بھی ذمے دار ہیں۔
جنگ کی صورت میں فریقین پر ذمے داری ہوگی کہ وہ بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں ، بچوں کو جنگ میں شریک نہ کیا جائے، افواج میں بھرتی نہ کیا جائے اور زخمی ہونے والے بچوں کی خصوصی نگہداشت کا اہتمام کیا جائے گا۔
آج پاکستان میں بچوں کی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔ بچوں کے لیے قوانین تو بنائے گئے لیکن عمل نہیں ہوسکا۔ بچے آج بھی پولیو اور ملیریا کا شکار ہو رہے ہیں توکہیں درجنوں بچے بھوک اور ادویات کی کمی کے باعث موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور مزدوری کرنے پر مجبورہیں، قومی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ ہمارے ملک میں طبقاتی نظام تعلیم رائج ہے جاگیر دار بیوروکریٹ سر مایہ دار افراد کے بچوں کے لیے علیحدہ اسکول اور نظام تعلیم ہے، جب کہ غریب کے بچوں کے لیے قائم سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کو دیکھیں تو افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میں چالیس فیصد آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
ایسی صورت میں چائلڈ لیبر میں اضافہ لازمی امر ہے۔ ریاست کی صورتحال میں ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو اس ساری صورتحال میں بہتری لائے۔
اُدھر صحت کی صورت حال پر ایک نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ بچوں میں شرح اموات میں جنوبی ایشیاء میں ہم سب سے نمایاں ہیں۔ پاکستان میں 30 سے 40 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے اور نومولود اور 10 سال تک بچوں کی شرح اموات کی زیادہ وجہ آلودہ پانی ہے، پاکستان میں ہر سال 1000 میں سے 106 بچے دستوں کی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کی ریاست اور سماج ان معصوم پھول جیسے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ہماری غربت اور پسماندگی کا تاوان کمزور طبقات خاص طور پر بچوں کو جسمانی اور جذباتی طور پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی اکثریت تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم اور محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ان کے گھر والے بھی جسمانی محنت اور مزدوری ہی کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ آبادی چوبیس کروڑ سے زائد ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ سوا دو کروڑ سے زائد پاکستانی بچے حصول تعلیم سے محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف اور پاکستانی ادارہ برائے ترقیاتی معیشت (PIDE) کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں، جو اپنی مجموعی آبادی میں بچوں اور نوجوانوں کے سب سے زیادہ تناسب والی ریاستوں میں سے ایک ہے، تقریباً 22.8 ملین یا دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے ایسے بھی ہیں، جن کی عمریں تو اسکول جانے کی ہیں مگر جو حصول تعلیم کے لیے اسکول نہیں جاتے۔
مسئلے کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں دھماکا خیز اضافہ ہے۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، اس تناسب سے نئے اسکول قائم نہیں کیے جا رہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسکول نہ جانے والے زیادہ تر بچے ایسے ہیں، جن کے والدین تعلیم دلوانے کے بجائے مہنگائی کے باعث اپنے بچوں سے مزدوری کروانا چاہتے ہیں۔ ایسے والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو اسکول بھیجنا وقت کا ضیاع ہے۔ ایسے بچوں کے لیے خصوصی منصوبے ہونا چاہئیں۔ انھیں وظیفے دیے جانا چاہئیں اور ان کے والدین کو یہ احساس دلایا جانا چاہیے کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کتنی ضروری ہے۔
آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے لائے گئے آرٹیکل پچیس اے کے تحت ریاست کی ذمے داری ہے کہ چھ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے ہر بچے کو مفت تعلیم دی جائے، لیکن ہمارے ہاں تو سوا دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
ان حالات میں ماضی قریب کے مقابلے میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث مزید دس سال بعد تو صورت حال اور بھی پریشان کن ہو جائے گی۔ عام والدین گھروں کے کرائے دیں، بجلی کے بل ادا کریں یا پھر بچوں کی فیسیں تو وہ مجبوراً بچوں کو اسکول بھیجتے ہی نہیں یا بھیجنا بند کر دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے، بچوں کے محفوظ اور روشن مستقبل کے لیے ٹھوس پالیسی سازی اور ان عمل درآمد کی ضرورت ہے۔حرف آخر مذاکرات جنگوں سے افضل ہیں کیونکہ ان سے تشدد کے بغیر امن کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔
امن نہ صرف جنگ کی عدم موجودگی ہے بلکہ انصاف کی موجودگی بھی ہے۔ جنگوں کے بجائے مکالمے اور گفت و شنید میں شامل ہو کر ہم اپنے اور آنے والی نسلوں کے لیے زیادہ پرامن دنیا بنا سکتے ہیں۔ آخر میں، ہم سب انسان ہیں اور انسانوں کو مارنا ہمارا کھیل نہیں ہے۔
