20 سال گزرنے پر بھی ہاکی ورلڈکپ 1994 کی فاتح ٹیم انعامات سے محروم

شہباز سینئر کی قیادت میں ٹیم سڈنی ورلڈ کپ جیت کر آئی تو شاندار استقبال ہوا


ہاکی ورلڈ کپ 1994 کے فاتح کپتان شہباز احمد سینئر ٹرافی پکڑے بیٹھے ہیں۔ فوٹو: فائل

حکومت ہاکی ورلڈ کپ1994ء کی فاتح ٹیم کے ساتھ کیا گیا وعدہ وفا نہ کر سکی،20 سال گزر جانے کے باوجود کھلاڑیوں کوانعامات سے نوازا نہ جا سکا، چیمپئن پلیئرز میں پائی جانے والی بے چینی کی فضا کے منفی اثرات مختلف اوقات میں قومی ٹیموں کا حصہ بننے والے کھلاڑیوں پر بھی پڑتے رہے اور2 دہائیاں گزر جانے کے باوجود گرین شرٹس کا ہاکی کے افق پر دوبارہ حکمرانی کرنے کاخواب پورا نہ ہوسکا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان ہاکی ٹیم کو اب تک 4بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ شہباز احمد سنیئر کی قیادت میں گرین شرٹس نے12سال کے طویل عرصہ کے بعد بعد نومبر، دسمبر میں شیڈول سڈنی ورلڈ کپ1994ء کا ٹائٹل اپنے نام کیا تو ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ میگا ایونٹ میں فاتح سکواڈ کی قیادت شہباز احمد سینیئر کے ہاتھوں میں تھی، دوسرے پلیئرز میں منصور احمد، نوید عالم، طاہر زمان، رانا مجاہد علی، وسیم فیروز، ندیم احمد، خواجہ محمد جنید، رحیم خان، محمد شفقت، احمد عالم، دانش کلیم، محمد عثمان، عرفان محمود، محمد آصف باجوہ، کامران اشرف، محمد شہباز جبکہ آفیشلز میں عبدالرشید منیجر اور سعیدخان کوچ شامل تھے۔

وطن واپسی پر جہاں شائقین نے قومی ٹیم کا تاریخی استقبال کیا وہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی کھلاڑیوں کو پرکشش انعامات دینے کا اعلان کیا گیا۔ 1995ء کے اوائل میں اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب میاں منظور احمد وٹو نے قومی ہاکی ٹیم کو وزیر اعلی ہائوس مدعو کیا اور کھلاڑیوں کے اعزاز میں رکھی گئی پروقار تقریب میں ان کے لئے موہلنوال اسکیم ملتان روڈ لاہور میں ایک، ایک کنال پلاٹ دینے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں پلیئرز کو پروانشنل الاٹمنٹ لیٹر بھی دے دیئے گئے جس کے کاغذات اب بھی کھلاڑیوں کے پاس موجود ہیں لیکن سر توڑکوششوں کے باوجود پلیئرز ان پلاٹوں کے مالک نہ بن سکے۔

''ایکسپریس'' سے بات چیت میںکھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ ہاکی پاکستان کا وہ واحد کھیل ہے جس نے سب سے زیادہ میڈلز پاکستان کی جھولی میں ڈالے ہیں لیکن اس کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہوتا رہا ہے، حکومت جب اپنے وعدے ہی پوری نہیں کرتی تو ہمیں سنہری خواب کیوں دکھائے جاتے ہیں' متعدد ایسے کھلاڑی ہیں جو موجودہ قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے کے باوجود پکی سرکاری نوکریوں سے محروم ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ ہاکی کھلاڑیوں کو پرکشش انعامات سے نوازنے کا وعدہ کر کے مکر جانا ہماری حکومتوں کی روایت رہی ہے۔ 1974ء میں جب پاکستانی ٹیم نے تہران میں شیڈول ایشئین گیمز میں فتح پائی تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ٹیم کو پرائم منسٹر ہائوس میں عشائیہ دیا،1971ء کے مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد بین الاقوامی مقابلوں میں یہ پاکستانی ٹیم کی بھارت کیخلاف پہلی کامیابی تھی۔ وزیر اعظم ٹیم کی کارکردگی پر اس قدر خوش ہوئے کہ انھوں نے وزیر تعلیم عبدالحفیظ پیرزادہ اور گورنر پنجاب نواب صادق حسین قریشی کی موجودگی میں ٹیم کے ارکین کو پلاٹ دینے کا وعدہ کیا جو کبھی وفا نہ ہو سکا۔

جنرل(ر) ضیاالحق نے چار بار کھلاڑیوں کو انعام دینے کا اعلان کیا لیکن 1986ء تک اس پر عمل درآمد نہ کیا جا سکا، چند کھلاڑیوں کی قسمت نے ساتھ دیا اور باقی اس سے محروم رہے۔ حکومتی وعدوں کی تکمیل میں ناکامی پر حسن سردار، رشید الحسن، ایاز محمود، قاسم ضیاء، معین الدین، سلیم شیروانی، نعیم اختر، ناصر علی، اشتیاق احمد اور شاہد علی خان نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں پلیئرز نے حکومت کو آئندہ عالمی ایونٹس میں قومی ٹیم کی نمائندگی نہ کرنے کی دھمکی بھی دی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے