اسپیشل انسان
پاکستان میں اسپیشل انسانوں کی تعداد‘ مغرب کے کئی ممالک کی مکمل آبادی سے زیادہ ہے
نیویارک کا ہسٹری سنہری میوزیم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کمال وسعت اور محنت سے ترتیب دیا ہوا شہکار جسے دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے ان گنت لوگ آتے ہیں۔ وہاں جا کر لگتا ہے کہ آپ کسی اور دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔
ایسے ایسے نوادرات اور تاریخی اشیاء جنھیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ جب بھی نیویارک جانے کا موقع ملتا ہے تو یہ میوزیم ضرور دیکھتا ہوں۔ اور ہر مرتبہ' ایک نئے جہان ِحیرت سے واسطہ پڑتا ہے۔ مگر آج میں جس واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
اس کا تعلق اس عجائب گھر سے صرف اتنا ہے کہ وہاں صرف وقوع پذیر ہوا تھا۔1992 میں پہلی مرتبہ اس عجائب گھر میں جانے کا موقع ملا۔توایک گائڈڈ ٹور میں شامل ہو گیا۔ ویسے یہ میری عادت کے متضاد ہے۔
کیونکہ اپنے پسندیدہ نایاب شاہ پاروں کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں صرف کرتا ہوں۔ جب کہ گائڈ آپ سے پیسہ لے کرجلد از جلد' اس ٹور کواختتام پر پہنچا کر اپنے گھر جانا چاہتا ہے۔ یاد ہے کہ پیرس میں لو میوزیم دیکھنے کے لیے چند گھنٹے نہیں کئی دن درکار ہیں۔
مگر مجبوری میں صرف ایک دن میں دیکھنا پڑا۔ مشکل بات یہ ہے کہ اتنا وقت میسر نہیں ہوتا۔ خیر نیویارک کے عجائب گھر میں ایک ٹور کے ساتھ منسلک ہونا پڑا۔ کوئی دو سے تین گھنٹے کے دورانیہ کا معلوم ہوتا تھا۔ ایک حد درجہ مہذب خاتون' بڑے اعتماد سے ہر فن پارہ کے متعلق تفصیل سے بتا رہی تھی۔
ہاں۔ ایک بات اور۔ اس ٹور کی فیس کوئی دس ڈالر کے قریب تھی۔ آرام سے بارہ سے پندرہ لوگوں کاگروہ ' عجائب گھر میں موجود تاریخی شہکاروں کو دیکھ رہا تھا۔ ٹور میں ہر قومیت کے لوگ شامل تھے۔ میوزیم کے درمیان میں واقعہ بہت بڑا کیفے تھا۔ گائڈ نے کہا کہ اس ریسٹورنٹ میں آدھا گھنٹہ قیام ہو گا۔ خیر جب اس کیفے میں داخل ہوا'تو گائڈ اتفاق سے میرے ساتھ تھی۔
ریسٹورنٹ کے عین وسط میں ایک سفید فام والدہ ' بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہی تھی۔ بچی جسمانی طور پر معذور تھی۔ اور اس سے خوراک چبائی نہیں جا رہی تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے' آدھے سے زیادہ کھانا مونہہ سے باہر نکل آتا تھا۔
والدہ کے ہاتھ میں ایک نیپکن تھا۔ وہ پڑے تحمل سے' باہر گرا ہوا کھانا' نیپکن سے صاف کرتی تھی۔ اور دوسرا لقمہ تیار کرنا شروع کر دیتی تھی۔ میری زبان سے بے اختیار ایک جملہ نکلا کہ یہ لڑکی تو معذور لگتی ہے ۔she appears to be disabled child یہ جملہ بہر حال گائڈ نے ضرور سن لیا۔ گائڈ انتہائی تہذیب سے مجھے کہنے لگی کہ یہ لڑکی بالکل معذور نہیں ہے۔
یہ ایک اسپیشل بچی ہے۔ اسے معذور کہنا بہت زیادتی والی بات ہے۔ پھر اس نے مجھے شائستگی سے دس ڈالر واپس کیے۔ کہنے لگی کہ یہ آپ نے گائڈڈ ٹور کے لیے جمع کروائے تھے۔ معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو اس فقرے کے بعد' گروپ سے علیحدہ کر رہی ہوں۔ یقین فرمائیے کہ شرم سے پانی پانی ہو گیا۔
دراصل اندازہ ہی نہیں تھا کہ معذور انسان کو معذور کہنا' ایک توہین آمیز لفظ ہے۔ اس کے لیے Special Child کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دن سے لے کر آج تک میں نے یہ لفظی غلطی دوبارہ نہیں کی۔
اس واقعہ کو تقریباً چالیس برس ہو چکے ہیں۔ مگر یہ سبق میرے ذہن پر آج بھی نقش ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً نصف صدی پہلے سے اب تک' معذور انسان کو اسپیشل کہنے کا قطعاً رجحان نہیں ہے۔
مجھے یہ سبق مغرب نے دیا کہ وہ بچے یا بزرگ جو زندگی میں کسی بھی قدرتی وجہ سے نامکمل رہتے ہیں۔ ان کو مخاطب کرنے کا طریقہ حد درجہ رحم دلانہ ہونا چاہیے۔ معذور کا لفظ کہنا یا بولنا ایک گالی کے مترادف شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سبق مجھے اچھی طرح ازبر ہے۔ پوری دنیا میں پندرہ فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح کی جسمانی معذوری کا شکار ہے۔
یہ المیہ تین مختلف اقسام کا ہو سکتا ہے۔ -Mild, moderate, severe اردو ترجمہ کرنا کم از کم اس وقت میرے لیے ممکن نہیں۔ یہ تعداد تقریباً ایک ارب سے اوپر تک پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کا اندازہ لگانا حد درجہ مشکل ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ غور فرمایئے۔ کہ پاکستان میں اسپیشل انسانوں کی تعداد' مغرب کے کئی ممالک کی مکمل آبادی سے زیادہ ہے۔ ویسے مجھے گمان ہے کہ یہ تعداد تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
بدقسمتی کی انتہا دیکھیے کہ ان معذوروں میں 43فیصد معصوم نوخیز بچے اور بچیاں ہیں۔ 58فیصد بچے اور 41 فیصد بچیاں اس مشکل کا شکار ہیں۔ حکومت پاکستان نے اسپیشل افراد کے متعلق 2011 میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ جسے United Nations Convention on Rights of Persons with Disabilitiesکہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی پاسداری کے لیے کئی حکومتی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔
این جی اوز بھی مصروف کار ہیں۔ یہ ایک قابل ستائش بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسپیشل افراد کی تعداد کے مطابق حکومتی یا نجی شعبے کی کاوش ' واقعی معیاری ہے۔ اس حد درجہ مشکل سوال کا جواب مکمل طور پر نفی میں ہے۔
صوبائی اور مرکزی حکومتیں اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا سا کام کر تو رہی ہیں۔ مگر یہ حد درجہ ناکافی ہے۔ دیکھنے کو تو سرکاری اسکول بھی ہیں' ٹرانسپورٹ کا معمولی سا نظام بھی نظر آتا ہے۔ مگر یہ ادھورا سا ہے۔ بلکہ سطحی سا معلوم ہوتا ہے۔ حکومتی اقدامات سے بھی صرف نظر فرمائیے ۔ سب سے پہلے تو اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے سماجی رویہ کو پرکھیں جو عمومی طور پر اسپیشل افراد کے ساتھ برتا جاتا ہے۔
ہمارا رویہ کسی بھی طرح کے معذوروں کی جانب ' حد درجہ ظالمانہ اور عامی ہے ۔ایسے ماں باپ بھی ہیں ' جو اپنے اسپیشل بچوں کی نگہداشت حد درجہ عمدہ طریقے سے کرتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات اپنے مالی وسائل سے بڑھ کر کرتے ہیں۔
واضح اکثریت ' اسپیشل بچوں کو ایک بوجھ گردانتی ہے۔ والدین کی بات تو رہنے دیجیے ۔ وہ تو پھر بھی اپنے لخت جگر کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔ مگر اردگرد کے لوگوں کا رویہ' حد درجہ ناپختہ اور ناانصافی پر مبنی ہوتاہے۔ بچپن سے شروع کیجیے۔ اگر اسپیشل بچہ یا بچی' عام اسکول میں پڑھنے کے لیے داخل ہو جا ئیں تو نارمل بچے' ان کی معذوری کو از راہ مذاق ضرور استعمال کرتے ہیں۔ ان کی چھیڑ بنا لی جاتی ہے۔ مزاحیہ نام دے دیے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ یا بچی چل پھر نہیں سکتے' تو انھیں' لنگا' لنگڑی یا لنگڑا کہہ کر ٹھٹھہ لگایا جاتاہے۔ اسکول کی بات کر رہا ہوں۔
ذرا سوچئے کہ ان معصوم اسپیشل بچوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جو اپنی کسی غلطی کے بغیر تختہ ستم بنتے رہتے ہیں۔ اب یہ نارمل بچوں کے والدین اور اسکول کی انتظامیہ کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کو سمجھائیںکہ اسپیشل بچوں کے ساتھ حد درجہ محبت اور احسن سلوک روا رکھیں۔ انھیں بتائیں کہ یہ خدا کی مرضی سے ہے۔
ان کو بھی کسی مصیبت میں ڈالا جا سکتا ہے۔مگر ہمارے ملک میں والدین اور اساتذہ بھی اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو مہذب اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تحت ہونا چاہے۔ دراصل ہمارے سماج میں شعور کی سطح اس قدر کمتر ہے کہ ہم صحیح سمت میں سوچنے اور عمل کرنے سے کافی حد تک قاصر ہیں۔
یہاں میں پولیو سے معذوری کے معاملے پر ضرور بات کروں گا۔ پولیو کی ویکسین کے دو قطرے' کسی بھی معصوم کو زندگی بھر کی محرومی سے محفوظ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک بیماری ہے جس سے بچنا ہی اصل کام ہے۔
مگر ہمارے شدت پسند ظالم طبقہ' پولیو ورکرز کو شہید کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ کیا یہ جہالت اور ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ وہ سرکاری ملازم جو پولیو ویکسین پلانے کے نیک اور عظیم کام کو احسن طریقے سے کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کے بھیڑیے نما انسان' ان ملازمین پر حملے کرتے ہیں۔ انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور افراد کو مارنا' سو فیصد قتلِ ناحق ہے۔ خدا کے حضور اس کی لازم بڑی سخت باز پرس ہو گی۔
ویسے کیا یہ قیامت نہیں۔ کہ جہاں پولیو جیسے موذی مرض سے معصوم بچوں کو محفوظ رکھنا' چند علاقوں میں قابل تعزیر ہے۔ وہاں عام آدمی کی کیا بات کرنی۔ ویسے کیا عجیب مضمون لکھ رہا ہوں۔ جہاں پچیس کروڑ افراد ' حیوانی سطح پر سانس لے رہے ہوں' وہاںا سپیشل افراد کا کیا ذکر کروں۔ ان کے حقوق اور حفاظت کی کیا بات کروں!
ایسے ایسے نوادرات اور تاریخی اشیاء جنھیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ جب بھی نیویارک جانے کا موقع ملتا ہے تو یہ میوزیم ضرور دیکھتا ہوں۔ اور ہر مرتبہ' ایک نئے جہان ِحیرت سے واسطہ پڑتا ہے۔ مگر آج میں جس واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
اس کا تعلق اس عجائب گھر سے صرف اتنا ہے کہ وہاں صرف وقوع پذیر ہوا تھا۔1992 میں پہلی مرتبہ اس عجائب گھر میں جانے کا موقع ملا۔توایک گائڈڈ ٹور میں شامل ہو گیا۔ ویسے یہ میری عادت کے متضاد ہے۔
کیونکہ اپنے پسندیدہ نایاب شاہ پاروں کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں صرف کرتا ہوں۔ جب کہ گائڈ آپ سے پیسہ لے کرجلد از جلد' اس ٹور کواختتام پر پہنچا کر اپنے گھر جانا چاہتا ہے۔ یاد ہے کہ پیرس میں لو میوزیم دیکھنے کے لیے چند گھنٹے نہیں کئی دن درکار ہیں۔
مگر مجبوری میں صرف ایک دن میں دیکھنا پڑا۔ مشکل بات یہ ہے کہ اتنا وقت میسر نہیں ہوتا۔ خیر نیویارک کے عجائب گھر میں ایک ٹور کے ساتھ منسلک ہونا پڑا۔ کوئی دو سے تین گھنٹے کے دورانیہ کا معلوم ہوتا تھا۔ ایک حد درجہ مہذب خاتون' بڑے اعتماد سے ہر فن پارہ کے متعلق تفصیل سے بتا رہی تھی۔
ہاں۔ ایک بات اور۔ اس ٹور کی فیس کوئی دس ڈالر کے قریب تھی۔ آرام سے بارہ سے پندرہ لوگوں کاگروہ ' عجائب گھر میں موجود تاریخی شہکاروں کو دیکھ رہا تھا۔ ٹور میں ہر قومیت کے لوگ شامل تھے۔ میوزیم کے درمیان میں واقعہ بہت بڑا کیفے تھا۔ گائڈ نے کہا کہ اس ریسٹورنٹ میں آدھا گھنٹہ قیام ہو گا۔ خیر جب اس کیفے میں داخل ہوا'تو گائڈ اتفاق سے میرے ساتھ تھی۔
ریسٹورنٹ کے عین وسط میں ایک سفید فام والدہ ' بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہی تھی۔ بچی جسمانی طور پر معذور تھی۔ اور اس سے خوراک چبائی نہیں جا رہی تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے' آدھے سے زیادہ کھانا مونہہ سے باہر نکل آتا تھا۔
والدہ کے ہاتھ میں ایک نیپکن تھا۔ وہ پڑے تحمل سے' باہر گرا ہوا کھانا' نیپکن سے صاف کرتی تھی۔ اور دوسرا لقمہ تیار کرنا شروع کر دیتی تھی۔ میری زبان سے بے اختیار ایک جملہ نکلا کہ یہ لڑکی تو معذور لگتی ہے ۔she appears to be disabled child یہ جملہ بہر حال گائڈ نے ضرور سن لیا۔ گائڈ انتہائی تہذیب سے مجھے کہنے لگی کہ یہ لڑکی بالکل معذور نہیں ہے۔
یہ ایک اسپیشل بچی ہے۔ اسے معذور کہنا بہت زیادتی والی بات ہے۔ پھر اس نے مجھے شائستگی سے دس ڈالر واپس کیے۔ کہنے لگی کہ یہ آپ نے گائڈڈ ٹور کے لیے جمع کروائے تھے۔ معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو اس فقرے کے بعد' گروپ سے علیحدہ کر رہی ہوں۔ یقین فرمائیے کہ شرم سے پانی پانی ہو گیا۔
دراصل اندازہ ہی نہیں تھا کہ معذور انسان کو معذور کہنا' ایک توہین آمیز لفظ ہے۔ اس کے لیے Special Child کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دن سے لے کر آج تک میں نے یہ لفظی غلطی دوبارہ نہیں کی۔
اس واقعہ کو تقریباً چالیس برس ہو چکے ہیں۔ مگر یہ سبق میرے ذہن پر آج بھی نقش ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً نصف صدی پہلے سے اب تک' معذور انسان کو اسپیشل کہنے کا قطعاً رجحان نہیں ہے۔
مجھے یہ سبق مغرب نے دیا کہ وہ بچے یا بزرگ جو زندگی میں کسی بھی قدرتی وجہ سے نامکمل رہتے ہیں۔ ان کو مخاطب کرنے کا طریقہ حد درجہ رحم دلانہ ہونا چاہیے۔ معذور کا لفظ کہنا یا بولنا ایک گالی کے مترادف شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سبق مجھے اچھی طرح ازبر ہے۔ پوری دنیا میں پندرہ فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح کی جسمانی معذوری کا شکار ہے۔
یہ المیہ تین مختلف اقسام کا ہو سکتا ہے۔ -Mild, moderate, severe اردو ترجمہ کرنا کم از کم اس وقت میرے لیے ممکن نہیں۔ یہ تعداد تقریباً ایک ارب سے اوپر تک پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کا اندازہ لگانا حد درجہ مشکل ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ غور فرمایئے۔ کہ پاکستان میں اسپیشل انسانوں کی تعداد' مغرب کے کئی ممالک کی مکمل آبادی سے زیادہ ہے۔ ویسے مجھے گمان ہے کہ یہ تعداد تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
بدقسمتی کی انتہا دیکھیے کہ ان معذوروں میں 43فیصد معصوم نوخیز بچے اور بچیاں ہیں۔ 58فیصد بچے اور 41 فیصد بچیاں اس مشکل کا شکار ہیں۔ حکومت پاکستان نے اسپیشل افراد کے متعلق 2011 میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ جسے United Nations Convention on Rights of Persons with Disabilitiesکہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی پاسداری کے لیے کئی حکومتی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔
این جی اوز بھی مصروف کار ہیں۔ یہ ایک قابل ستائش بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسپیشل افراد کی تعداد کے مطابق حکومتی یا نجی شعبے کی کاوش ' واقعی معیاری ہے۔ اس حد درجہ مشکل سوال کا جواب مکمل طور پر نفی میں ہے۔
