کیا حوثیوں کا غزہ کی جنگ رکوانا دہشت گردی ہے
بائیڈن پہلے ہی یوکرین کی بے ہنگم جنگ میں امریکا کو پھنسا کر بہت نقصان کرا چکے ہیں
امریکی صدر جوبائیڈن نے یمنی حوثیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے مگر اصل دہشت گرد نیتن یاہو اور اس کے ٹولے کی ہمت افزائی کرنے میں مصروف ہیں جنھیں پوری دنیا دہشت گرد اور سفاک قاتل قرار دے رہی ہے۔
حوثیوں کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ نیتن یاہو کے غزہ کے مظلوم بے سہارا فلسطینیوں پر خونی فضائی حملوں کو روکنے اور جنگ بند کرنے کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے جب ان کی بات نہ مانی اور فلسطینیوں پر مسلسل جارحانہ حملے جاری رکھے تو انھوں نے اس ظلم کو روکنے کے لیے مجبوراً بحر احمر سے گزرنے والے اسرائیلی اور اس سے تعلقات رکھنے والے مال بردار جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، یہ عمل ایک احتجاج کے سوا کچھ نہیں ہے۔
نیتن یاہو کے فلسطینیوں کے خلاف حملے بند ہوتے ہی وہ اپنی کارروائی بند کرسکتے ہیں۔ یہ حملے 17 اکتوبر سے آج تک جاری ہیں۔ اب انھیں تین مہینے سے بھی اوپر ہو چکے ہیں مگر نیتن یاہو اب بھی بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ یہ لامحدود وقت تک جاری رہیں گے۔
اس وقت پوری دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ امریکی اور برطانوی عوام کے علاوہ خود اسرائیلی عوام نیتن یاہو کی اس جارحیت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں مگر نیتن یاہو فلسطینیوں کے قتل عام میں مسلسل مصروف ہے۔
نیتن یاہو دراصل اس جارحیت کے ذریعے اپنی ناکامی اور غفلت کو چھپانا چاہتا ہے جو اس سے اسرائیل کو حماس کے میزائل حملوں سے بچانے میں سرزد ہوئی تھی۔ تاہم اب اس کے فلسطینیوں پر حملے اور جنگ بند نہ کرنے پر اصرار سے عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دینے اور خود اس کے ملک میں اس کے سیاسی کیریئرکے خاتمے کی دلیل بن گئے ہیں۔
اسرائیل کو اس کی بربریت کا مزہ چکھانے کے لیے ایران ہی کافی ہے مگر وہ بھی تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے اس کے باوجود بھی بائیڈن ان پر حوثیوں کی مدد کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ایران اگر چاہے تو اس کے ایک اشارے پر حزب اللہ اسرائیل کو اس کی بربریت کا مزہ چکھا سکتی ہے۔
اب مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکا فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرانے کے بجائے حوثیوں کو ڈرانے کے لیے برطانیہ اور کینیڈا اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر یمن پر حملہ آور ہو گیا ہے۔ اب تک یمن پر کئی حملے ہو چکے ہیں مگر حوثیوں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے مزید بڑھے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری یمن پر کتنے ہی حملے کریں وہ اپنے مشن سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا پہلے بھی یمن پر حملے کر چکاہے مگر اسے کچھ حاصل نہ ہو سکا اور اب تو حوثی ایک نیک مقصد کے لیے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں چنانچہ ان کا اپنے مشن سے دست بردار ہونا مشکل ہے۔ وہ امریکا سے اپنے لیے تو کچھ نہیں مانگ رہے ہیں وہ تو غزہ میں جنگ بند کرانے کے لیے ناچار جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔
امریکا اور اس کے حواری اگر ابھی نیتن یاہو کو جنگ بند کرنے کا حکم صادر کریں تو ابھی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے اور حوثی بھی اپنی کارروائیوں کو روک سکتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جب حوثی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر میزائل حملے کر رہے تھے اس وقت ان دونوں ممالک کی درخواست پر بھی امریکا نے حوثیوں کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی تھی مگر اسرائیل کے تحفظ کے لیے اب نہ صرف حوثیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے بلکہ ان پر شدید فضائی حملے شروع کر دیے گئے ہیں۔
جوبائیڈن اسرائیل کی حمایت میں دیگر امریکی صدور سے آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی اس کے پڑوسیوں سے دشمنی بڑھا کر اس کے لیے مشکلات ہی پیدا کر رہے ہیں۔
اس طرح دیکھا جائے تو بائیڈن کی حکمت عملی سابق امریکی صدر ٹرمپ سے اسرائیل کے فائدے کے بجائے اس کے لیے گڑھا کھودنے کے مترادف ہے جب کہ ٹرمپ نے نہایت پیار محبت سے عرب ممالک کو اسرائیل کا دوست بنانے کی کوشش کی تھی۔ اب امریکا میں عام انتخابات کا وقت آگیا ہے خدشہ ہے غزہ کی جنگ میں نیتن یاہو کی ہمت افزائی کہیں انھیں لے نہ ڈوبے اس بات کا بعض امریکی تجزیہ کار اظہار بھی کر رہے ہیں۔
امریکا اور اس کے حواری ممالک کے یمن پر حملے سے بحر احمر میں جہازوں کی آمد و رفت میں سنگین خلل پڑا ہے۔ اب اس کے بعد حوثیوں کے بحر احمر سے گزرنے والے جہازوں پر حملوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ غزہ کی جنگ بند ہونے تک اپنی کارروائیوں کو جاری رکھیں گے اور اس سے خواہ ان کا کتنا بھی نقصان ہو۔
ایک طرف بائیڈن مشرق وسطیٰ میں جنگ کے دائرے کو بڑھنے سے روکنے کی باتیں کر رہے ہیں مگر اب وہ خود ہی جنگ کے دائرے کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اس لیے کہ حوثیوں پر حملے سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی جس کا وہ الزام ایران پر لگائیں گے مگر ایران پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔
حوثی جو بھی کر رہے ہیں اپنی سوچ کے مطابق کر رہے ہیں۔ بائیڈن کی دوغلی باتیں اور متضاد پالیسی سے پریشان امریکی دانشور انھیں امریکا کو ایک نئی جنگ میں جھونکنے سے احتراز کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں بائیڈن پہلے ہی یوکرین کی بے ہنگم جنگ میں امریکا کو پھنسا کر بہت نقصان کرا چکے ہیں۔
ان کے مطابق سخت جان حوثی امریکا اور اس کے حواریوں کی بمباری سے ڈرنے والے نہیں ہیں وہ امریکا کو ایک طویل عرصے تک یہاں پھنسا سکتے ہیں بہتر راستہ یہی ہے کہ وہ نیتن یاہو کو اب حکم دیں کہ غزہ کی جنگ بند کرے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے۔
حوثیوں کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ نیتن یاہو کے غزہ کے مظلوم بے سہارا فلسطینیوں پر خونی فضائی حملوں کو روکنے اور جنگ بند کرنے کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے جب ان کی بات نہ مانی اور فلسطینیوں پر مسلسل جارحانہ حملے جاری رکھے تو انھوں نے اس ظلم کو روکنے کے لیے مجبوراً بحر احمر سے گزرنے والے اسرائیلی اور اس سے تعلقات رکھنے والے مال بردار جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، یہ عمل ایک احتجاج کے سوا کچھ نہیں ہے۔
نیتن یاہو کے فلسطینیوں کے خلاف حملے بند ہوتے ہی وہ اپنی کارروائی بند کرسکتے ہیں۔ یہ حملے 17 اکتوبر سے آج تک جاری ہیں۔ اب انھیں تین مہینے سے بھی اوپر ہو چکے ہیں مگر نیتن یاہو اب بھی بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہا ہے کہ یہ لامحدود وقت تک جاری رہیں گے۔
اس وقت پوری دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ امریکی اور برطانوی عوام کے علاوہ خود اسرائیلی عوام نیتن یاہو کی اس جارحیت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں مگر نیتن یاہو فلسطینیوں کے قتل عام میں مسلسل مصروف ہے۔
نیتن یاہو دراصل اس جارحیت کے ذریعے اپنی ناکامی اور غفلت کو چھپانا چاہتا ہے جو اس سے اسرائیل کو حماس کے میزائل حملوں سے بچانے میں سرزد ہوئی تھی۔ تاہم اب اس کے فلسطینیوں پر حملے اور جنگ بند نہ کرنے پر اصرار سے عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دینے اور خود اس کے ملک میں اس کے سیاسی کیریئرکے خاتمے کی دلیل بن گئے ہیں۔
اسرائیل کو اس کی بربریت کا مزہ چکھانے کے لیے ایران ہی کافی ہے مگر وہ بھی تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے اس کے باوجود بھی بائیڈن ان پر حوثیوں کی مدد کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ایران اگر چاہے تو اس کے ایک اشارے پر حزب اللہ اسرائیل کو اس کی بربریت کا مزہ چکھا سکتی ہے۔
