2018 کے بعد 2024 کے عام انتخابات


Muhammad Saeed Arain January 18, 2024
[email protected]

ایک وقت تھا کہ ملک میں الیکشن تہوار کے طور پر منایا جاتا اور عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے امیدوار ڈی آر اوز کے دفاتر جاتے ہوئے ڈھول کی تھاپ کے ساتھ پھولوں کے ہار پہن کر دھوم دھام سے آتے تھے۔

ان کے حامی ان کے لیے فلک شگاف نعرے لگا کر اس کا خیر مقدم کرتے تھے لیکن اب صورتحال تمام سیاسی جماعتوں بالعموم اور پی ٹی آئی کے لیے بالخصوص مختلف ہے اور پی ٹی آئی والے عدالتوں کے چکر لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

پہلے بڑی پارٹیوں کے رہنما اور امیدوار جلوسوں کی شکل میں آتے تھے کاغذات جمع کرا کر میڈیا سے گفتگو اور اپنے حامیوں کے نعرے سن کر خوش ہوتے تھے مگر اب ان کے لیے حالات 2018 جیسے نہیں ہیں کیونکہ 2023 کو نو مئی کا سانحہ بھی پی ٹی آئی والوں نے رونما کیا تھا، کور کمانڈر ہاؤس لاہور، عسکری تنصیبات اور فوج کے شہدا کی یادگاروں اور ان کے مجسمے توڑ کر فخر کر رہے تھے۔

ملک کے لیے جان دینے والے فوجی افسر کا مجسمہ ہاتھ میں اٹھا کر پھینکا جا رہا تھا تو انھیں فوج کا احترام تھا نہ پولیس کا خوف۔ وہ بدمست ہاتھی کی طرح بے خوف ہو کر تنصیبات کو آگ لگا کر پی ٹی آئی کے پرچم لہرا کر نعرے لگا رہے تھے کیونکہ انھیں اپنے اقتدار میں واپس آ جانے کی امید اور انقلاب کا خواب دکھایا گیا تھا مگر جب امیدیں پوری نہ ہوئیں اور انقلاب کے بجائے پولیس نے پکڑ دھکڑ شروع کی تو متوالے فرار ہو کر روپوش ہوگئے جو بڑے دعوے کرتے تھے چھپ گئے کہ گرفتار نہ ہو جائیں۔

9 مئی کے سانحے کی مذمت کرنے والی سیاسی پارٹیوں والے اور آزاد امیدوار 2018 کی طرح ڈی آر او دفاتر آ کر کاغذات نامزدگی جمع کرا گئے انھیں تو پولیس نے پکڑا نہ ان سے کسی نے کاغذات چھینے۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کے امیدواروں نے سب سے زیادہ تقریباً 23 سو کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ پی ٹی آئی والوں کے کاغذات چھینے گئے تو سب سے زیادہ کاغذات پی ٹی آئی والوں کے کیسے جمع ہو گئے؟ اتنی بڑی تعداد میں پی ٹی آئی امیدوار ملک بھر میں ڈی آر اوز کے دفاتر آئے، مفرور رہنماؤں تک کے کاغذات جمع ہو گئے۔

بعض نے وکیلوں کے ذریعے کاغذات جمع کرائے تو کسی وکیل سے تو کاغذات نہیں چھینے گئے نہ کوئی گرفتار ہوا۔

پی ٹی آئی کے بانی کی پالیسی رہی ہے کہ وہ پہلے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پہلے ہی شور مچا دیتے ہیں کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوگا جو پانچ درجن شہروں کے جلسوں میں تو نہیں ہوا تھا اور چیئرمین جلسے کرکے زمان پارک واپس بھی بخیریت آ جاتے تھے تو وہ خود کو محفوظ سمجھتے تھے مگر خود پر حملے کے الزامات دہراتے رہتے تھے اور وزیر آباد میں ان پر حملہ کرنے والے کی فائرنگ سے بھرے جلوس میں صرف ٹانگ متاثر ہوئی تھی جس کے بعد وہ کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد اپنے ہی اسپتال علاج کرانے آئے تھے اور متعلقہ تھانے یا قریبی اسپتال نہیں گئے تھے جب کہ پنجاب میں ان کی اپنی حکومت تھی۔

2024 میں پی ٹی آئی کے ساتھ اگر کچھ ہو رہا ہے تو اس کی ذمے دار خود پی ٹی آئی ہے جو جھوٹا پروپیگنڈا کرنے میں مہارت رکھتی ہے اس لیے گرفتاری سے بچنے والے کاغذات چھینے جانے کا شور مچا رہے ہیں۔

2018 کے بعد 2024 کے انتخابات کے موقع پر پی ٹی آئی اپنا وہ مقام گنوا چکی جو اسے 2018 میں حاصل تھا اور بالاتروں کی مکمل حمایت اسے حاصل تھی کیونکہ لاڈلے کو ہر حالت میں اقتدار میں لانا تھا۔ مکمل پشت پناہی لاڈلے کو حاصل تھی یہاں تک کہ انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کر اسے اکثریت نہ دلائی جا سکی تھی اور اسے بالاتروں نے اتحادی لا کر دیے تھے تو چند ووٹوں کے فرق سے وہ وزیر اعظم بنوایا گیا تھا۔

2018کے الیکشن میں تین بار وزیر اعظم رہنے والا اپنی بیٹی سمیت جیل میں تھا اور آج صرف ایک بار کا وزیر اعظم اڈیالہ جیل میں عیش و آرام سے ہے۔ من پسند خوراک اسے مل رہی ہے دس لاکھ کی سرکاری مشین سے ورزش بھی کی جا رہی ہے۔

سات سو ٹکٹوں پر مشاورت کی سہولت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ 2018 میں سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج بھی پی ٹی آئی پر مہربان اور مراعات کھلم کھلا دے رہے تھے جب کہ 2024 کا چیف جسٹس مکمل غیر جانبدار ہے اور ان کی دلچسپی 8 فروری کو بروقت الیکشن کے انعقاد میں ہے۔

2018 میں صدر مملکت 3 بار کے وزیر اعظم کی مدد کی پوزیشن میں نہیں تھا مگر 2024 میں پی ٹی آئی کا صدر موجود ہے اور اپنے چیئرمین کو ہر ممکن سہولت کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔2018 کے قید وزیر اعظم کو اپنی شدید بیمار اہلیہ سے فون پر بات کی اجازت نہیں تھی اور 2024 میں صرف ایک بار کا وزیر اعظم ہر ہفتے اپنی اہلیہ اور وکلا سے ملاقاتیں کرتا ہے۔

پی ٹی آئی کو اب بھی کھلا عدالتی ریلیف مل رہا ہے اور لگتا تو یہ ہے کہ 9 مئی کو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا کیونکہ 9 مئی کے متاثرین بھی کہیں بے بس ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