ایرانی ایڈونچر معاملہ الجھ نہ جائے کہیں
تہران کے بقول اس نے پاکستان میں موجود شرپسندوں کو نشانہ بنایا جب کہ پاکستان کے بقول اس حملے میں دو بچے نشانہ بنے
ہونی بالاخر ہو کر رہتی ہے۔اس ہفتے ایران نے پاکستان کے سرحدی ضلع پنجگور کے ایک گاؤں پر اچانک میزائل حملہ کر دیا۔ تہران کے بقول اس نے پاکستان میں موجود شرپسندوں کو نشانہ بنایا جب کہ پاکستان کے بقول اس حملے میں دو بچے نشانہ بنے۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک تھا کہ تمام دنیا چونک گئی۔
جس اچانک اور خوفناک انداز میں یہ دراندازی کی گئی، اس پر پاکستان میں شدید عوامی اور حکومتی رد عمل سامنے آیا۔ بہت سوچ سمجھ کر پاکستان نے دو روز بعد جوابی ردعمل دیا۔
انتہائی پیچیدہ آپریشن کے ذریعے ٹارگٹڈ آپریشن میں نو سے زیادہ غیر ایرانی لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے کافی عرصے سے مطلوب تھے۔ یوں اس ہونی کے پہلے راؤنڈ میں ترکی بہ ترکی جواب دے دیا گیا لیکن اس کے بعد معاملات انتہائی نازک سطح پر ہیں۔
پاکستان اور ایران میں حکومتی سطح پر عرصے سے روابط خوشگوار بھی ہیں اور مسلسل مثبت انداز میں آگے بھی بڑھ رہے تھے۔
گزشتہ سال شہباز شریف کی حکومت کے دوران ایرانی صدر تربت کے دورے پر آئے، ایران سے بجلی سپلائی پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ رواں ہفتے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں جاری اکنامک فورم کے دوران منگل کو ہی تہران کے وزیر خارجہ اور پاکستان کے نگران وزیراعظم کے درمیان ملاقات ہوئی۔ بظاہر سب کچھ خوشگوار ہونے کے باوجود شام کو ہوئے میزائل حملے نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ پاکستان کی طرف سے سفارتی تعلقات ڈاؤن گریڈ کر دیے گئے۔
پاکستان کے ترکی بہ ترکی جواب دینے پر تہران نے بھی تعلقات کو ڈاؤن گریڈ کر دیا، یوں ایک دراندازی نے دوستانہ تعلقات میں گہرا شگاف ڈال دیا۔عجیب اتفاق یہ بھی ہے کہ اسی ہفتے ایران نے عراق میں ایک میزائل حملے میں بقول اس کے اسرائیل کے انٹیلی جنس ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ اسی روز شام میں بھی بقول ایران کے دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایران مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں بلاواسطہ یا بالواسطہ پچھلی ایک دہائی میں بالخصوص ایک اہم فریق رہا ہے۔ سعودی عرب اور یمن کی جنگ کے دوران بھی ایران کی جانب سے حوثیوں کی پشت پناہی پراکسی جنگ کا مظہر تھی۔ایران کی جانب سے رواں ہفتے پنجگور کے ایک گاؤں پر حملے کی ایک طویل سرحدی تنازعاتی تاریخ بھی قابل غور ہے۔
ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی کشمکش کئی بار گرما گرم ہوئی اور سرد بھی ہوئی۔ ایرانی کے سرحدی صوبے سیستان میں12لاکھ کے لگ بھگ بلوچی النسل ایرانی ہیں۔ ایران نے عموماً آمین احسن نظر کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد بھی ایران کا بلوچی النسل ایرانیوں کی طرف رویہ شک سے لبریز رہا۔
عقیدے کے اعتبار سے بلوچی النسل ایرانی مختلف تھے، لہٰذا پرانی رقابت کئی بار مذہبی رنگ بھی اختیار کرتی رہی۔ گزشتہ 12/15سال کے درمیان میں مختلف تنظیموں نے ایران میں دہشت گرد کارروائیاں کیں۔
پاکستان نے اپنے تئیں انٹیلیجنس شیئرنگ اور اپنی ذمے داری نبھانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایسی متنازع تنظیموں کے کئی ارکان کو گرفتار کر کے ایران کے حوالے بھی کیا گیا۔
دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان پچھلی دو دہائیوں کے دوران کئی بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی چراگاہ بنا رہا۔ بھارت نے بالخصوص کوشش کی کہ بلوچستان میں بدامنی پھیلائی جائے۔
کلبھوشن کی گرفتاری اور اس کے بعد سامنے آنے والے انکشافات کافی اور شافی ثبوت تھے۔ اس کے باوجود حالیہ شواہد یہی اشارہ دیتے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں اپنی کارروائیوں سے تائب نہیں ہوا۔
معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھارت کے ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ 2016 میں چاہ بہار بندرگاہ منصوبہ بھارت کی پیشکش تھی۔ چاہ بہار بندرگاہ اور افغانستان کے ساتھ ملانے والا ریل پروجیکٹ بنیادی طور پر بھارت کی طرف سے افغانستان کو متبادل تجارتی راستہ فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
ایران بدستور عالمی اعتبار سے معاشی پابندیوں کا سامنا کرتا ہے تاہم ایران نے اپنے وسائل اور اپنی سیاسی اور معاشی اہمیت کو استعمال کرتے ہوئے روس، چین اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار رکھے۔ ان تینوں بڑی طاقتوں کا عالمی منظر پر اثرونفوذ اس انداز کا ہے کہ ایران کو پابندیوں کے باوجود بہت سے معاشی اور تجارتی امور میں اپنے آپ کو سنبھالے رکھنے میں انتہائی کلیدی معاونت میسر رہی۔پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات عموماً خوشگوار رہے ہیں۔
سرحدی علاقوں میں غیر رسمی تجارت کے ذریعے بے تحاشہ ایرانی سامان دہائیوں سے پاکستان کے سرحدی علاقوں بلکہ نزدیکی شہروں تک بآسانی اور فراوانی کے ساتھ دستیاب رہا ہے۔ تاہم باقاعدہ تجارت میں امریکا کی طرف سے عائد پابندیوں کے سبب دونوں ملکوں کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدہ ہونے کے باوجود تجارت بہت زیادہ فروغ نہیں پا سکی۔
بینکنگ کے معاملات بھی انھی پابندیوں کی وجہ سے فروغ نہ پا سکے۔ دونوں اہم معیشتیں اور اچھے ہمسائے ہونے کے باوجود باہمی تجارتی تعلقات میں زیادہ سرگرمی نہ دکھا سکے۔ انھی عالمی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں پیشرفت سے بھی باز رہا۔ حالانکہ ایران نے اپنے تئیں گیس پائپ لائن سرحد تک پہنچا دی۔
تاہم پاکستان عالمی تعلقات میں اپنی مجبوریوں اور پیچیدگیوں کے سبب اس منصوبے میں ضروری اور مطلوبہ پیشکش پیشرفت سے باز رہا۔
پاکستان اس وقت سیاسی اور سفارتی اعتبار سے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ بھارت اور افغانستان کی سرحدوں پر بھی تلخیاں ہیں۔ ایران کے ساتھ 900 کلومیٹر لمبی سرحد پر سکون قائم تھا لیکن اس واقعے نے اسے بے سکون کر دیا۔پاکستان اور ایران کے لیے یہ لمحہ بہت اہم اور پیچیدہ ہے۔
وہ عالمی طاقتیں جو مشرق وسطیٰ اور خطے کو تنازعات کی لپیٹ میں دیکھنا چاہتی ہیں ان کی اعلانیہ اور درپردہ خواہش یہی ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک میں دوستانہ تعلقات مناقشت اور رقابت میں بدل جائیں۔ تاہم دونوں ہمسایہ ممالک کا مفاد اسی میں ہے کہ سفارتی اور حکومتی سطح پر تمام معاملات کو زیر بحث لایا جائے اور انھیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ عمل خوش آیند ہے کہ اس ہفتے چین، روس اور ترکی نے مصالحت کی کوششیں کی ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ یہ معاملہ جلد سے جلد احسن انداز میں حل ہو جائے اور تہران کسی بھی قسم کی نئی مہم جوئی سے بھی باز رہے اور پاکستان کو بھی اس کا جواب دینے کی مجبوری آڑے نہ آئے۔
جس اچانک اور خوفناک انداز میں یہ دراندازی کی گئی، اس پر پاکستان میں شدید عوامی اور حکومتی رد عمل سامنے آیا۔ بہت سوچ سمجھ کر پاکستان نے دو روز بعد جوابی ردعمل دیا۔
انتہائی پیچیدہ آپریشن کے ذریعے ٹارگٹڈ آپریشن میں نو سے زیادہ غیر ایرانی لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے کافی عرصے سے مطلوب تھے۔ یوں اس ہونی کے پہلے راؤنڈ میں ترکی بہ ترکی جواب دے دیا گیا لیکن اس کے بعد معاملات انتہائی نازک سطح پر ہیں۔
پاکستان اور ایران میں حکومتی سطح پر عرصے سے روابط خوشگوار بھی ہیں اور مسلسل مثبت انداز میں آگے بھی بڑھ رہے تھے۔
گزشتہ سال شہباز شریف کی حکومت کے دوران ایرانی صدر تربت کے دورے پر آئے، ایران سے بجلی سپلائی پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ رواں ہفتے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں جاری اکنامک فورم کے دوران منگل کو ہی تہران کے وزیر خارجہ اور پاکستان کے نگران وزیراعظم کے درمیان ملاقات ہوئی۔ بظاہر سب کچھ خوشگوار ہونے کے باوجود شام کو ہوئے میزائل حملے نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ پاکستان کی طرف سے سفارتی تعلقات ڈاؤن گریڈ کر دیے گئے۔
پاکستان کے ترکی بہ ترکی جواب دینے پر تہران نے بھی تعلقات کو ڈاؤن گریڈ کر دیا، یوں ایک دراندازی نے دوستانہ تعلقات میں گہرا شگاف ڈال دیا۔عجیب اتفاق یہ بھی ہے کہ اسی ہفتے ایران نے عراق میں ایک میزائل حملے میں بقول اس کے اسرائیل کے انٹیلی جنس ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ اسی روز شام میں بھی بقول ایران کے دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایران مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں بلاواسطہ یا بالواسطہ پچھلی ایک دہائی میں بالخصوص ایک اہم فریق رہا ہے۔ سعودی عرب اور یمن کی جنگ کے دوران بھی ایران کی جانب سے حوثیوں کی پشت پناہی پراکسی جنگ کا مظہر تھی۔ایران کی جانب سے رواں ہفتے پنجگور کے ایک گاؤں پر حملے کی ایک طویل سرحدی تنازعاتی تاریخ بھی قابل غور ہے۔
ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی کشمکش کئی بار گرما گرم ہوئی اور سرد بھی ہوئی۔ ایرانی کے سرحدی صوبے سیستان میں12لاکھ کے لگ بھگ بلوچی النسل ایرانی ہیں۔ ایران نے عموماً آمین احسن نظر کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد بھی ایران کا بلوچی النسل ایرانیوں کی طرف رویہ شک سے لبریز رہا۔
عقیدے کے اعتبار سے بلوچی النسل ایرانی مختلف تھے، لہٰذا پرانی رقابت کئی بار مذہبی رنگ بھی اختیار کرتی رہی۔ گزشتہ 12/15سال کے درمیان میں مختلف تنظیموں نے ایران میں دہشت گرد کارروائیاں کیں۔
پاکستان نے اپنے تئیں انٹیلیجنس شیئرنگ اور اپنی ذمے داری نبھانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایسی متنازع تنظیموں کے کئی ارکان کو گرفتار کر کے ایران کے حوالے بھی کیا گیا۔
دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان پچھلی دو دہائیوں کے دوران کئی بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی چراگاہ بنا رہا۔ بھارت نے بالخصوص کوشش کی کہ بلوچستان میں بدامنی پھیلائی جائے۔