اب مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکا فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرانے کے بجائے حوثیوں کو ڈرانے کے لیے برطانیہ اور کینیڈا اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر یمن پر حملہ آور ہو گیا ہے۔ اب تک یمن پر کئی حملے ہو چکے ہیں مگر حوثیوں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے مزید بڑھے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری یمن پر کتنے ہی حملے کریں وہ اپنے مشن سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا پہلے بھی یمن پر حملے کر چکاہے مگر اسے کچھ حاصل نہ ہو سکا اور اب تو حوثی ایک نیک مقصد کے لیے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں چنانچہ ان کا اپنے مشن سے دست بردار ہونا مشکل ہے۔ وہ امریکا سے اپنے لیے تو کچھ نہیں مانگ رہے ہیں وہ تو غزہ میں جنگ بند کرانے کے لیے ناچار جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔
امریکا اور اس کے حواری اگر ابھی نیتن یاہو کو جنگ بند کرنے کا حکم صادر کریں تو ابھی مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے اور حوثی بھی اپنی کارروائیوں کو روک سکتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جب حوثی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر میزائل حملے کر رہے تھے اس وقت ان دونوں ممالک کی درخواست پر بھی امریکا نے حوثیوں کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی تھی مگر اسرائیل کے تحفظ کے لیے اب نہ صرف حوثیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے بلکہ ان پر شدید فضائی حملے شروع کر دیے گئے ہیں۔
جوبائیڈن اسرائیل کی حمایت میں دیگر امریکی صدور سے آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی اس کے پڑوسیوں سے دشمنی بڑھا کر اس کے لیے مشکلات ہی پیدا کر رہے ہیں۔
اس طرح دیکھا جائے تو بائیڈن کی حکمت عملی سابق امریکی صدر ٹرمپ سے اسرائیل کے فائدے کے بجائے اس کے لیے گڑھا کھودنے کے مترادف ہے جب کہ ٹرمپ نے نہایت پیار محبت سے عرب ممالک کو اسرائیل کا دوست بنانے کی کوشش کی تھی۔ اب امریکا میں عام انتخابات کا وقت آگیا ہے خدشہ ہے غزہ کی جنگ میں نیتن یاہو کی ہمت افزائی کہیں انھیں لے نہ ڈوبے اس بات کا بعض امریکی تجزیہ کار اظہار بھی کر رہے ہیں۔
امریکا اور اس کے حواری ممالک کے یمن پر حملے سے بحر احمر میں جہازوں کی آمد و رفت میں سنگین خلل پڑا ہے۔ اب اس کے بعد حوثیوں کے بحر احمر سے گزرنے والے جہازوں پر حملوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ غزہ کی جنگ بند ہونے تک اپنی کارروائیوں کو جاری رکھیں گے اور اس سے خواہ ان کا کتنا بھی نقصان ہو۔
ایک طرف بائیڈن مشرق وسطیٰ میں جنگ کے دائرے کو بڑھنے سے روکنے کی باتیں کر رہے ہیں مگر اب وہ خود ہی جنگ کے دائرے کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اس لیے کہ حوثیوں پر حملے سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی جس کا وہ الزام ایران پر لگائیں گے مگر ایران پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔
حوثی جو بھی کر رہے ہیں اپنی سوچ کے مطابق کر رہے ہیں۔ بائیڈن کی دوغلی باتیں اور متضاد پالیسی سے پریشان امریکی دانشور انھیں امریکا کو ایک نئی جنگ میں جھونکنے سے احتراز کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں بائیڈن پہلے ہی یوکرین کی بے ہنگم جنگ میں امریکا کو پھنسا کر بہت نقصان کرا چکے ہیں۔
ان کے مطابق سخت جان حوثی امریکا اور اس کے حواریوں کی بمباری سے ڈرنے والے نہیں ہیں وہ امریکا کو ایک طویل عرصے تک یہاں پھنسا سکتے ہیں بہتر راستہ یہی ہے کہ وہ نیتن یاہو کو اب حکم دیں کہ غزہ کی جنگ بند کرے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے۔