’’ تمام موسم خزاں کے موسم ‘‘ پر ایک نظر
کتاب کئی اہل قلم کی آراء سے آراستہ ہے، زاہد رشید جو اس کتاب کے پبلشر ہیں ان کی تحریر بھی شامل اشاعت ہے
نوشاد عثمان کا شعری مجموعہ جس کا عنوان ہے ''تمام موسم خزاں کے موسم ''، گزشتہ برس ہارون پبلی کیشن سے شایع ہوا تھا، آج اس کتاب کی تقریب اجراء ہے۔
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
میرے لیے اور اہل علم کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں پروفیسر سحر انصاری کی صدارت میں اپنا مضمون پیش کرنے کی جسارت کر رہی ہوں اس سے قبل بھی بارہا ان کی صدارت میں مضامین پڑھے ہیں ۔
کتاب کئی اہل قلم کی آراء سے آراستہ ہے، زاہد رشید جو اس کتاب کے پبلشر ہیں ان کی تحریر بھی شامل اشاعت ہے، یہ مضامین قاری کو بہت سی معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ پیش لفظ بھی قابل توجہ ہے، صاحب کتاب کے مضمون سے اس بات سے بھی آگاہی ہوئی کہ آپ کو علم و ادب، شعر و سخن ورثے میں ملا ہے، بقول شاعر گھریلو ذمے داریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دوستوں کی محفل کو خیر باد کیا اور کار زار حیات میں کود گیا اور ایسا کودا کہ گم ہوگیا، سلیم احمد کا شعر درج ہے۔
غینم وقت کے لشکر کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
پھر اپنے بارے میں مزید آگاہی دیتے ہیں کہ ایک خوف مجھے بھی تھا میں لشکر نہیں بنا سکا تو میں کوزہ گر بن گیا ، میں اس اجنبی سرزمین میں خاموشی کے ساتھ الفاظ کے کوزے بنانے لگا، کچھ مشاعرے میں سنایا اور باقی سنبھال کر رکھا، خزاں میں رہنے کے لیے میری شاعری میں ایک عنصر غم کا بھی ہے، کسی سے مل کے بچھڑنے کا غم نہیں لیکن بس ایک سپاہی سے شاعر بنایا گیا مجھ کو ۔
وہ پاکستان ایئر فورس کے محکمے میں خدمات انجام دے چکے ہیں، شاید درج بالا شعر میں اس ہی طرف اشارہ ہے ، نوشاد عثمان جمیل کی شاعری احساس کے نگینوں سے روشن ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ علم و آگہی سے ان کا سینہ روشن ہے ، وہ وجود کائنات کے اسرار و رموز کو جاننے کے لیے پہروں سوچ کے دائرے میں اپنے آپ کو مقید رکھتے ہیں، ان کا دماغ فکری زاویوں پر سفرکرتا ہے ،اور پھر بہت سی باتیں اور راز منکشف ہوجاتے ہیں، جو عام آدمی کی دسترس سے دور ہیں، اس ہی ادارک نے ان کی شاعری کو عشق حقیقی کی روشنی بخشی ہے، شاعر نے اپنے کلام میں اللہ کی قربت کے حصول کے لیے اپنے خیالات کو سوالات کی ردا میں ملبوس کر دیا ہے، وہ اللہ کی قدرت کاملہ کے جلوؤں کو دیکھ کر حیران ہے وہ اپنی حیرانی اور استعجاب کو شاعری کے پیکر میں اس طرح ڈھالتا ہے۔
جنوں ہے گر تو صحرا کیوں نہیں ہے ؟
سمندر ہے تو گہرا کیوں نہیں ہے
میں ظاہر میں باطن کی طرح ہوں
میرے چہرے پر چہرہ کیوں نہیں ہے
ازل سے کیوں ہے گردش میں زمانہ
کہیں آخر یہ ٹہرا کیوں نہیں ہے
