توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ کیس کے جیل ٹرائل کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی جیل ٹرائل روکنے کی درخواست پر سیکرٹری داخلہ سے جواب طلب کرلیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نےعمران خان کی توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ نیب ریفرنسز میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ ریفرنسز کے جیل ٹرائل کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی جس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ دو نوٹی فکیشن ہیں جنہیں ہم نے چیلنج کیا ہے۔ لطیف کھوسہ نے توشہ خانہ کیس پر جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن کا پڑھ کر سنایا اور مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے بھی دیے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہماری ایک درخواست پر نمبر لگا ہے دوسری پر نہیں لگا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نومبر کا نوٹی فکیشن ہے آپ اتنی دیر بعد کیوں آئے ہیں؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ 20 دسمبر کو ریفرنس عدالت میں دائر ہوا اس وقت ہمیں پتا چلا روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل ہورہا ہے۔
جسٹس اورنگزیب نے کہا کہ ڈویژن بنچ نے 21 نومبر کو مختصر فیصلہ دیا جہاں سائفر ٹرائل کالعدم ہوا تھا ، میرے ذہن میں ہے کہ 21 نومبر 2023ء کو ہمارا مختصر فیصلہ آگیا تھا ہم نے کہا تھا کہ جیل ٹرائل سے متعلق جج کا کوئی آرڈر نہیں تھا ، آپ یہ کہہ رہے ہیں عدالت نے اس کیس میں جوڈیشل آرڈر نہیں کیا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ بالکل اسی طرح ہوا ہے اور ڈویژن بینچ کے مختصر فیصلے کے یہ ٹرائل شروع ہوا۔
جسٹس اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے تو اس کا پراسیس ہی دیکھنا ہے نہ ٹھیک ہوا ہے یا نہیں، ہم نے یہ نہیں دیکھنا ٹرائل ادھر کریں یا جیل میں کریں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس کیس میں جج کی جانب سے کوئی تجویز بھی نہیں ہے، جج نے بھی نہیں کہا کہ سیکیورٹی کی وجوہات پر جیل ٹرائل کریں، مختصر فیصلہ تو ہمارا موجود تھا جوڈیشل آرڈر تھا وہ دیکھ سکتے تھے۔
عدالت نے پوچھا کہ تو کیا ریفرنس دائر کرنے سے پہلے انہوں نے جیل ٹرائل شروع کیا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ بالکل انہوں نے ریفرنس دائر کرنے سے پہلے ہی جیل ٹرائل شروع کیا نوٹی فکیشن بھی بعد میں آیا وفاقی حکومت کو کیسے پتا تھا کہ ریفرنس دائر ہو گا؟ جج کی تعیناتی بھی قانون کے مطابق نہیں۔
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ بانی تحریک انصاف عمران خان نے احتساب عدالت کے جج کی تعیناتی کو بھی چیلنج کردیا، جج صاحب کو ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا گیا ان کی ریٹائرمنٹ کی مدت بھی قریب ہے جج صاحب روزانہ کی بنیاد پر سماعت کررہے ہیں تاکہ ٹرائل مکمل کرسکیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ صبح سے شام تک ہمیں روزانہ جیل میں بیٹھاتے ہیں۔
جسٹس اورنگزیب نے کہا کہ اگر اسلام آباد میں ایک احتساب عدالت ہے تو باقی کام متاثر ہورہا ہے؟ یہ تو جیل جارہے ہیں؟ کیا احتساب عدالت کے جج کوئی اور جوڈیشل ورک کر رہے ہیں؟ کیا صرف یہی کرتے ہیں؟
وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس گلزار احمد نے اسلام آباد میں تین احتساب عدالتوں کا کہا تھا۔ جسٹس اورنگزیب نے کہا کہ آپ کی حکومت نے احتساب عدالت کے ججز کی منظوری دی ہی نہیں دی تھی اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں اس وقت کالے کوٹ میں آپ کے سامنے ہوں۔
جسٹس اورنگزیب نے کہا کہ یہ سب آف دی ریکارڈ تھا مستقبل میں سب کچھ سامنے آجائے گا، کیسے قابل لوگوں کی سفارش کرکے بھیجتے تھے تو وزارت قانون اس پر بیٹھ جاتی تھی۔
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف بانی پی ٹی آئی کے کیسز تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں باقی تمام کیسز کا ٹرائل احتساب عدالت میں آگے نہیں بڑھ رہا، گیارہ گواہوں کے بیانات ہوچکے تین پر جرح ہو چکی
نیب کی طرف سے کوئی وکیل کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ دوسری طرف سے کوئی پیش ہوا ہے؟ پورے پاکستان کو معلوم تھا کہ آج کیس لگنا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ مناسب نہیں ہوگا کہ ہم نوٹس جاری کردیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ جناب وہ روزانہ سماعت چلا رہے ہیں کل پھر مزید گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرلیں گے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ توشہ خانہ حکومت کی تجوری ہے اور سیکرٹری کابینہ اس کا رکھوالا ہے سیکرٹری کابینہ نے سب کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے اب وہ اس کیس میں ہے ہی نہیں یہ کوئی سیل لگی ہوئی ہے کہ 50 فیصد آف ہے ہم اس حوالے سے آرڈر پاس کریں گے۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سنادیا۔
عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کیس اور توشہ خانہ نیب کیس میں عمران خان کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں اور عمران خان کی ٹرائل روکنے کی درخواست پر سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو بھی پیر کے لیے نوٹس جاری کر دئیے اور کہا کہ پیر کو کیس دستیاب بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