انٹر سال اول کے متنازعہ نتائج فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دیدی گئی

کمیٹی میں کراچی کے کسی پرنسپل یا اچھی شہرت کے حامل سینیئر پروفیسرز کو شامل نہیں کیا گیا

فوٹو: فائل

محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ نے کراچی بورڈ کے تحت انٹر سال اول کے نتائج میں طلباء و طالبات کی اکثریت کے فیل ہوجائے کے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے دی، تاہم اس کمیٹی میں کراچی کے کسی پرنسپل یا اچھی شہرت کے حامل سینیئر پروفیسرز کو شامل نہیں کیا گیا۔

جن افراد کو کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے ان کا امتحانات اور اسسمنٹ سے متعلق کوئی بڑا تجربہ نہیں ہے جس کے سبب کسی خاص نتیجے کی توقع نہیں کی جارہی، حال ہی میں ریجنل ڈائریکٹر کالجز کا عہدہ سنبھالنے والے پروفیسر مصطفی کمال کو کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر اراکین میں ایڈیشنل سیکریٹری کالجز (ایچ آر) ، ڈائریکٹر مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن اعجاز علی سیتھو ، ایسوسی ایٹ جاوید چنا اور ایسوسی ایٹ ادریس احمد کو شامل کیا گیا ہے۔

سیکریٹری کالجز ایجوکیشن صدف شیخ کے دستخط سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق کمیٹی مزید اراکین کو اپنا حصہ بنا سکتی ہے، کمیٹی 7 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

واضح رہے کہ یہ کمیٹی نتائج کے اجرا کے تقریباً 10 روز بعد قائم کی گئی ہے اور انٹر سال اول پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ سمیت دیگر فیکلٹیز میں فیل ہونے والے طلبا اپنے نتائج کے معاملے پر سراپا احتجاج ہیں۔

انٹر بورڈ کراچی نے اس معاملے پر تاحال کوئی کمیٹی تشکیل نہیں دی ہے جو معاملے پر تحقیقات کا آغاز کرکے اس کی وجوہات جان سکے جس سے طلبا میں مسلسل مایوسی پھیل رہی ہے۔


جمعرات کو بھی طلبا کی مخصوص تعداد نے انٹر بورڈ کے اندر احتجاج کیا ، ادھر انٹر بورڈ کی انتظامیہ کی جانب سے کمشنر کراچی کی ہدایت پر طلبا کو صرف طفل تسلیاں دی جارہی ہیں۔

طلبا کو آسرا دیا جارہا ہے کہ اسکروٹنی کی درخواست دیں پھر دیکھیں گے، تاہم واضح رہے کہ بورڈ کے قانون کے تحت اسکروٹنی میں اتنی گنجائش ہی موجود نہیں کہ طلبا کی قانونی اور جائز شکایات پر کارروائی کرسکیں کیونکہ اسکروٹنی میں صرف re totalling اور اسسمنٹ سے رہ جانے والے سوال و جواب کو شامل کیا جاتا ہے، تاہم اساتذہ کے اسسمنٹ کےطریقہ کار کا جائزہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا critical analysis ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ بورڈ کی صورتحال اس وقت دگرگوں ہے، کمشنر کراچی کے پاس چیئرمین بورڈ کا چارج ہے جو کمشنر ہائوس کراچی سے بیٹھ کر بورڈ چلاتے ہیں، فون پر احکامات جاری کرتے ہیں بورڈ کا رخ ہی نہیں کرتے۔

ناظم امتحانات اور سیکریٹری کو کمشنر ہائوس بلاکر گھنٹوں انتظار کے بعد انھیں بلاتے ہیں معاملے سنتے اور اس پر تبصرہ کرتے ہیں جس کے بعد افسران واپس چلے جاتے ہیں۔ افسران سے کہا جاتا ہے کہ اب جاکر ضلع ڈپٹی کمشنر سے مل لیں اور انھیں مسئلہ بیان کریں۔

اس طرح لاکھوں طلبا کے امتحان اور نتائج کا ذمہ دار انٹر بورڈ کراچی اس وقت کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے رحم و کرم پر ہے جو بورڈ کو وقت دینے اور طلبا کے مستقبل کے حساس معاملے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
Load Next Story