افراد، معاشروں اور قومی ریاستوں کے طور پر، ہمیں جنگوں کے بدصورت پہلوؤں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے قیام کے پیچھے جذبہ تھا، اقوام متحدہ کو اپنی تخلیق کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔
یہ ایک بھیانک حقیقت ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کی زندگی اور صحت کو ترجیح دینے میں عالمی برادری مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے، سب سے زیادہ خطرات سے دوچار بچے ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ ایک سو سے زائد دنوں میں اسرائیلی جارحیت کی خوفناک وڈیوز پریشان کن ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونی سیف) کے مطابق، جنگ سے متعلق تمام اموات میں نصف سے زیادہ بیماری اور غذائی قلت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
آج دنیا کی نصف سے زیادہ خواتین اور بچے تنازعات کا سامنا کرنے والے ممالک میں رہ رہے ہیں، عالمی برادری ان کی حالت زار کو نظرانداز نہیں کرسکتی، نئے اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ آبادی میں اضافے، مزید تنازعات، شہری علاقوں میں روایتی اورکیمیائی ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے استعمال اور مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں دنیا بھر میں مسلح تنازعات سے متاثرہ خواتین اور بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اس وقت بھی جنگ کے لیے کنونشنز موجود ہیں، لیکن طاقتور کے لیے سفاکیت مسلط کرنا جنگ کا فن ہے، یہاں تک کہ انسانیت کی قیمت پر بھی۔
دوسری جانب متواتر بڑھتی عالمی حدت سے دنیا کے نصف بچوں کو ناقابل تلافی نقصان کے مزید امکانات موجود ہیں۔
بڑھتے ہوئے تند و تیز طوفانوں میں بچے اپنے گھروں یا اسکولوں سے محروم ہو سکتے ہیں، خشک سالی کے باعث انھیں جسمانی کمزوری کا سامنا ہو سکتا ہے، یہی نہیں بلکہ شدید گرمی کی لہروں یا ہوائی آلودگی کے نتیجے میں نمونیا لاحق ہونے کے باعث ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ یونیسف کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ بچے ایسے ممالک میں رہتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
نومبر 1989کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کا عالمی معاہدہ کیا اور 2ستمبر 1990 میں اسے عملی شکل دی۔ یہ معاہدہ کل54دفعات پر مشتمل ہے۔
ان میں سے 41دفعات بچوں کے حقوق پر مشتمل ہیں جب کہ 13دفعات ایسی ہیں جو کہ ریاستوں اور اقوام متحدہ کے اداروں کی ذمے داری ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت ڈھائی کروڑ سے زائد جب کہ پنجاب میں 77 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں، پاکستان میں ہر سال91 ہزار بچے نمونیا اور 53 ہزار سے زائد بچے اسہال کے باعث انتقال کر جاتے ہیں، لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار اور ہزاروں جنسی و جسمانی ہراسانی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب نے صورتحال کو مزید متاثر کیا ہے۔
اِس عالمی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان سمیت تمام ممالک بچوں کو اُن کی نشوونما، اُن کی صحت وتعلیم، اُن کی تفریح، نگہداشت پرورش بچے کو ذہنی اور جسمانی تشدد اور بدسلوکی سے بچاؤ سمیت تمام وہ اقدامات کرنے کے پابند ہونگے جن کے ذریعے بچوں کو ملک کا ایک موثر شہری بنایا جا سکے۔
خصوصاً اس معاہدے کے تحت کم عمر بچوں سے جبری مشقت کی سخت ممانعت کی گئی ہے اور ریاستوں سے ضمانت لی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں بچوں کی مشقت کے خلاف موثر قانون سازی کریں گے۔
اس طرح ہر ملک یا ریاست اپنے ملک میں بچوں کے لیے علیحدہ صحت کی سہولیات مہیا کریں گے بچوں کی جیلیں علیحدہ ہونگی جہاں بچوں کو خصوصی رعایت حاصل ہوگی۔ اس معاہدے کے مطابق ریاست تمام بچوں کو یکساں تعلیم کے برابر مواقع فراہم کرے گی اور پرائمری تک لازمی اور مفت تعلیم فراہم کی جائے گی۔ بچوں کی حاضری کو باقاعدہ بنانے کے اقدامات اور اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد کم کرنے کے اقدامات کریں گے۔
اس طرح بچوں کے لیے تفریحی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمے داری ہوگی اس معاہدے میں ریاستیں اس حق کو نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ بچے کی عمر کے مطابق اُس کی تفریح اور فنونِ لطیفہ کی سرگرمیوں کے لیے اقدامات کی بھی ذمے دار ہیں۔
جنگ کی صورت میں فریقین پر ذمے داری ہوگی کہ وہ بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں ، بچوں کو جنگ میں شریک نہ کیا جائے، افواج میں بھرتی نہ کیا جائے اور زخمی ہونے والے بچوں کی خصوصی نگہداشت کا اہتمام کیا جائے گا۔
