ترقی پسند تحریک کے اردو ادب پر اثرات
غزل اپنی لطافتوں کے باعث مشینی دور سے پیدا ہونے والے مسائل کا بار اٹھانے کی اہل نہیں ہو سکتی
زیبا ظفر اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ نثرکی طرح شاعری پر بھی ترقی پسند تحریک نے بہت گہرے اور دوررس اثرات مرتب کیے، غزل میں نئے اسلوب کا اضافہ کیا اور چند پرانی روایتوں کو متروک قرار دیا۔
وہ لکھتی ہیں '' غزل کا موضوع کچھ بھی ہو، تغزل اور حسن بیاں اس کی روح ہے۔ اس کا مزاج حسین تراکیب اور دلکش طرزکا متحمل ہے۔
غزل کا حسن یہی ہے کہ اس میں اظہارکی وضاحت نہیں ہوتی اور ساری بات اشاروں اور کنایوں کی صورت شعر میں سمونا پڑتی ہے۔ اس کا ہر شعر ایک مکمل پھول ہے جو رنگ و بوکی الگ دنیا رکھتا ہے۔ مختلف اشعار مل کر ایک ایسا گلدستہ بناتے ہیں جس کی ترکیب میں ذرا سی بھی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔
'' ترقی پسندی کے زیر اثر شعرا نے غزلوں کے دامن کو وسیع کرتے ہوئے حسن اور عشق کے معاملات کے علاوہ دنیاوی مسائل کو بھی غزل میں جگہ دی۔ تاہم غزل اپنی لطافتوں کے باعث مشینی دور سے پیدا ہونے والے مسائل کا بار اٹھانے کی اہل نہیں ہو سکتی۔ ہر قسم کے خیالات کے اظہار کے لیے نظم ایک بہتر ذریعہ ہے۔
فیض، مخدوم، مجاز اور دوسرے ترقی پسند شعرا نے غزل کے ساتھ نظم میں بھی اپنے تخلیقی جوہر دکھائے۔ قدیم اردو شاعری میں نظیر اکبر آبادی نے نظم کی صنف میں ایک نئی طرز کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے عوامی موضوعات پر طبع آزمائی کی۔ حالیؔ نے حقیقت نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ترقی پسند شاعروں نے شاعرکی قلبی کیفیت سے لے کر جنگ، بھوک، قحط اور عالمی امن عامہ جیسے موضوعات پر نظمیں لکھ کر نظم کے دامن کو وسعت دی۔''
زیبا ظفر لکھتی ہیں '' مجاز کی ''آوارہ'' ایک عہد ساز نظم ہے۔ جب یہ نظم لکھی گئی، عالمی کساد بازاری نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ اس عہد کے نوجوانوں، خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں میں مایوسی، بے چینی اور غم و غصہ تھا ''آوارہ'' اس دور کے نوجوانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔
شہر کی رات اور میں ناشاد و آوارہ پھروں
جگمگاتی، جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیرکی بستی ہے، کب تک در بہ در مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
فیضؔ انسانیت کے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی، اجداد پہ کیا گزری ہے
ترقی پسند شعرا اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر اس بات پر اظہار اطمینان نہیں کرتے کہ:
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
بلکہ وہ سارے عالم کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہوئے کہتے ہیں۔
کبھی بجلی گرے وہ اپنا گلشن ہو کہ غیروں کا
مجھے اپنی ہی شاخِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
ترقی پسند شعرا نے اپنی نظموں اور غزلوں میں نادر تشبیہات کا استعمال کر کے شاعری کے حسن کو نکھار بخشا ہے۔ تاج محل جو ہمیشہ سے محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے، ساحر لدھیانوی کے نزدیک پیار و محبت کی تشہیر کا ذریعہ ہے، اپنی نظم '' تاج محل'' میں وہ اپنی محبوب کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
میری محبوب پسِ پردۂ تشہیرِ وفا
تُو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوگا
بقول ساحر مطلق العنان بادشاہ نے دولت اور طاقت کے بل بوتے پر محبت کی عظیم نشانی تعمیر کروا کر غریبوں کو ان کی محرومیوں کا احساس دلایا ہے۔
ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
زیبا ظفر لکھتی ہیں '' ترقی پسندوں کے نزدیک زندگی جہد و عزم اور مقصدیت کا دوسرا نام ہے۔ انھوں نے انسانیت کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھے اور ان خوابوں کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد میں مصروف رہے۔
شاعری ان کے لیے صرف وقت گزاری کا شغل ہی نہیں بلکہ ایک مشن، ایک نصب العین بھی ہے۔ ظلم اور سامراجی قوتوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ اپنے انجام سے بے خبر نہیں۔ بہت سے ترقی پسند سجاد ظہیر، فیض، سردار جعفری قید و بند کی صعوبتیں جھیل چکے تھے۔
زیبا ظفر لکھتی ہیں '' اردو شاعری میں محبوب کا روایتی تصور ایک پیکر حسن و جمال کا ہے۔ بقول غالب:
اس نزاکت کا برا ہو، وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آئیں تو انھیں ہاتھ لگائے نہ بنے
'' اس محبوب کا کام شاعر کو اپنی زلف کا اسیر بنانا اور ناز نخرے دکھانا ہے۔ شعرا اپنے جذباتی اور شعری ذوق کی تسکین کے لیے خیالی صنم تراشتے، ان کی محبت کا دم بھرتے اور ان کی بے وفائی کا شکوہ کرتے ہیں۔ رومانوی شاعر اختر شیرانی نے بھی شاعری کے لیے فرضی محبوباؤں کا سہارا لیا، سلمیٰ اور ریحانہ۔
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں،کس سے محبت ہے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں، وہ اس دنیا کی عورت ہے