پاکستان ایک نظر میں حکومت گرانے کی آخر اتنی جلدی کیوں ہے

کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی کوئی ایسے انتخابات ہوئے ہیں کہ جن پر دھاندلی کے الزامات نہیں لگے ہوں؟


فہیم پٹیل June 02, 2014
اگر یہاں دھاندلی کا رواج نہ ہوتا تو کیا فوج کے بعد ملک میںسب سے زیادہ برسراقتدار رہنے والی دو بڑی جماعتیں 3،3 بار اقتدار پر براجمان ہوسکتی تھیں؟: فائل فوٹو

وہ وقت صرف میرے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے یقینی طور پرفخر کرنے کا وقت تھا جب پاکستان پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت نے اپنی تمام تر خرابیوں اور خامیوں کے باوجود پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنی مدت پوری کی اور اگلی جمہوری حکومت کو اقتدار حوالے کیا۔

2013 کے انتخابات کے بعد مجھ ناچیز کو ناجانے کس دھوکے نے غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ اب جمہوری نظام کے خلاف ہونے والی تمام سازشیں ناکام ہوگئی اور اب یہاں کسی میں اِتنی جرات نہیں ہوگی کہ وہ یہاں کسی غیر جمہوری راستے کا بول بالا کرسکے۔لیکن آخر میں بھی انسان ہوں اور غلطیاں تو انسانوں سے ہی رونما ہوا کرتی ہیں۔

اگر میری بات پر بھروسہ نہیں تو آپ مجھے خود بتائیے کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی کوئی ایسے انتخابات ہوئے ہیں کہ جن پر دھاندلی کے الزامات نہیں لگے ہوں؟ اگر یہاں دھاندلی کا رواج نہ ہوتا تو کیا فوج کے بعد ملک میںسب سے زیادہ برسراقتدار رہنے والی دو بڑی جماعتیں 3،3 بار اقتدار پر براجمان ہوسکتی تھیں؟ یہی شور تو 1977 کے انتخابات میں بھی مچا تھا نہ اور پھر نتیجہ کیا ہوا ۔۔۔۔ 11 سالہ طویل سیاہ دور آیا کہ جس میں پاکستان کے معاشرے کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا تھا۔یہاں میرا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہو تو سیاسی جماعتوں کو خاموشی سے بیٹھ جانا چاہیے یا اپنے حق کے لیے آواز نہیں اُٹھانی چاہیے ۔ بس کہنے کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ اِس قسم کی تحاریک کے وقت پلان بی بھی ضرور بنایا جائے کہ اگر اِس دوران کوئی جمہوری نظام کو خطرہ ہوا تو پھر وہ کس طرح اِس کو قابو کرینگے۔

کل صبح کے اخبارات میں طاہر القادری اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے پیش کیا جانے والا حکومت مخالف مشترکہ لائحہ عمل پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جس کی بنیادی وجہ حکومت کی خراب کارکردگی کو بتایا جارہا ہے۔کہا گیا کہ حکومت عوام کی فلاح کے حوالے سے مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ یہ ایک ناکام حکومت ہے۔ اِس کو ختم کرنا قوم کے لیے واجب بن گیا ہے اور مبینہ الزامات کی طویل بوچھاڑ ہے۔ایک عام روایت ہے نہ کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بس یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے ۔۔۔۔ بس اِسی روایت کو اپنا ہوئے بیان کو بہت غور سے پڑھا کیونکہ جن کی طرف یہ بیان جاری ہوا ہے اُن کو تو میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی تو بھلا اُن کی بات کون سنتا ہے؟ ۔۔۔۔ اِس حکومتی مخالف ایجنڈےکی وجوہات سے تو میں شاید کُلی ہی اتفاق کرتا ہوں مگر پھر ساتھ یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر محترم طاہرالقادری اِس حکومت کو ختم کرنا واجب سمجھتے ہیں تو یہ موصوف اُس وقت کہاں تھے جب پاکستان پیپلزپارٹی برسراقتدار تھی۔کیا اُس وقت اِس ملک میں شہد کی نہریں بہہ رہی تھی، کیا اُس وقت عوام خوشحالی سے زندگی گزار رہے تھے، کیا اُس وقت ملک میں بجلی ضرورت سے زیادہ تھی، کیا اُس وقت لوگ سونے میں لت پت گھروں سے نکلا کرتے تھے اور کوئی اُنہیں دیکھنے والا نہیں تھا؟ کیا ساری برائی اِسی ایک سال میں آئی ہے؟

مزید بات کو آگے لیجانے سے پہلے ایک بات یہاں واضح کرنا چاہوں گا کہ نہ ہی میرا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے اور نہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کا سخت مخالف ۔۔۔۔ میں بھی پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح صبح 9 سے 5 نوکری کرنے والا ایک عام سے شہری ہوں جس کا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہاں مخالفت سب کی کرتا ہوںیکن جمہوری نظام کے تحفظ کو ملک کی ترقی اور تادیر قیام کے لیے انہتائی ناگزیر سمجھتا ہوں۔

یہی بات خان صاحب کو سمجھانا چاہتا کہ آپ حکومت مخالف تحریک ضرور چلائیں ۔۔۔۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے کیونکہ میں بھی اُس کا شاہد ہوں بس اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی یہ تحریک جمہوریت کے لیے خودکش دھماکہ ثابت نہ ہوجائے کی اور حکومت سے بھی التماس ہے کہ سرکار آپکو تو ایک بار پھر دو تہائی اکثریت ملی ہے تو پھر کیونکر 4 سیٹوں پر ووٹوں کی گنتی نہیں کروارہے ۔۔۔ آپ کو تو یقین ہے نہ کہ وہ سیٹیں آپکی جیتی ہوئی ہے تو ووٹوں کی گنتی کرواتے ہوئے مخالفین کو خاموش کروادیں تاکہ آپ بھی سکون سے مزید چار سال ہم پر حکمرانی کریں۔

جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو مجھے طالبعلمی کا دور یاد آگیا جب ہمارے ایک اُستاد کہا کرتے تھے کہ پاکستانی قوم ڈنڈے کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور میں اُن کو یہی دلیل دیا کرتا تھا کہ یہاں جمہوری نظام بالکل اُسی طرح کامیابیوں کے منازل کو طے کرسکتا ہے جس طرح کسی بھی ترقی یافتہ ممالک میں کررہا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اِسے ٹائم دیا جائے ۔۔۔۔ لوگ ایک بار غلطی کریں گے دو بار کرسکتے ہیں مگر تیسری مرتبہ غلطی کرنے پہلے کئی بار سوچیں گے اور اِسی طرح ملک میں سہی معنوں میں عوامی حکومت قائم ہوسکتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں