رسومات اور بھاری اخراجات
بہت ہی پرانی تہذیب ہونے کے ناطے برصغیر قدیم ترین تہذیبوں کا امین ہے
ہم جس خطے میں رہتے ہیں یہ بلا مبالغہ ہزاروں سالوں کی معاشرتی تہذیب کا وارث ہے۔یہ خطہ مسلسل آباد رہا ہے۔کبھی اس پر ایسا وقت نہیں آیا کہ اس کی آبادیاں صٖفحۂ ہستی سے مٹ گئی ہوں۔
جن خطوں کی آبادی مکمل تباہی و بربادی سے دوچار ہو جاتی ہے،وہاں پر نئے لوگ آ کر آباد ہونے اور ایک نئی تہذیب کے جنم لینے کا باعث بنتے ہیں، لیکن برصغیر اپنے کھلے زرخیز میدانوں اور وافر غذائی اجناس کی بدولت شاید کبھی ایسی مکمل تباہی سے دوچار نہیں ہوا،یوں پرانی تہذیب کا ایک دھارا ہمیشہ رواں دواں رہا ہے۔
مقامی دھارے نے کسی نئی معاشرت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا بلکہ اپنے اندر جذب کر لیا۔یہی وجہ ہے کہ سارے برصغیر میں قدیم رسم و رواج ہی مقتدر رہے۔
بہت ہی پرانی تہذیب ہونے کے ناطے برصغیر قدیم ترین تہذیبوں کا امین ہے۔ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن یہ اپنے آپ کو عرب،ایرانی، ترک یا وسط ایشیائی ثابت کرنے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لیں،اصل چھپے نہیں چھپتا۔ ہم حقیقت میں وہ لوگ ہیں جو الحمد ﷲ،اپنا قدیم مذہب تج کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
اگر کسی کو یقین نہ آئے تو ڈی این اے ٹیسٹ کرواکے دیکھ لیں'ہم سب کا جنوب ایشیائی descentملے گا۔چونکہ جنوبی ایشیاء میں تہذیبی تسلسل ہزاروں سال قدیم ہے لہٰذا یہاں کے رسم و رواج کی چھاپ بہت گہری ہے۔ جس رسم کو بھی اُٹھا کر دیکھ لیں،اس کی اصل ویدک دھارے میں ملے گی۔
ابھی تک اگر کوا غذا کی تلاش میں ہماری منڈیر پر آ کر بیٹھ جائے تو ہم اس کا وہی مطلب لیتے ہیں جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ ابھی تک اگر بلی راستہ کاٹ جائے تو بھی ہمارے ذہن کے پردے پر وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو صدیوں سے مرتب ہوتے آئے ہیں۔ہمارا گھر چاہے کتنا ہی گندہ ہو لیکن شام کے بعد ہم جھاڑو دینا بد شگونی سمجھتے ہیں۔برصغیر میں تمام مذاہب کے پیروکار ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
کسی کے ہاں اگر گھر کا کوئی فرد فوت ہو جائے تو اس کے بچھڑنے کا غم بھول کر تعزیت کے لئے آنے والوں کی تواضع کا بندوبست کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
ابھی تین دن پہلے ایک عزیز دوست جو کہ خاصے پڑھے لکھے ہیں ان کی والدہ کی وفات پر افسوس کے لئے حاضر ہوئے تو ان کے ہاں میز اس طرح سجا اور کھانوں سے بھرا ہوا تھا،گویا کہ لوگ افسوس کرنے نہیں بلکہ کسی خوشی میں شریک ہونے آ رہے ہوں۔
وفات کے موقع پر جنازے اور قبر میں اتارنے کے سوا ہم کوئی سیدھا کام نہیں کرتے۔دفن کے مرحلے پر بھی ایسا کچھ ہورہا ہوتا ہے کہ جس کی بالکل کوئی گنجائش نہیں۔تکلیف دہ رسومات کو بھی مخصوص طبقے کی تائید حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس کے حمایتی بڑے Beneficiaryہوتے ہیں۔کسی کو قریب میں رہنے والے غریب غربا یاد نہیں آتے۔
پھر سوئم' دسویں اور چالیسویں کے مواقع پر بھاری اخراجات کیے جاتے ہیں' اپنی اپنی حیثیت کے مطابق برادری اور آنے والوں کی تواضع کی جاتی ہے۔کھانے پینے کی جو اشیاء پیش کی جاتی ہیں ان سے گھر کا اسٹیٹس متعین ہوتا ہے۔ صاحبِ حیثیت ایسے مواقع کو غنیمت جان کر اپنی دولت و ثروت دکھانے کے لئے ، اسے خوب استعمال کرتے ہیں۔
ان کو تو دکھاوا کرنا ہوتا ہے لیکن قریب کے غریب رشتے داروں پر یہ بہت بار ہوتا ہے۔چاہے ان کے پاس اپنے کھانے کے لئے کچھ نہ ہو،عزیزوں،رشتے داروں ،اڑوس پڑوس کے لوگوں اور تعزیت کے لئے آئے یا بلائے گئے افراد کو کھانا دینا ان پر بہت بار بنتاہے۔
بے چارے رسم پوری کرنے اور دوسروں کی طعن و تشنیع سے بچنے کے لئے بعض اوقات ادھار لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہ سب کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے لیکن صاحبِ ارشادایسی فضول خرچی کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتے حالانکہ اسلام مسلمانوں کو سادگی کا درس دیتا ہے۔
قرآنِ کریم خالقِ کائنات کا انسانیت کے لئے آخری اور مکمل پیغام ہے۔اﷲ نے قرآنِ کریم میں حکم دیا کہ میرا رسول جو دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رُک جاؤ۔اﷲ کے رسول کی زندگی میں آپ کے خاندان میں اور صحابہ رضوان اﷲ علیہم کے ہاں کئی اموات ہوئیں۔آپ کی پہلی زوجہ محترمہ،ام المومنین سیدہ خدیجہ کی وفات ہوئی۔
آپﷺ کے تین بیٹے آپ کے سامنے فوت ہوئے۔بیٹیاں رحلت فرما گئیں۔آپ کے دوست اور بہت پیارے چچا سیدنا حمزہ ؓ شہید ہوئے۔ سیدنا جعفر طیارؓ شہید ہوئے۔ہمیں ان تمام مواقع پر ایسے بھاری اخراجات والی رسومات نظر نہیں آتی۔ کیا ہم رسول اﷲ کی سیرت پاک سے رہنمائی لے کر زندگی گزارتے ہوئے معاشرے کی تشکیل کر رہے ہیں۔
مدینہ طیبہ میں ام المومنین سیدہ ام سلمہ سلام اﷲ علیہا کے پہلے شوہر و صحابی ابو سلمہ کا انتقال ہوا۔سرکارِ دوعالمﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے۔آپ نے ان کے ہاں ایک دعا فرمائی۔ قرآنی حکم کی روشنی میں ہمیں میت والے گھر افسوس کے لئے جاکر وہی دعا کرنی چاہیے اور تکلیف دہ فرسودہ رسومات سے بچنا چاہیے۔مسلم شریف کی حدیث نمبر2130 کے مطابق آپ نے دعا فرمائی:
اے اﷲ تو ابو سلمہ کی بخشش فرما،ابو سلمہ کی مغفرت فرما دے،اس کے درجات ہدایت یافتہ لوگوں میں سے بلند فرما اور اس کے ورثا پر تو خود خلیفہ بن جا۔ مجھے اور یہاں موجود سب کی مغفرت فرما دے۔اے اﷲ اس کی قبر کو کشادہ فرما دے،اور اس کی قبر کو نور سے بھر دے،اس کی قبر کو روشن فرما دے۔
ہم میں سے ہر ایک نے ایک بہت ہی محدود مدت کے لئے یہاں رہنا ہے۔ہم پر لازم ہے کہ قرآن کی روشنی میں سیرت پاک پر عمل پیرا ہوں۔ اﷲ کے رسول کے طریقے میں ہی دین اور دنیا کی بھلائی ہے۔ہمیں تکلیف دہ فرسودہ رسومات سے جان چھڑا کر اطاعت و اتباعِ رسول کرنی ہو گی۔