صوبائی اور مرکزی حکومتیں اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا سا کام کر تو رہی ہیں۔ مگر یہ حد درجہ ناکافی ہے۔ دیکھنے کو تو سرکاری اسکول بھی ہیں' ٹرانسپورٹ کا معمولی سا نظام بھی نظر آتا ہے۔ مگر یہ ادھورا سا ہے۔ بلکہ سطحی سا معلوم ہوتا ہے۔ حکومتی اقدامات سے بھی صرف نظر فرمائیے ۔ سب سے پہلے تو اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے سماجی رویہ کو پرکھیں جو عمومی طور پر اسپیشل افراد کے ساتھ برتا جاتا ہے۔
ہمارا رویہ کسی بھی طرح کے معذوروں کی جانب ' حد درجہ ظالمانہ اور عامی ہے ۔ایسے ماں باپ بھی ہیں ' جو اپنے اسپیشل بچوں کی نگہداشت حد درجہ عمدہ طریقے سے کرتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات اپنے مالی وسائل سے بڑھ کر کرتے ہیں۔
واضح اکثریت ' اسپیشل بچوں کو ایک بوجھ گردانتی ہے۔ والدین کی بات تو رہنے دیجیے ۔ وہ تو پھر بھی اپنے لخت جگر کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔ مگر اردگرد کے لوگوں کا رویہ' حد درجہ ناپختہ اور ناانصافی پر مبنی ہوتاہے۔ بچپن سے شروع کیجیے۔ اگر اسپیشل بچہ یا بچی' عام اسکول میں پڑھنے کے لیے داخل ہو جا ئیں تو نارمل بچے' ان کی معذوری کو از راہ مذاق ضرور استعمال کرتے ہیں۔ ان کی چھیڑ بنا لی جاتی ہے۔ مزاحیہ نام دے دیے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ یا بچی چل پھر نہیں سکتے' تو انھیں' لنگا' لنگڑی یا لنگڑا کہہ کر ٹھٹھہ لگایا جاتاہے۔ اسکول کی بات کر رہا ہوں۔
ذرا سوچئے کہ ان معصوم اسپیشل بچوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جو اپنی کسی غلطی کے بغیر تختہ ستم بنتے رہتے ہیں۔ اب یہ نارمل بچوں کے والدین اور اسکول کی انتظامیہ کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کو سمجھائیںکہ اسپیشل بچوں کے ساتھ حد درجہ محبت اور احسن سلوک روا رکھیں۔ انھیں بتائیں کہ یہ خدا کی مرضی سے ہے۔
ان کو بھی کسی مصیبت میں ڈالا جا سکتا ہے۔مگر ہمارے ملک میں والدین اور اساتذہ بھی اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو مہذب اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تحت ہونا چاہے۔ دراصل ہمارے سماج میں شعور کی سطح اس قدر کمتر ہے کہ ہم صحیح سمت میں سوچنے اور عمل کرنے سے کافی حد تک قاصر ہیں۔
یہاں میں پولیو سے معذوری کے معاملے پر ضرور بات کروں گا۔ پولیو کی ویکسین کے دو قطرے' کسی بھی معصوم کو زندگی بھر کی محرومی سے محفوظ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک بیماری ہے جس سے بچنا ہی اصل کام ہے۔
مگر ہمارے شدت پسند ظالم طبقہ' پولیو ورکرز کو شہید کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ کیا یہ جہالت اور ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ وہ سرکاری ملازم جو پولیو ویکسین پلانے کے نیک اور عظیم کام کو احسن طریقے سے کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کے بھیڑیے نما انسان' ان ملازمین پر حملے کرتے ہیں۔ انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور افراد کو مارنا' سو فیصد قتلِ ناحق ہے۔ خدا کے حضور اس کی لازم بڑی سخت باز پرس ہو گی۔
ویسے کیا یہ قیامت نہیں۔ کہ جہاں پولیو جیسے موذی مرض سے معصوم بچوں کو محفوظ رکھنا' چند علاقوں میں قابل تعزیر ہے۔ وہاں عام آدمی کی کیا بات کرنی۔ ویسے کیا عجیب مضمون لکھ رہا ہوں۔ جہاں پچیس کروڑ افراد ' حیوانی سطح پر سانس لے رہے ہوں' وہاںا سپیشل افراد کا کیا ذکر کروں۔ ان کے حقوق اور حفاظت کی کیا بات کروں!