کلبھوشن کی گرفتاری اور اس کے بعد سامنے آنے والے انکشافات کافی اور شافی ثبوت تھے۔ اس کے باوجود حالیہ شواہد یہی اشارہ دیتے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں اپنی کارروائیوں سے تائب نہیں ہوا۔
معاشی اور سیاسی اعتبار سے بھارت کے ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ 2016 میں چاہ بہار بندرگاہ منصوبہ بھارت کی پیشکش تھی۔ چاہ بہار بندرگاہ اور افغانستان کے ساتھ ملانے والا ریل پروجیکٹ بنیادی طور پر بھارت کی طرف سے افغانستان کو متبادل تجارتی راستہ فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
ایران بدستور عالمی اعتبار سے معاشی پابندیوں کا سامنا کرتا ہے تاہم ایران نے اپنے وسائل اور اپنی سیاسی اور معاشی اہمیت کو استعمال کرتے ہوئے روس، چین اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار رکھے۔ ان تینوں بڑی طاقتوں کا عالمی منظر پر اثرونفوذ اس انداز کا ہے کہ ایران کو پابندیوں کے باوجود بہت سے معاشی اور تجارتی امور میں اپنے آپ کو سنبھالے رکھنے میں انتہائی کلیدی معاونت میسر رہی۔پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات عموماً خوشگوار رہے ہیں۔
سرحدی علاقوں میں غیر رسمی تجارت کے ذریعے بے تحاشہ ایرانی سامان دہائیوں سے پاکستان کے سرحدی علاقوں بلکہ نزدیکی شہروں تک بآسانی اور فراوانی کے ساتھ دستیاب رہا ہے۔ تاہم باقاعدہ تجارت میں امریکا کی طرف سے عائد پابندیوں کے سبب دونوں ملکوں کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدہ ہونے کے باوجود تجارت بہت زیادہ فروغ نہیں پا سکی۔
بینکنگ کے معاملات بھی انھی پابندیوں کی وجہ سے فروغ نہ پا سکے۔ دونوں اہم معیشتیں اور اچھے ہمسائے ہونے کے باوجود باہمی تجارتی تعلقات میں زیادہ سرگرمی نہ دکھا سکے۔ انھی عالمی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں پیشرفت سے بھی باز رہا۔ حالانکہ ایران نے اپنے تئیں گیس پائپ لائن سرحد تک پہنچا دی۔
تاہم پاکستان عالمی تعلقات میں اپنی مجبوریوں اور پیچیدگیوں کے سبب اس منصوبے میں ضروری اور مطلوبہ پیشکش پیشرفت سے باز رہا۔
پاکستان اس وقت سیاسی اور سفارتی اعتبار سے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ بھارت اور افغانستان کی سرحدوں پر بھی تلخیاں ہیں۔ ایران کے ساتھ 900 کلومیٹر لمبی سرحد پر سکون قائم تھا لیکن اس واقعے نے اسے بے سکون کر دیا۔پاکستان اور ایران کے لیے یہ لمحہ بہت اہم اور پیچیدہ ہے۔
وہ عالمی طاقتیں جو مشرق وسطیٰ اور خطے کو تنازعات کی لپیٹ میں دیکھنا چاہتی ہیں ان کی اعلانیہ اور درپردہ خواہش یہی ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک میں دوستانہ تعلقات مناقشت اور رقابت میں بدل جائیں۔ تاہم دونوں ہمسایہ ممالک کا مفاد اسی میں ہے کہ سفارتی اور حکومتی سطح پر تمام معاملات کو زیر بحث لایا جائے اور انھیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ عمل خوش آیند ہے کہ اس ہفتے چین، روس اور ترکی نے مصالحت کی کوششیں کی ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ یہ معاملہ جلد سے جلد احسن انداز میں حل ہو جائے اور تہران کسی بھی قسم کی نئی مہم جوئی سے بھی باز رہے اور پاکستان کو بھی اس کا جواب دینے کی مجبوری آڑے نہ آئے۔