قارئینِ کرام ،ہماری کرکٹ ٹیم نے تہیہ کر لیا ہے کہ پاکستانی عوام کو صدمات سے دوچار کرنا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ واپسی پر ان سے بلا واپس لے لیا جائے۔
جن خطوں کی آبادی مکمل تباہی و بربادی سے دوچار ہو جاتی ہے،وہاں پر نئے لوگ آ کر آباد ہونے اور ایک نئی تہذیب کے جنم لینے کا باعث بنتے ہیں، لیکن برصغیر اپنے کھلے زرخیز میدانوں اور وافر غذائی اجناس کی بدولت شاید کبھی ایسی مکمل تباہی سے دوچار نہیں ہوا،یوں پرانی تہذیب کا ایک دھارا ہمیشہ رواں دواں رہا ہے۔
مقامی دھارے نے کسی نئی معاشرت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا بلکہ اپنے اندر جذب کر لیا۔یہی وجہ ہے کہ سارے برصغیر میں قدیم رسم و رواج ہی مقتدر رہے۔
بہت ہی پرانی تہذیب ہونے کے ناطے برصغیر قدیم ترین تہذیبوں کا امین ہے۔ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن یہ اپنے آپ کو عرب،ایرانی، ترک یا وسط ایشیائی ثابت کرنے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لیں،اصل چھپے نہیں چھپتا۔ ہم حقیقت میں وہ لوگ ہیں جو الحمد ﷲ،اپنا قدیم مذہب تج کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
اگر کسی کو یقین نہ آئے تو ڈی این اے ٹیسٹ کرواکے دیکھ لیں'ہم سب کا جنوب ایشیائی descentملے گا۔چونکہ جنوبی ایشیاء میں تہذیبی تسلسل ہزاروں سال قدیم ہے لہٰذا یہاں کے رسم و رواج کی چھاپ بہت گہری ہے۔ جس رسم کو بھی اُٹھا کر دیکھ لیں،اس کی اصل ویدک دھارے میں ملے گی۔
ابھی تک اگر کوا غذا کی تلاش میں ہماری منڈیر پر آ کر بیٹھ جائے تو ہم اس کا وہی مطلب لیتے ہیں جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ ابھی تک اگر بلی راستہ کاٹ جائے تو بھی ہمارے ذہن کے پردے پر وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو صدیوں سے مرتب ہوتے آئے ہیں۔ہمارا گھر چاہے کتنا ہی گندہ ہو لیکن شام کے بعد ہم جھاڑو دینا بد شگونی سمجھتے ہیں۔برصغیر میں تمام مذاہب کے پیروکار ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
کسی کے ہاں اگر گھر کا کوئی فرد فوت ہو جائے تو اس کے بچھڑنے کا غم بھول کر تعزیت کے لئے آنے والوں کی تواضع کا بندوبست کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
ابھی تین دن پہلے ایک عزیز دوست جو کہ خاصے پڑھے لکھے ہیں ان کی والدہ کی وفات پر افسوس کے لئے حاضر ہوئے تو ان کے ہاں میز اس طرح سجا اور کھانوں سے بھرا ہوا تھا،گویا کہ لوگ افسوس کرنے نہیں بلکہ کسی خوشی میں شریک ہونے آ رہے ہوں۔
وفات کے موقع پر جنازے اور قبر میں اتارنے کے سوا ہم کوئی سیدھا کام نہیں کرتے۔دفن کے مرحلے پر بھی ایسا کچھ ہورہا ہوتا ہے کہ جس کی بالکل کوئی گنجائش نہیں۔تکلیف دہ رسومات کو بھی مخصوص طبقے کی تائید حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس کے حمایتی بڑے Beneficiaryہوتے ہیں۔کسی کو قریب میں رہنے والے غریب غربا یاد نہیں آتے۔
