سیاسی جماعتوں کا منشور
منشور کتنا اچھا ہے کتنا برا ہے۔ یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ لیکن منشور عوام کے سامنے ہونا چاہیے
ملک میں الیکشن کا ماحول ہے ' سیاسی جماعتوں کے منشور کا سب کو انتظار ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور ابھی تک سامنے نہیں آئے۔
بلاول نے چند نکات پیش کیے ہیں لیکن مکمل منشور بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے بھی ابھی اپنے منشور کی تشہیر شروع نہیں کی' نہ ہی پی ٹی آئی نے فی الحال کوئی منشور جاری کیا ہے۔ البتہ جماعت اسلامی نے منشور جاری کر دیا ہے۔ اکا دکا نئی اور چھوٹی پارٹیوں نے بھی انتخابی منشور جاری کیا ہے۔
پارٹی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی' مقبول ہو یا کم مقبول' جو بھی جماعت الیکشن میں جاتی ہے اسے اپنا منشور اپنے ووٹرز کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں شاید منشور کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑی اور پاپولر جماعتیں ابھی تک اپنے منشور پر کوئی بات نہیں کرتیں۔الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ایک نئی جماعت نے بھی انتخابی منشور جاری کیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں چھوٹی جماعتوں کو بھی اہمیت دینی چاہیے اور اس کا بھی جائزہ لینا چاہیے'آپ کے سامنے جس چھوٹی جماعت کے منشور کا جائزہ لے رہاہوں'اس کا نام پاکستان مرکزی مسلم لیگ ہے اور اس کے امیدواروں کا انتخابی نشان کرسی ہے۔ووٹرز نے ووٹ تو اپنی مرضی سے کاسٹ کرنا ہے تاہم میں سمجھتا ہوں نئی سیاسی جماعتوں کے منشور کو بھی اتنی ہی سنجیدگی سے لینا چاہیے ، جتنا ہم بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور کو لیتے ہیں۔
ویسے تو منشور کی بنیاد پر ووٹ دینے کا رجحان کم ہے۔ لیکن پھر بھی ووٹ دینے سے پہلے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جس جماعت کو ووٹ دے رہا ہے اس کا منشور کیا ہے۔ منشور کی بنیاد پر ہی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اگر منشور نہیں ہوگا تو کارکردگی کا جائزہ کس بنیاد پر ہوگا۔یہ کیسے معلوم ہوگا کہ عوامی مسائل کا حل کیا ہے۔ کونسی سیاسی جماعت کیسے مسائل حل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
مرکزی مسلم لیگ کے امیدوار کئی حلقوں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔انھیں ووٹرز ووٹ دیتے ہیںیا نہیں 'یہ الگ سوال ہے۔
اس جماعت کے منشور کے مطابق یہ جماعت اللہ کی مدد اور عوام پاکستان کے تعاون سے ملک کو مایوسیوں سے نکال کر روشن مستقبل کی طرف گامزن کرے گی۔ اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کیا جائے گا۔ عدل کی بنیاد پر سب کو حقوق فراہم کیے جائیں گے اورفرائض کی ادائیگی کے لیے تربیت دی جائے گی۔طبقاتی، علاقائی اور لسانی فرق ختم کیے جائیں گے۔
ہر قوم و زبان کا احترام، حقوق اور فلاح و بہبود کا خصوصی خیال رکھا جائے گا اور محرومیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔ ملک میں بلدیاتی نظام لاگو کیا جائے گا اور بلدیاتی نمایندوں کو بااختیار بنایا جائے گا۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک اہل پاکستان ایک قوم کی حیثیت حاصل نہیں کر سکے۔ موثر اصلاحی و اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نظریاتی اساس کو راسخ کیا جائے گا۔
ملکی معیشت کے حوالے سے منشور میں کہا گیا ہے کہ وطن عزیز پاکستان عالمی دباؤ کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار ہے، معیشت تباہ حال ہے اور سودی قرضوں کی وجہ سے بے پناہ مسائل قومی سطح پر پیدا ہو گئے ہیں۔ غریب و امیر کا فرق بڑی حد تک ختم کر کے عدل پر مبنی اسلامی معیشت قائم کی جائے گی۔
انشاء اللہ!ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے معاشی نظام ترتیب دیا جائے گا۔ سود کو ختم کیا جائے گا اور نئے قرضے نہیں لیے جائیں گے جب کہ پرانے قرضوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے حساب کتاب کر کے مسئلہ حل کیا جائے گا۔ جرأت کے ساتھ مذاکرات کر کے ثابت کیا جائے گا کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے مقروض ہیں۔ کیونکہ سود کے نام پر ظلم کرتے ہوئے وہ اصل قرض سے کئی گنا پاکستان سے وصول کر چکے ہیں۔
پاکستان کی آزادی اور آزاد معیشت کا یہی راستہ ہے۔ ہم تجارتی معاہدے سب قوموں سے کریں گے لیکن غلامی کسی کی نہیں کریں گے۔
انشاء اللہ!پہلے سے موجود بینکوں کومکمل تجارتی ادارے بنادیا جائے گا۔ملکی صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا۔ تعلیم کے حوالے سے منشور میں کہا گیا ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کو شامل کر کے ہر پاکستانی کو پڑھے لکھے لوگوں کی صف میں شامل کیا جائے گا۔
غریب اور امیر کے بچے ایک ہی معیار کے تعلیمی اداروں میں صلاحیتوں میں نکھار پیدا کریں گے اور سب مل کر پاکستان کا روشن مستقبل بنیں گے۔انشاء اللہ!دینی علوم کو جدید تعلیم میں شامل کر کے پاکستان کے نظریاتی مستقبل کو محفوظ کیا جائے گا۔ انشاء اللہ!جامعات میں پڑھائے جانے والے پروفیشنل ڈگریزکے نصاب کو مارکیٹ اور صنعتوں کی ضرورت کے مطابق بنایا جائے گا تاکہ طلبا و طالبات پیش آمدہ چیلنجز سے نبٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں۔
منشور میں کہا گیا ہے کہ ہماری افرادی قوت خاص طور پر نوجوان دوسرے ملکوں میں بڑی تعداد میں نوکریاں کر رہے ہیں اور ملک سے باہر جانے کارجحان بڑھ رہا ہے،اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے معاشی پالیسیوں کی بہت زیادہ اصلاح کرنا ہو گی۔
غریب آدمی کا بوجھ حکومت اٹھائے گی، تعلیم، صحت اور خوراک پر خصوصی سبسڈی دی جائے گی۔ بے روزگار افراد کو کاروبار کے لیے تربیت کے ساتھ بلا سود قرضے بھی فراہم کیے جائیں گے۔
ایک خاص آمدنی سے کم افراد کے لیے بجلی اور گیس کے بلوں میں خصوصی چھوٹ فراہم کی جائے گی۔ہنر مند افراد کی تیاری پر خصوصی توجہ ہوگی تاکہ یہ افراد نا صرف روزگار کمائیں بلکہ زرمبادلہ کا بھی باعث بنیں۔غربت کے خاتمے اور عام بندے کی زندگی آسان بنانے کے لیے زکوٰۃ و عشر اور صدقات کا نظام قائم کر کے مالی وسائل رکھنے والے لوگوں پر مناسب بوجھ ڈالا جائے گا۔
یہ منشور کتنا اچھا ہے کتنا برا ہے۔ یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ لیکن منشور عوام کے سامنے ہونا چاہیے۔ اسی لیے میں نے اس میں کچھ نکات تحریر کیے ہیں۔