زمانے کی منافقت اور دہری چالوں نے انسان کا اعتماد مجروح کردیا ہے ، اب دوستوں کی محبت پر اعتبار رہا ہے اور نہ اختیار کہ وہ اپنے دل کی بات زباں پر لا سکے کہ اس کا راز اور سچائی کو طشت از بام ہوتے دیر نہیں لگتی ہے، تلخ حقائق کو شاعر نے زبان عطا کردی ہے، جو الفاظ کی شکل میں صفحہ قرطاس پر نمایاں ہے، آپ کی توجہ کی طالب ہوں کہ ان گہری باتوں کو سمجھنے کے لیے عقل و دانائی اور ادراک کو دوست بنانا پڑتا ہے۔
بے سکونی وہی ہے بے قراری وہی
دن گذرتا نہیں رات بھاری وہی
لوگ ملتے ہیں کتنی محبت سے پر
آستینوں میں خنجر ہے کاری وہی
دن گذرتا ہے دنیا کے افکار میں
رات میں اپنی اختر شماری وہی
رنجشیں بھی رہیں ، بدگمانی بھی ہے
سلسلہ عشق کا پھر بھی جاری وہی
نوشاد عثمان کی شاعری میں جہاں استعاروں نے جگہ بنا لی ہے، وہاں نغمیت کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔
آسماں سے اتر کے آئے ہو
خلد سے اپنے گھر سے آئے ہو
موتیو! تم میں ہے چمک کیسی
کیا کسی چشم تر سے آئے ہو
غور و فکر کرنے کی دعوت اللہ انے اپنے نائب حضرت انسان کو خود دی ہے، اور پھر جب انسان حکم بجا لاتا ہے تب وہ شان ربوبیت اور اس کے حیرت انگیز کرشموں پر حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتا ہے، اس کا یہ عمل اس کے باطن کو علم و عرفان کی روشنی سے مزین کردیتا ہے، شعر و سخن کا مطالعہ کرتے ہوئے بعض جگہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کیفیت سے گزرے ہیں، چونکہ ان کی فکری سطح بلند ہے، وہ دنیا کے حریص نہیں ہیں، قناعت پسند اور اپنے رب کے شکر گزار ہیں، یہ جذبہ انسان کو دوسروں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے عزت بخشتا ہے۔ان کا کلام پاکیزہ اور صوفیانہ ہے، نمونے کے طور پر چند اشعار۔
گل و بلبل کی داستاں کیا ہے
موسم گل ہے کیا، خزاں کیا ہے
دسترس میں نہیں ہے جب کچھ بھی
پھر یہ احساس رائیگاں کیا ہے
آدمی ہے انا کا قیدی ، مگر، زندگی بحر پیکراں کیا ہے
ایک او ر غزل آپ کی سماعتوں کی نذر، جس میں انھوں نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ سوالات کہاں سے اور کیوں جنم لیتے ہیں۔
دل میں انسان کے کوئی کاسہ ہے
ہر گھڑی سوال کی گردش
گردشوں میں رہی حیات میری
جیسے جام و سفال کی گردش
نوشاد عثمان کے والد نے دو ہجرتوں کا کرب سہا ہے ، ایک 1947 کے فسادات اور دوسری 1971ء کی جنگ، قیام پاکستان کے وقت وہ دنیائے آب وگل میں نہیں تھے ، البتہ دوسری ہجرت کے وقت نوشاد عثمان عمر کے اس دور میں تھے جب احساسات و جذبات ہر قسم کے حالات و حادثات کو بخوبی سمجھنے کی قدرت رکھتے ہیں، ویسے بھی والدین اور اولاد کا دکھ، سکھ سانجھا ہوتا ہے ، قتل و غارت اور درد کے احساس کے نتیجے میں یہ غزل تخلیق ہوئی ہے ۔
چل کے دیکھو شہر جاناں میں تم
خون ہے ہر طرف میناکاری وہی
دشت میں قیس کی آبلہ پائی وہی
اور لیلیٰ کی محمل سواری وہی
علامہ اقبال کی نظم ''شکوہ '' کی طرز پر وہ مسلمانوں کی غفلت اور دین سے دوری کے بجائے اللہ تعالیٰ سے دلنشین انداز میں محوکلام ہیں ۔
ہیں خیال عرش پر میرے
یہ زمیں کیا ہے، یہ زماں کیا ہے
رفتہ، رفتہ جو کھل گیا سب پر
راز وہ کیا ہے، رازداں کیا ہے
جب قیامت ہی آنے والی ہے
پھر یہ آرائش جہاں کیا ہے
ملئہ جبر و قدر کیوں آخر
اور انسان ناتواں کیا ہے
