یاکستان ایک نظر میں مجھے بیٹا نہیں بیٹی چاہئے

لوگ آج بھی بیٹی کی پیدائش پر سوگ مناتے ہیں اور بیٹے کی پیدائش پر شادیانے بجاتے ہیں۔

لوگ آج بھی بیٹی کی پیدائش پر سوگ مناتے ہیں اور بیٹے کی پیدائش پر شادیانے بجاتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

خبر کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ ابھی گذشتہ ماہ کی ہی بات ہے جب ملتان میں محمّد حسین نامی ایک شخص نے اپنی بیوی ناہید پر تیزاب سے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں اس کے جسم کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ جل گیا۔ ناہید کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے یکے بعد دیگرے تین بیٹیاں پیدا کی تھیں۔ تیسری بیٹی کی پیدائش کا سن کر محمد حسین طیش میں آگیا اور اس نے بیٹیاں پیدا کرنے کی سزا میں بیوی پر تیزاب پھینک دیا۔

پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں میں بیٹی کے بجائے بیٹے کو واضح ترجیح دی جاتی ہے۔ یہاں بیٹی کی پدائش پر آئے دن نئے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ قانون ہونے کے باوجود ایسی واقعات کو روکنے میں پورا معاشرہ ناکام ہے۔ دراصل اس کے پیچھے اصل قصور ہماری صدیوں پرانی روایتوں کا ہے۔ جیسا کہ بیٹا جائیداد کا وارث ہوتا ہے، پیڑھی اسی سے چلتی ہے اور وہی باپ کا نام زندہ رکھ سکتا ہے۔ اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود ان نام نہاد روایتوں نے ہمارے پیر جکڑے ہوئے ہیں۔ اسی لئے لوگ آج بھی بیٹی کی پیدائش پر سوگ مناتے ہیں اور بیٹے کی پیدائش پر شادیانے بجاتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے حوا کی بیٹی کی کسی کو ضرورت نہیں رہی؟ ہرگز نہیں۔

صوبہ سندھ کے ضلع خیرپور کے گاؤں میں اب بھی کچھ خواتین شدت سے بیٹی کے پیدا ہونے کی خواہش رکھتی ہیں۔ 30 سالہ مریم بھی بیٹی کی پیدائش کے لئے کچھ یوں دعا گو تھی کہ '' جب میں امید سے تھی تو بیٹی پیدا ہونے کی بہت دعا کیا کرتی تھی۔ جب میری ماں کو پتا چلا تو اس نے مجھے بہت ڈانٹا اور کہا کے بیٹی کیوں چاہئے تمہیں؟ ؟ اگر بیٹا ہوگا تو وہ تمہاری ساری پریشانیاں دور کر دے گا، کما کر کھلائے گا، تمھاری عزت بڑھ جائے گی سسرال اور برادری میں، بیٹی تو الٹا تمھارے اوپر بوجھ بن جائے گی۔

پاکستان میں اب بھی کچھ ایسے علاقے پائے جاتے ہیں جہاں بیٹی کی پیدائش کو زندگی اور موت کا سوال بنا دیا جاتا ہے۔ اور ان علاقوں میں بیٹی کی خواہش کرنا انہونی سی بات لگتی ہے۔ لیکن مریم کی طرح بہت سے ایسی خواتین ہیں جنہیں بیٹی کی پیدائش کی شدید خواہش ہے۔


دیکھا جائے تو بیٹے نہیں بلکہ بیٹیاں ہی اپنی ماؤں کا اصل سہارا ہوتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں لڑکیوں کو کم عمری سے ہی گھریلو کام کاج کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ شادی کے بعد اپنا گھر خود سنبھال سکیں۔ اسی لئے لڑکیاں شروع سے ہی ماؤں کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عورتوں کو بیٹی پیدا ہونے کی تمنا ہوتی ہے۔

خیرپور ہی کے ایک اور گاؤں کی رہنی والی سکینہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں یہ رجحان عام ہے کہ مشکل وقت میں بیٹی ہی سہارا بنتی ہے۔ ''اگر میں بیمار ہوتی ہوں تو میرا بیٹا نہیں بلکہ میری بیٹی میرا خیال رکھتی ہے''۔یہاں غریب گھرانوں کی خواتین بیٹیوں کی خواہش کرتی ہیں کیوں کے بیٹیاں ہی ماؤں کے ساتھ ہر کام میں ہاتھ بٹاتی ہیں خاص طور پر دستکاری میں جو کہ ہماری آمدنی کا ذریعہ ہے۔ بیٹوں کی جو مرضی ہوتی ہے وہ کرتے ہیں صبح کے گئے شام کو واپس گھر آتے ہیں۔ نہ کہنا سنے ہیں نہ کچھ کما کے لاتے ہیں۔

بیشتر گاؤں میں خاندان کے معاشی حالات کا بھی بیٹی کی خواہش سے گہرا تعلق ہے، خیرپور میں رہنے والے زیادہ تر لوگ غریب ہیں۔ یہاں کم تعلیم ہونے کی وجہ سے کوئی مستقل روزگار بھی ملنا مشکل ہے اسی وجہ سے لوگوں کے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جاتے ہیں. ایسے میں نوجوان لڑکیاں دن رات محنت کرکے ماں باپ کا سہارا بنتی ہیں۔

مگر صد افسوس ان سب کے باوجود ہمارے معاشرے میں بیٹی کی قدر نہیں کی جاتی اور ان پر بیٹوں کو فوفیت دی جاتی ہے۔ بیشتر ماں باپ بیٹے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر انہیں بیٹی یا بیٹے میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو وہ یقنینا بیٹے کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے مستقبل کی فکر ستاتی ہیں۔ بیٹی تو شادی کر کے پیا دیس چلی جائے گی۔ لیکن بیٹا مرتے دم تک ان کے ساتھ رہے گا، شادی کرے گا پیڑھی آگے بڑھائے گا،ماں باپ کی ضروریات کا خیال رکھے گا، اپنی بیوی سے ان کی خدمت کروائے گا۔ بعد ازاں والدین کی یہ خواہشات خام خیالی ثابت ہوتی ہیں۔ میرا یہاں یہ کہنے کا ہرگز مطلب نہیں کہ بیٹے برے یا ان سے کسی قسم کی خواہش ہا امید وابستی رکھنا فضول ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ چاہے بیٹی ہو یا بیٹا خدارا دونوں کو برابری کا درجہ دیں۔ بیٹیوں کو بھی انسان سمجھیں۔ یہ نہ ہو کہ وقت گزرنے کے بعد سوائے پچھتاوے کے آپ کے پاس کچھ بھی نہ بچے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story