سننے والے کے حضور فریادیوں کی بڑھتی تعداد
خراب معاشی حالات میں غریبوں سے زیادہ متوسط طبقہ پریشان ہے جن کے کاروبار ختم یا بری طرح متاثر ہیں
پی ٹی آئی کی تین سال 8 ماہ کی حکومت میں بڑھتی مہنگائی کو بنیاد بنا کر اقتدار میں آنے والی اتحادی حکومت کی پارٹیاں مہنگائی کا واویلا اور حکومت کے خلاف احتجاج کرتے کرتے موقع ملتے ہی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے اقتدار میں آئی تھیں تو مہنگائی سے تنگ عوام کو یہ توقع تھی کہ مہنگائی پر شور مچانے والے شاید اب انھیں ریلیف دیں گے اور مہنگائی روکیں گے مگر حکومت میں شامل پارٹیوں نے حکومت میں اپنے اپنے حکومتی اخراجات کم کرنے اور مہنگائی روکنے پر توجہ دینے کے بجائے اپنی تمام توانائیاں 84 افراد کی بھاری بھرکم کابینہ اور مفادات کے حصول پر مرکوز کردی تھی جس کی وجہ سے مہنگائی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے لگی تھی جس کی ذمے داری اتحادی حکومت قبول کرنے کے بجائے سابق پی ٹی آئی حکومت پر ڈالتی رہی اور پانچ ماہ قبل جب اتحادی حکومت رخصت ہوئی تو عوام مہنگائی کے مزید بوجھ تلے بلبلا رہے تھے کیونکہ اتحادی حکومت کی پارٹیاں جو عوام کی ہمدرد ہونے کے دعوے کرتے نہیں تھکتی تھیں یہ کہہ کر اقتدار نگرانوں کو دے کر رخصت ہوئیں کہ ہم نے ریاست بچا لی اور اپنی سیاست کو داؤ پر لگا کر ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا۔
76 ویں جشن آزادی پر اقتدار میں آنے والی نگراں حکومت نے آتے ہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے کا ریکارڈ قائم کیا اور بجلی وگیس کے نرخوں میں ریکارڈ کا نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔ نگرانوں نے اپنے 5 مہینوں میں عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں اور لوگ نگران حکومت سے کوئی توقع رکھنے کے بجائے اپنے اس سننے والے کی طرف رجوع ہوگئے جس کے حضور لوگوں خصوصاً غریبوں کی دعائیں سنی جاتی ہیں۔
دنیا میں ایک ہی ہستی سننے والی ہے جس کے حضور دعائیں قبول بھی ہوتی ہیں، اس لیے موجودہ انتہائی برے حالات اور مشکلات میں گھرے لوگوں نے مساجد کا رخ کر لیا ہے اور تقریباً ہر مسجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور حالت یہ ہے کہ بڑی مساجد میں جیسے ہی امام حضرات نماز کے اختتام پر سلام پھیرتے ہیں متعدد افراد کھڑے ہوکر اپنے مسائل بیان کرنے لگتے ہیں جن میں اب بڑی عمر کے بزرگوں کی تعداد نمایاں ہوتی جا رہی ہے جو راشن کے لیے لوگوں سے فریاد کرتے ہیں تو کسی کے ہاتھ میں ڈاکٹروں کے دیے ہوئے دواؤں کے پرچے ہوتے ہیں تو کوئی بتا رہا ہوتا ہے کہ اس پر کئی ماہ کا گھر کا کرایہ چڑھا ہوا ہے اور زیادہ تعداد راشن مانگنے والوں کی ہوتی ہے۔
کوئی بتاتا ہے کہ اس کا مریض اسپتال میں داخل ہے جس کے لیے دواؤں کی ضرورت ہے اور رقم نہ ملنے پر اسپتالوں میں مریضوں کا علاج نہیں کیا جا رہا۔ دوائیں حد سے زیادہ مہنگی ہوگئی ہیں جو خریدنے کی وہ سکت نہیں رکھتے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس کے بچوں نے کچھ نہیں کھایا، اس لیے اپنے گھروں کا بچا ہوا کھانا ہی دے دیا جاتا ہے۔
کوئی زکوٰۃ و خیرات کا طلب گار اپنی بپتا بتاتا ہے جب کہ مساجد کے دروازوں پر باہر موجود مردوں اور خواتین الگ جمع ہو کر نمازیوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ نمازیوں میں موجود مخیر حضرات اپنی استطاعت کے مطابق ضرورت مندوں کے ہاتھوں میں نوٹ تھما دیتے ہیں۔ مساجد کے باہر موجود افراد میں کون مستحق ہے یہ تو ان کا اللہ ہی جانتا ہے مگر نماز کے بعد اپنی ضروریات بیان کرنے والے بزرگوں کو دیکھ کر نمازی دکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ معاشی برے حالات میں بڑی عمر کے بزرگوں کو بھی نمازیوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑ رہا ہے بعض ایسے سفید پوش ضرورت مند بھی ہاتھ پھیلائے کھڑے نظر آتے ہیں جن سے شرم کے مارے اپنی ضرورت بیان نہیں ہوتی اور بعض شرم کے مارے منہ پر دونوں ہاتھ رکھ لیتے ہیں یا چہرہ چھپانے کے لیے ماس لگانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مانگنے والوں کی یہ تعداد نگراں حکومتوں میں بڑھی ہے اور غربت اور مہنگائی اور بے روزگاری کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔
خراب معاشی حالات میں غریبوں سے زیادہ متوسط طبقہ پریشان ہے جن کے کاروبار ختم یا بری طرح متاثر ہیں۔ کرائے کی دکانوں میں کاروبار کرنے والوں سے دکانوں کے کرائے نہیں نکل رہے ان کے پاس گاہک آئیں نہ آئیں وہ دکانیں کھلی رکھنے پر مجبور ہیں جہاں بجلی کم استعمال ہونے کے باوجود بجلی کے بل زیادہ آ رہے ہیں۔
ہزاروں روپے کے بجلی کے بل چھوٹے دکانداروں کے آرہے ہیں جن کی ادائیگی ممکن نہیں ہوتی تو وہ بجلی کے دفاتر جا کر قسطیں کرانے پر مجبور ہیں مگر وہاں بھی انھیں ان کی مرضی کی قسط نہیں ہوتی۔ کئی کئی ماہ کے دکانوں کے کرائے ادا نہ کیے جانے پر انھیں دکانیں خالی کرنے کے نوٹس مل چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ انتہائی پریشان ہیں کہ دکانیں کیسے خالی کردیں خالی کریں تو سامان کہاں لے جائیں۔
ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ جو تھوڑی بہت خریداری ہو رہی ہے اس سے وہ گھر چلائیں یا کرائے اور بجلی کے بل ادا کریں جب کہ ان کے بچے جن اسکولوں میں پڑھتے ہیں وہاں فیس ادا نہ ہونے کے باعث اسکولوں سے پریشان کیا جا رہا ہے۔
بڑی تعداد میں پریشان والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سے ہٹا کر سرکاری اسکولوں میں داخل کرانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جہاں حکومتیں عوام کی دشمن بن کر صرف عوام کے مسائل بڑھانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہوں وہاں پریشان حال لوگوں کو صرف مساجد ہی نظر آتی ہیں جس سے نمازیوں کی تعداد بڑھی ہے اور ضرورت مند اپنے مسائل و مصائب کے حل میں مدد کے لیے گڑگڑا کر اپنے رب سے ہی دعائیں مانگ رہے ہیں کیونکہ عوام سے دور رہنے والے حکمرانوں سے عوام کو کوئی امید باقی نہیں رہی ان کے بیانات سے عوام کا پیٹ نہیں بھر رہا۔