پھر سوئم' دسویں اور چالیسویں کے مواقع پر بھاری اخراجات کیے جاتے ہیں' اپنی اپنی حیثیت کے مطابق برادری اور آنے والوں کی تواضع کی جاتی ہے۔کھانے پینے کی جو اشیاء پیش کی جاتی ہیں ان سے گھر کا اسٹیٹس متعین ہوتا ہے۔ صاحبِ حیثیت ایسے مواقع کو غنیمت جان کر اپنی دولت و ثروت دکھانے کے لئے ، اسے خوب استعمال کرتے ہیں۔
ان کو تو دکھاوا کرنا ہوتا ہے لیکن قریب کے غریب رشتے داروں پر یہ بہت بار ہوتا ہے۔چاہے ان کے پاس اپنے کھانے کے لئے کچھ نہ ہو،عزیزوں،رشتے داروں ،اڑوس پڑوس کے لوگوں اور تعزیت کے لئے آئے یا بلائے گئے افراد کو کھانا دینا ان پر بہت بار بنتاہے۔
بے چارے رسم پوری کرنے اور دوسروں کی طعن و تشنیع سے بچنے کے لئے بعض اوقات ادھار لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہ سب کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے لیکن صاحبِ ارشادایسی فضول خرچی کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتے حالانکہ اسلام مسلمانوں کو سادگی کا درس دیتا ہے۔
قرآنِ کریم خالقِ کائنات کا انسانیت کے لئے آخری اور مکمل پیغام ہے۔اﷲ نے قرآنِ کریم میں حکم دیا کہ میرا رسول جو دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رُک جاؤ۔اﷲ کے رسول کی زندگی میں آپ کے خاندان میں اور صحابہ رضوان اﷲ علیہم کے ہاں کئی اموات ہوئیں۔آپ کی پہلی زوجہ محترمہ،ام المومنین سیدہ خدیجہ کی وفات ہوئی۔
آپﷺ کے تین بیٹے آپ کے سامنے فوت ہوئے۔بیٹیاں رحلت فرما گئیں۔آپ کے دوست اور بہت پیارے چچا سیدنا حمزہ ؓ شہید ہوئے۔ سیدنا جعفر طیارؓ شہید ہوئے۔ہمیں ان تمام مواقع پر ایسے بھاری اخراجات والی رسومات نظر نہیں آتی۔ کیا ہم رسول اﷲ کی سیرت پاک سے رہنمائی لے کر زندگی گزارتے ہوئے معاشرے کی تشکیل کر رہے ہیں۔
مدینہ طیبہ میں ام المومنین سیدہ ام سلمہ سلام اﷲ علیہا کے پہلے شوہر و صحابی ابو سلمہ کا انتقال ہوا۔سرکارِ دوعالمﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے۔آپ نے ان کے ہاں ایک دعا فرمائی۔ قرآنی حکم کی روشنی میں ہمیں میت والے گھر افسوس کے لئے جاکر وہی دعا کرنی چاہیے اور تکلیف دہ فرسودہ رسومات سے بچنا چاہیے۔مسلم شریف کی حدیث نمبر2130 کے مطابق آپ نے دعا فرمائی:
اے اﷲ تو ابو سلمہ کی بخشش فرما،ابو سلمہ کی مغفرت فرما دے،اس کے درجات ہدایت یافتہ لوگوں میں سے بلند فرما اور اس کے ورثا پر تو خود خلیفہ بن جا۔ مجھے اور یہاں موجود سب کی مغفرت فرما دے۔اے اﷲ اس کی قبر کو کشادہ فرما دے،اور اس کی قبر کو نور سے بھر دے،اس کی قبر کو روشن فرما دے۔
ہم میں سے ہر ایک نے ایک بہت ہی محدود مدت کے لئے یہاں رہنا ہے۔ہم پر لازم ہے کہ قرآن کی روشنی میں سیرت پاک پر عمل پیرا ہوں۔ اﷲ کے رسول کے طریقے میں ہی دین اور دنیا کی بھلائی ہے۔ہمیں تکلیف دہ فرسودہ رسومات سے جان چھڑا کر اطاعت و اتباعِ رسول کرنی ہو گی۔
قارئینِ کرام ،ہماری کرکٹ ٹیم نے تہیہ کر لیا ہے کہ پاکستانی عوام کو صدمات سے دوچار کرنا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ واپسی پر ان سے بلا واپس لے لیا جائے۔