آج پاکستان میں بچوں کی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔ بچوں کے لیے قوانین تو بنائے گئے لیکن عمل نہیں ہوسکا۔ بچے آج بھی پولیو اور ملیریا کا شکار ہو رہے ہیں توکہیں درجنوں بچے بھوک اور ادویات کی کمی کے باعث موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور مزدوری کرنے پر مجبورہیں، قومی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ ہمارے ملک میں طبقاتی نظام تعلیم رائج ہے جاگیر دار بیوروکریٹ سر مایہ دار افراد کے بچوں کے لیے علیحدہ اسکول اور نظام تعلیم ہے، جب کہ غریب کے بچوں کے لیے قائم سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کو دیکھیں تو افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میں چالیس فیصد آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
ایسی صورت میں چائلڈ لیبر میں اضافہ لازمی امر ہے۔ ریاست کی صورتحال میں ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو اس ساری صورتحال میں بہتری لائے۔
اُدھر صحت کی صورت حال پر ایک نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ بچوں میں شرح اموات میں جنوبی ایشیاء میں ہم سب سے نمایاں ہیں۔ پاکستان میں 30 سے 40 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے اور نومولود اور 10 سال تک بچوں کی شرح اموات کی زیادہ وجہ آلودہ پانی ہے، پاکستان میں ہر سال 1000 میں سے 106 بچے دستوں کی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کی ریاست اور سماج ان معصوم پھول جیسے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ہماری غربت اور پسماندگی کا تاوان کمزور طبقات خاص طور پر بچوں کو جسمانی اور جذباتی طور پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی اکثریت تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم اور محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ان کے گھر والے بھی جسمانی محنت اور مزدوری ہی کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ آبادی چوبیس کروڑ سے زائد ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ سوا دو کروڑ سے زائد پاکستانی بچے حصول تعلیم سے محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف اور پاکستانی ادارہ برائے ترقیاتی معیشت (PIDE) کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں، جو اپنی مجموعی آبادی میں بچوں اور نوجوانوں کے سب سے زیادہ تناسب والی ریاستوں میں سے ایک ہے، تقریباً 22.8 ملین یا دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے ایسے بھی ہیں، جن کی عمریں تو اسکول جانے کی ہیں مگر جو حصول تعلیم کے لیے اسکول نہیں جاتے۔
مسئلے کی سب سے بڑی وجہ آبادی میں دھماکا خیز اضافہ ہے۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، اس تناسب سے نئے اسکول قائم نہیں کیے جا رہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسکول نہ جانے والے زیادہ تر بچے ایسے ہیں، جن کے والدین تعلیم دلوانے کے بجائے مہنگائی کے باعث اپنے بچوں سے مزدوری کروانا چاہتے ہیں۔ ایسے والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو اسکول بھیجنا وقت کا ضیاع ہے۔ ایسے بچوں کے لیے خصوصی منصوبے ہونا چاہئیں۔ انھیں وظیفے دیے جانا چاہئیں اور ان کے والدین کو یہ احساس دلایا جانا چاہیے کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کتنی ضروری ہے۔
آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے لائے گئے آرٹیکل پچیس اے کے تحت ریاست کی ذمے داری ہے کہ چھ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے ہر بچے کو مفت تعلیم دی جائے، لیکن ہمارے ہاں تو سوا دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
ان حالات میں ماضی قریب کے مقابلے میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث مزید دس سال بعد تو صورت حال اور بھی پریشان کن ہو جائے گی۔ عام والدین گھروں کے کرائے دیں، بجلی کے بل ادا کریں یا پھر بچوں کی فیسیں تو وہ مجبوراً بچوں کو اسکول بھیجتے ہی نہیں یا بھیجنا بند کر دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے، بچوں کے محفوظ اور روشن مستقبل کے لیے ٹھوس پالیسی سازی اور ان عمل درآمد کی ضرورت ہے۔حرف آخر مذاکرات جنگوں سے افضل ہیں کیونکہ ان سے تشدد کے بغیر امن کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔
امن نہ صرف جنگ کی عدم موجودگی ہے بلکہ انصاف کی موجودگی بھی ہے۔ جنگوں کے بجائے مکالمے اور گفت و شنید میں شامل ہو کر ہم اپنے اور آنے والی نسلوں کے لیے زیادہ پرامن دنیا بنا سکتے ہیں۔ آخر میں، ہم سب انسان ہیں اور انسانوں کو مارنا ہمارا کھیل نہیں ہے۔
افراد، معاشروں اور قومی ریاستوں کے طور پر، ہمیں جنگوں کے بدصورت پہلوؤں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے قیام کے پیچھے جذبہ تھا، اقوام متحدہ کو اپنی تخلیق کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