کچھ سال پہلے کی بات ہے 5 ہزار میں گھر کا ماہانہ راشن آجاتا تھا۔ اور آج اس 5 ہزار میں چند چیزیں آتی ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے؟ وجہ ہماری معیشت کی تباہ حالی ہے۔
کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ایسے حالات نہیں ہوتے جیسے یہاں ہیں۔ امیر اس قدر امیر ہے کہ جیسے وہ کسی ریاست کے گدی نشین ہوں اور غریب اس قدر غریب ہیں کہ جیسے وہ لاوارث ہوں۔ جو درمیان کا طبقہ ہے جسے ہم مڈل کلاس کہتے ہیں وہ تو ختم ہی ہوگئے ہیں یا ایسا کہہ سکتے ہیں کہ مڈل کلاس اب لوئر مڈل کلاس میں بدل چکی ہے کہ ان کو ضروریات زندگی کےلیے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ روز بروز بڑھتی مہنگائی سے ہار جاتا ہے۔
ہمارا ملک اس وقت معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کو ہے، اور ہم ابھی تک ملکی معیشت پر سیاست کر رہے ہیں۔ حکومت کو دیکھیں تو وہ بھی ملکی معیشت پر سنجیدہ نہیں لگ رہی۔ جس میں پٹرول کی قیمتوں کو ایک مہینے میں متعدد بار بڑھانا معاشی طور پرایک غیر سنجیدہ عمل تھا کیونکہ ہمارے ملک میں معیشت اور سیاست کو ساتھ ساتھ چلایا جاتا ہے جس کا نقصان ہمارے ملک اور عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکومت بس معیشت پر سیاست کرتی ہے، حالانکہ معیشت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ معیشت کو سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں حکومتیں معیشت کو سنجیدگی سے لے کر چلنے پر تیار نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلا جاتا ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ قرضے لیتی ہے اور ملک کو چلاتی ہے، جیسے ہم بھکاری ہوں۔ اور اس سے یہی لگتا ہے جیسے اقتدار میں تو آتے ہیں، پر ان کے پاس ملک کو چلانے کے لیے نہ تو کوئی پلان ہے نہ ہی روڑ میپ۔
جو بھی پارٹی کا لیڈر ہوتا ہے وہ ملک کی وزارت خزانہ کو اپنی کنیز سمجھتا ہے اور اپنی مرضی کا بندہ اس اہم پوسٹ پر لگا دیتا ہے۔ جتنے بھی اس ملک میں وزیر خزانہ آئے ہیں، سب کے سب کسی نہ کسی مقصد کے تحت لگائے جاتے ہیں۔ کوئی آئی ایم ایف کا نمائندہ بن کر اس ملک کا وزیرخزانہ لگتا ہے یا کوئی کسی کا منظور نظر بن کر اس ملک کا وزیرخزانہ لگتا ہے۔
حکومت میں کئی وزیر خزانہ آئے اور چلے گئے، لیکن ملک کا خزانہ ہمیشہ قرضوں کی زد میں رہا اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک بدترین حالات میں دھنستا چلا گیا۔ ڈالر بڑھتا چلا گیا، چینی کی قیمت، پھر گندم، ہر چیز مہنگی ہوتی چلی گئی اور سب بس خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر ملک میں ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی، پٹرول کی قیمتیں بڑھیں، بجلی کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے اور ساتھ میں روزمرہ کی ہر چیز مہنگی ہوتی رہی۔ دیکھا جائے تو گزشتہ دورِ حکومت میں بھی مہنگائی رہی تھی لیکن ساتھ میں معیشت بہتری کی طرف بھی چل پڑی تھی۔ اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دی اور حکومت سے آزاد کیا، ملک میں ریکارڈ ریمی ٹینس آئے، یعنی بیرون پاکستان لوگوں نے ملک میں بہت پیسہ بھیجا، کورونا کی وبا کے باجود پوری دنیا نے اقتصادی سروے کے مطابق مہنگائی کا 8 فیصد ہدف پورا نہ ہوا۔ مہنگائی بڑھنے کی شرح 13 فیصد سے زیادہ رہی۔
اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ حکومت میں زراعت، انڈسٹری اور سروسز سیکٹر کے اہداف حاصل ہوئے، زراعت میں شرح نمو 4.4 فیصد رہی، صنعت میں شرح نمو 7.2 فیصد رہی اور خدمات کے شعبے میں شرح نمو 6.2 فیصد رہی، بڑی صنعتوں میں شرح نمو 10.5 فیصد رہی۔ اقتصادی سروے کے مطابق بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی شرح نمو 7. فیصد رہی جبکہ مواصلات اور ٹرانسپورٹ میں ترقی کی شرح 5.4 فیصد رہی اور ساتھ میں اقتصادی سروے کے مطابق فی کس آمدن 2 لاکھ 46 ہزار 414 روپے رہی اور گیارہ ماہ میں ملکی برآمدات ریکارڈ 29 ارب ڈالر رہیں جبکہ تعلیمی شعبے میں شرح نمو 8.7 فیصد رہی۔
میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ یہ سب اگر ہوا ہے تو کہاں ہے؟ ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا؟ پھر ہر انسان پریشان کیوں ہے؟ مہنگائی کا جو جن پی ٹی آئی حکومت میں بے قابو ہوا تھا وہ ابھی تک قید نہیں ہوسکا۔ نہ تو اسے شہباز شریف قید کرسکے، نہ ہی نگران حکومت، تو آخر اس کا حل کیا ہے؟
غریب کی آواز سننے والا کون ہے یہاں؟ کبھی خیال آئے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک سروے کرنے کا موقع ملا، اس دوران ایک ماں جی سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بیوہ خاتون ہیں، کرائے پر رہتی ہیں، ایک بیٹا ہے لیکن اب وہ دماغی طور پر معذور ہے۔ وجہ صرف بے روزگاری۔ جب ایک جوان انسان کا جو اپنے گھر کا واحد کفیل ہو اچانک نوکری چلی جائے، کوئی کام نہ ملے تو وہ پاگل ہی ہوجائے گا۔ ماں جی اپنے پاگل بیٹے کو پالنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں لیکن مہنگائی کی وجہ سے اب دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتی۔ یہ سب بتاتے ہوئے ان کی انکھیں اشکبار ہوگئیں۔
میرا سوال ہے حکومت وقت سے کہ کیا ہماری معیشت اس قدر بدحال ہوگئی ہے جو کسی غریب کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتی؟ ایک روتی سسکتی ماں کے آنسو نظر نہیں آتے؟ کیا یہاں کوئی بھی ایسا حکمران نہیں جو اس ماں کو دو وقت کا کھانا دے سکے؟ کیا پاکستان میں رہنا ایک سزا بن گیا ہے؟ اس حد تک نوبت آگئی ہے یا تو غریب مرجائے یا ملک بدر ہوجائے۔ ایک سوال میں سب کےلیے چھوڑ رہی ہوں، ہماری اشرافیہ جو ہر ماہ ورلڈ ٹور پر کروڑوں خرچ کرسکتی ہے کیا کسی غریب کو دینے کےلیے چند ہزار بھی نہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