پہلی ششماہی پاکستان کو 8 ارب 10 کروڑ ڈالر کے بیرونی قرض وصول
پاکستان کی قرض ریٹنگ خراب ،اسی لیے عالمی مارکیٹ میں مشکلات کا سامنا، ڈاکٹر شمشاد
پاکستان کو گزشتہ 6ماہ کے دوران 8 ارب 10 کروڑ ڈالر کے بیرونی قرض وصول ہوئے ہیں۔
نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے جمعرات کے روز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو گزشتہ 6ماہ کے دوران 8 ارب 10 کروڑ ڈالر سے زائد رقم قرضہ جات کی صورت میں وصول ہوئے ہیں اور یہ تمام قرضہ جات عالمی مالیاتی فنڈ کی منظوری سے مختلف اداروں نے دیے اور آئی ایم ایف کے ساتھ جلد ہی مذاکرات کا نیا دور شروع کررہے ہیں تاکہ بیرونی قرضوں کی وصولی میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرض فراہم کرنے والا کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ آئی ایم ایف پروگرام کے پاکستان کے لیے پروگرام کے بغیر قرض دینے پر رضامند نہیں ہوتا اور چونکہ اس وقت پاکستان کی قرضوں سے متعلق ریٹنگ بہت خراب ہے تو عالمی مالیاتی مارکیٹ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آمدنی اور اخراجات کا فرق کم کرنے کیلیے مالیاتی نظام میں جامع تبدیلی ضروری ہے، نگراں وزیر خزانہ
انہوں نے کہا کہ جلد ہی آئی ایم ایف سے قرض کی تیسری قسط کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز ہورہا ہے تاہم بات چیت کی حتمی تاریخ اکتوبر تا دسمبر کی رپورٹ جو کہ اس ماہ کے آخر تک مرتب ہوگی، اس کے بعد ہی ہی طے ہوگی تاہم اس دوران ہم رسمی طور پر بات چیت شروع کرسکتے ہیں۔
ایکسپریس نے گزشتہ روز خبر دی تھی کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ وہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر قرض کی آخری قسط کے لیے وفد کو پاکستان بھیجے تاکہ معاملات کو حتمی شکل دی جاسکے۔
معاشی امور ڈویڑن اور مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو رواں مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 8 ارب 10 کروڑ ڈالر کے بیرونی قرضہ جات وصول ہوئے ہیں جو کہ بجٹ کی سالانہ ضروریات کے ایک تہائی کے مساوی ہیں اس کے علاوہ پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی 5 ارب ڈالر کا قرض لے رکھا ہے اور اس طرح مجموعی قرضوں کا حجم رواں مالی سال کے دوران اب تک 13 ارب 10 کروڑ ہوچکا ہے جو سالانہ بجٹ کی ضروریات کا 52 فیصد پوری کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 12 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کم ہوگئے
ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ مشورہ دے رہیں کہ عالمی مارکیٹ سے قرض لے لیا جائے تاہم یہ بہت مہنگے قرضے ہیں اسی لیے اس کی طرف نہیں جارہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے قرضہ جات گزشتہ دس برسوں کے دوران بہت زیادہ بڑھے ہیں جو کہ آئین میں دی گئی قرض کی حدود و ضوابط کی بھی خلاف ورزی ہے اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم کے باعث عالمی اداروں سے مزید قرض کا حصول میں مشکلات اور پیچیدگیاں ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے مختلف اقدام کی بدولت ملک میں معاشی استحکام لوٹ رہا ہے اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو 2 اعشاریہ 13 فیصد رہی ہے جو کہ اس سے گزشتہ دو سہہ ماہی کے مقابلے میں حوصلہ افزا ہے۔
مزید پڑھیں: دسمبر میں کرنٹ اکاؤنٹ 397 ملین ڈالر کیساتھ سرپلس رہا
عالمی بینک کے مطابق ملک میں غربت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور 2023 تک 9 کروڑ 50 لاکھ افراد یا خاندان غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارہے ہیں تاہم خدشہ ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر رضا باقر نے غیر ملکی نیوز ایجنسی سے بات چیت میں کہا کہ اس وقت آئی ایم ایف کو بھی مشکل کا سامنا ہے کہ وہ 8 فروری کے الیکشن کے بعد ملک کی قرضوں کی صورت حال کا کس طرح تخمینہ لگائے اور ادارے کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ قرض سے انکار کردے یا پروگرام کو جاری رکھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے قرضہ جات کو مستحکم قرار تو دیا ہے تاہم دوسری جانب اس کے حجم کو بہت نمایاں اور ایک خطرہ بھی قرار دیا ہے۔
نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے جمعرات کے روز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو گزشتہ 6ماہ کے دوران 8 ارب 10 کروڑ ڈالر سے زائد رقم قرضہ جات کی صورت میں وصول ہوئے ہیں اور یہ تمام قرضہ جات عالمی مالیاتی فنڈ کی منظوری سے مختلف اداروں نے دیے اور آئی ایم ایف کے ساتھ جلد ہی مذاکرات کا نیا دور شروع کررہے ہیں تاکہ بیرونی قرضوں کی وصولی میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرض فراہم کرنے والا کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ آئی ایم ایف پروگرام کے پاکستان کے لیے پروگرام کے بغیر قرض دینے پر رضامند نہیں ہوتا اور چونکہ اس وقت پاکستان کی قرضوں سے متعلق ریٹنگ بہت خراب ہے تو عالمی مالیاتی مارکیٹ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آمدنی اور اخراجات کا فرق کم کرنے کیلیے مالیاتی نظام میں جامع تبدیلی ضروری ہے، نگراں وزیر خزانہ
انہوں نے کہا کہ جلد ہی آئی ایم ایف سے قرض کی تیسری قسط کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز ہورہا ہے تاہم بات چیت کی حتمی تاریخ اکتوبر تا دسمبر کی رپورٹ جو کہ اس ماہ کے آخر تک مرتب ہوگی، اس کے بعد ہی ہی طے ہوگی تاہم اس دوران ہم رسمی طور پر بات چیت شروع کرسکتے ہیں۔
ایکسپریس نے گزشتہ روز خبر دی تھی کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ وہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر قرض کی آخری قسط کے لیے وفد کو پاکستان بھیجے تاکہ معاملات کو حتمی شکل دی جاسکے۔
معاشی امور ڈویڑن اور مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو رواں مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 8 ارب 10 کروڑ ڈالر کے بیرونی قرضہ جات وصول ہوئے ہیں جو کہ بجٹ کی سالانہ ضروریات کے ایک تہائی کے مساوی ہیں اس کے علاوہ پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی 5 ارب ڈالر کا قرض لے رکھا ہے اور اس طرح مجموعی قرضوں کا حجم رواں مالی سال کے دوران اب تک 13 ارب 10 کروڑ ہوچکا ہے جو سالانہ بجٹ کی ضروریات کا 52 فیصد پوری کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 12 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کم ہوگئے
ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ مشورہ دے رہیں کہ عالمی مارکیٹ سے قرض لے لیا جائے تاہم یہ بہت مہنگے قرضے ہیں اسی لیے اس کی طرف نہیں جارہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے قرضہ جات گزشتہ دس برسوں کے دوران بہت زیادہ بڑھے ہیں جو کہ آئین میں دی گئی قرض کی حدود و ضوابط کی بھی خلاف ورزی ہے اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم کے باعث عالمی اداروں سے مزید قرض کا حصول میں مشکلات اور پیچیدگیاں ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے مختلف اقدام کی بدولت ملک میں معاشی استحکام لوٹ رہا ہے اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو 2 اعشاریہ 13 فیصد رہی ہے جو کہ اس سے گزشتہ دو سہہ ماہی کے مقابلے میں حوصلہ افزا ہے۔
مزید پڑھیں: دسمبر میں کرنٹ اکاؤنٹ 397 ملین ڈالر کیساتھ سرپلس رہا
عالمی بینک کے مطابق ملک میں غربت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور 2023 تک 9 کروڑ 50 لاکھ افراد یا خاندان غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارہے ہیں تاہم خدشہ ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر رضا باقر نے غیر ملکی نیوز ایجنسی سے بات چیت میں کہا کہ اس وقت آئی ایم ایف کو بھی مشکل کا سامنا ہے کہ وہ 8 فروری کے الیکشن کے بعد ملک کی قرضوں کی صورت حال کا کس طرح تخمینہ لگائے اور ادارے کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ قرض سے انکار کردے یا پروگرام کو جاری رکھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے قرضہ جات کو مستحکم قرار تو دیا ہے تاہم دوسری جانب اس کے حجم کو بہت نمایاں اور ایک خطرہ بھی قرار دیا ہے۔