اس کے ساتھ اس دلاویز مجموعے کی اشاعت پر میں خلوصِ دل کے ساتھ مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
(نوٹ: کتاب کی رونمائی میں پڑھا گیا مضمون)
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
میرے لیے اور اہل علم کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں پروفیسر سحر انصاری کی صدارت میں اپنا مضمون پیش کرنے کی جسارت کر رہی ہوں اس سے قبل بھی بارہا ان کی صدارت میں مضامین پڑھے ہیں ۔
کتاب کئی اہل قلم کی آراء سے آراستہ ہے، زاہد رشید جو اس کتاب کے پبلشر ہیں ان کی تحریر بھی شامل اشاعت ہے، یہ مضامین قاری کو بہت سی معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ پیش لفظ بھی قابل توجہ ہے، صاحب کتاب کے مضمون سے اس بات سے بھی آگاہی ہوئی کہ آپ کو علم و ادب، شعر و سخن ورثے میں ملا ہے، بقول شاعر گھریلو ذمے داریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دوستوں کی محفل کو خیر باد کیا اور کار زار حیات میں کود گیا اور ایسا کودا کہ گم ہوگیا، سلیم احمد کا شعر درج ہے۔
غینم وقت کے لشکر کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
پھر اپنے بارے میں مزید آگاہی دیتے ہیں کہ ایک خوف مجھے بھی تھا میں لشکر نہیں بنا سکا تو میں کوزہ گر بن گیا ، میں اس اجنبی سرزمین میں خاموشی کے ساتھ الفاظ کے کوزے بنانے لگا، کچھ مشاعرے میں سنایا اور باقی سنبھال کر رکھا، خزاں میں رہنے کے لیے میری شاعری میں ایک عنصر غم کا بھی ہے، کسی سے مل کے بچھڑنے کا غم نہیں لیکن بس ایک سپاہی سے شاعر بنایا گیا مجھ کو ۔
وہ پاکستان ایئر فورس کے محکمے میں خدمات انجام دے چکے ہیں، شاید درج بالا شعر میں اس ہی طرف اشارہ ہے ، نوشاد عثمان جمیل کی شاعری احساس کے نگینوں سے روشن ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ علم و آگہی سے ان کا سینہ روشن ہے ، وہ وجود کائنات کے اسرار و رموز کو جاننے کے لیے پہروں سوچ کے دائرے میں اپنے آپ کو مقید رکھتے ہیں، ان کا دماغ فکری زاویوں پر سفرکرتا ہے ،اور پھر بہت سی باتیں اور راز منکشف ہوجاتے ہیں، جو عام آدمی کی دسترس سے دور ہیں، اس ہی ادارک نے ان کی شاعری کو عشق حقیقی کی روشنی بخشی ہے، شاعر نے اپنے کلام میں اللہ کی قربت کے حصول کے لیے اپنے خیالات کو سوالات کی ردا میں ملبوس کر دیا ہے، وہ اللہ کی قدرت کاملہ کے جلوؤں کو دیکھ کر حیران ہے وہ اپنی حیرانی اور استعجاب کو شاعری کے پیکر میں اس طرح ڈھالتا ہے۔
جنوں ہے گر تو صحرا کیوں نہیں ہے ؟
سمندر ہے تو گہرا کیوں نہیں ہے
میں ظاہر میں باطن کی طرح ہوں
میرے چہرے پر چہرہ کیوں نہیں ہے
ازل سے کیوں ہے گردش میں زمانہ
کہیں آخر یہ ٹہرا کیوں نہیں ہے
زمانے کی منافقت اور دہری چالوں نے انسان کا اعتماد مجروح کردیا ہے ، اب دوستوں کی محبت پر اعتبار رہا ہے اور نہ اختیار کہ وہ اپنے دل کی بات زباں پر لا سکے کہ اس کا راز اور سچائی کو طشت از بام ہوتے دیر نہیں لگتی ہے، تلخ حقائق کو شاعر نے زبان عطا کردی ہے، جو الفاظ کی شکل میں صفحہ قرطاس پر نمایاں ہے، آپ کی توجہ کی طالب ہوں کہ ان گہری باتوں کو سمجھنے کے لیے عقل و دانائی اور ادراک کو دوست بنانا پڑتا ہے۔
بے سکونی وہی ہے بے قراری وہی
دن گذرتا نہیں رات بھاری وہی
لوگ ملتے ہیں کتنی محبت سے پر
آستینوں میں خنجر ہے کاری وہی
دن گذرتا ہے دنیا کے افکار میں
رات میں اپنی اختر شماری وہی
رنجشیں بھی رہیں ، بدگمانی بھی ہے
سلسلہ عشق کا پھر بھی جاری وہی
نوشاد عثمان کی شاعری میں جہاں استعاروں نے جگہ بنا لی ہے، وہاں نغمیت کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔
آسماں سے اتر کے آئے ہو
خلد سے اپنے گھر سے آئے ہو
موتیو! تم میں ہے چمک کیسی
کیا کسی چشم تر سے آئے ہو
غور و فکر کرنے کی دعوت اللہ انے اپنے نائب حضرت انسان کو خود دی ہے، اور پھر جب انسان حکم بجا لاتا ہے تب وہ شان ربوبیت اور اس کے حیرت انگیز کرشموں پر حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتا ہے، اس کا یہ عمل اس کے باطن کو علم و عرفان کی روشنی سے مزین کردیتا ہے، شعر و سخن کا مطالعہ کرتے ہوئے بعض جگہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کیفیت سے گزرے ہیں، چونکہ ان کی فکری سطح بلند ہے، وہ دنیا کے حریص نہیں ہیں، قناعت پسند اور اپنے رب کے شکر گزار ہیں، یہ جذبہ انسان کو دوسروں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے عزت بخشتا ہے۔ان کا کلام پاکیزہ اور صوفیانہ ہے، نمونے کے طور پر چند اشعار۔
گل و بلبل کی داستاں کیا ہے
موسم گل ہے کیا، خزاں کیا ہے
دسترس میں نہیں ہے جب کچھ بھی
پھر یہ احساس رائیگاں کیا ہے
آدمی ہے انا کا قیدی ، مگر، زندگی بحر پیکراں کیا ہے
ایک او ر غزل آپ کی سماعتوں کی نذر، جس میں انھوں نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ سوالات کہاں سے اور کیوں جنم لیتے ہیں۔
دل میں انسان کے کوئی کاسہ ہے
ہر گھڑی سوال کی گردش
گردشوں میں رہی حیات میری
جیسے جام و سفال کی گردش
نوشاد عثمان کے والد نے دو ہجرتوں کا کرب سہا ہے ، ایک 1947 کے فسادات اور دوسری 1971ء کی جنگ، قیام پاکستان کے وقت وہ دنیائے آب وگل میں نہیں تھے ، البتہ دوسری ہجرت کے وقت نوشاد عثمان عمر کے اس دور میں تھے جب احساسات و جذبات ہر قسم کے حالات و حادثات کو بخوبی سمجھنے کی قدرت رکھتے ہیں، ویسے بھی والدین اور اولاد کا دکھ، سکھ سانجھا ہوتا ہے ، قتل و غارت اور درد کے احساس کے نتیجے میں یہ غزل تخلیق ہوئی ہے ۔
چل کے دیکھو شہر جاناں میں تم
خون ہے ہر طرف میناکاری وہی
دشت میں قیس کی آبلہ پائی وہی
اور لیلیٰ کی محمل سواری وہی
علامہ اقبال کی نظم ''شکوہ '' کی طرز پر وہ مسلمانوں کی غفلت اور دین سے دوری کے بجائے اللہ تعالیٰ سے دلنشین انداز میں محوکلام ہیں ۔
ہیں خیال عرش پر میرے
یہ زمیں کیا ہے، یہ زماں کیا ہے
رفتہ، رفتہ جو کھل گیا سب پر
راز وہ کیا ہے، رازداں کیا ہے
جب قیامت ہی آنے والی ہے
پھر یہ آرائش جہاں کیا ہے
ملئہ جبر و قدر کیوں آخر
اور انسان ناتواں کیا ہے
اس کے ساتھ اس دلاویز مجموعے کی اشاعت پر میں خلوصِ دل کے ساتھ مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
(نوٹ: کتاب کی رونمائی میں پڑھا گیا مضمون)