فلسطینیوں کا قصورکیا
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جیسی نایاب قوت کو شکست کسی غیر مسلم کے ہاتھوں میں کبھی ہو ہی نہیں سکتی
عربوں کو یہود نے اپنی منافقانہ پالیسیوں کے زیر اثر لانے کے لیے انتداب (Mandate) کی اصطلاح وضع کی۔
برطانیہ کی اس شیطانی اصطلاح کا مقصد یہ تھا کہ مقامی باشندے وقت آنے پر بغیرکسی بیرونی مدد کے اپنے ملک کا نظم و نسق چلا سکیں جب کہ اس خصوصیت والی اصطلاح کا جوازکچھ اس طرح ان یہود و نصاریٰ نے پیش کیا کہ اس علاقے کے باسی منتشر اور پسماندہ ہیں تو اس لیے انھیں اس انتداب (Mandate) کے تحت رہنا ضروری ہے۔
عربوں نے بہ حالت مجبوری اس اصطلاح کو اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ آگے چل کر عربوں کو مکمل آزادی دے دی جائے گی اور سالانہ تین ہزار یہودیوں سے زیادہ کو فلسطین میں آباد نہ ہونے دیا جائے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ یہودی قوم نے کبھی بھی معاہدوں کی پاسداری نہیں کی اور ہوا بھی یہی، غیر قانونی طور پر ناجائز ذرایع سے ہزاروں کی تعداد میں یہودی برطانوی حکمرانوں کی ایماء پر آتے رہے اور آباد ہوتے رہے۔
مسلمانوں کے خلاف یہود کی اس منظم سازش میں دھن دولت پانی کی طرح بہائی جا رہی تھی جس کی بناء پر دھونس اور دھاندلی کو ہتھیار بنا کر عربوں کی زمینوں پر یہ قابض ہوتے گئے۔ برطانوی حکمرانوں کے بل پر یہودی صدیوں سے آباد عربوں کے مکانات اور زمینوں پر قابض ہوجاتے اور عرب اپنے ہی وطن میں مہاجرین کی سی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
انبیاء کی سر زمین جہاں امام الانبیاء اور امام الاقبلتین نے سفر معراج پر جانے سے قبل انبیاء کی جماعت کی امامت فرمائی اور جو صدیوں سے امن و سکون کا گہوارہ تھی صیہونیت کے منحوس قدموں کی آمد کے ساتھ لاتعداد عذاب و مصائب ظلم و ناانصافی کا ٹھکانہ بن گئی ہے۔
آفرین ہے وہاں کے حقیقی جانشینوں پر جو اپنے کلمے کی سربلندی کے لیے ایک طرف یہودیوں سے اور دوسری طرف برطانوی امریکیوں سے دست و پیکارہیں۔ خدائے بزرگ کے فضل سے ان کے حوصلوں کی ایمانی طاقت کو کفرکی قوتیں شکست دینے سے عاجز ہیں۔ آج بھی برطانیہ نے انھیں انتداب کے زیر تسلط رکھا ہوا ہے جس کے تحت عربوں کے ساتھ ناانصافیاں مسلسل جاری ہیں۔
1921میں پہلا فساد ہوا اور یہ لامتناہی سلسلہ بتدریج جاری و ساری ہے جس کی اصل جڑ برطانوی حکومت کی جانبدارانہ پالیسیاں ہیں جو صورتحال کو بد سے بدتر بنا رہی ہیں۔ فلسطین پر صیہونیوں کا دعویٰ محض سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے تھا، ورنہ یہودی دوہزارسال قبل مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس عظیم سرزمین سے بے دخل کر دیے گئے تھے۔
برطانوی حکومت کی ہر ممکن ناجائز مدد جس میں اسلحے کی فراہمی، انتہائی اہمیت کی حامل امداد جس کی وجہ سے عربوں اور یہودیوں کے درمیان وسیع پیمانے پر فسادات ہوتے رہے بالاخر عربوں نے منظم جدوجہد کے لیے عرب قومی محاذ قائم کی جس کے زیر انتظام ملک بھر میں ہڑتال کی گئی۔
مفتی اعظم فلسطین امین الحسنی کی صدارت میں عربوں نے برطانوی حکومت اور یہودیوں سے عدم تعاون کیا، جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ کی کہ گویا پورا ملک فوجی کیمپ بن گیا۔ بلاخر عربوں کی اعلیٰ قیادت کی مداخلت اور اصرار سے عربوں نے11 اکتوبر 1936 کو ہڑتال ختم کر دی۔
اس مفاہمت کے لیے بننے والے کمیشن نے8 جولائی1937 کو اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ عرب آزادی کے خواہاں تھے اور فلسطین کو ایک آزاد عرب ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ صیہونی عزائم سے سخت نفرت کرتے ہیں اور برطانوی انتداب قابل قبول نہیں ہے اوراب ضرورت اس امر کی ہے کہ عربوں اور یہودیوں کے درمیان پائیدار امن کے لیے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے اور یہ تقسیم ہوئی ہندوستان پاکستان کی تقسیم کی طرح ناجائز اور جانبداری پر مبنی، کیونکہ وہاں بھی برطانیہ تھا اور یہاں بھی'' فریب کاروں کا ٹولہ'' جس میں ساحلی پٹی، یافہ، تل ابیب اور یروشلم کے اہم شہر یہودیوں کی جھولی میں ڈال دیے گئے۔
بیت المقدس، بیت الاحم اور دیگر مقدس مقامات مثلا ناصریہ اور جھیل طبریہ برطانوی حکومت کے تحت جو ان مقامات کی عظمت و اہمیت سے بالکل نابلد اور ناآشنا ہیں۔ باقی ماندہ علاقہ عربوں کے حصے میں آئے اور پھر وہی فتنہ کہ دونوں آزاد ریاستیں ایک دفعہ پھر برطانوی عملداری میں رکھنے کی سفارش کی گئی تاکہ یہ ہمیشہ محکوم رہیں، ان کے دست نگر ہوکر اور یوں ایک دفعہ پھر صیہونی اور برطانوی سامراجی عزائم کھل کر سامنے آگئے اور برطانیہ کی ہمیشہ کی طرح فریب کاری کا پردہ چاک ہوگیا۔
فلسطین ہمیشہ سے ایک مسلم اکثریتی ملک تھا، ہے اور رہے گا۔ سرزمین انبیاء ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے انتہائی محترم یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول۔ برطانیہ کی ہمیشہ کی خواہش و سازش کے تحت اب یہ علاقہ غیر مسلموں کے سپرد کیا جا رہا ہے جب کہ یہ مشرق و مغرب کے سنگم پر واقع ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جیسی نایاب قوت کو شکست کسی غیر مسلم کے ہاتھوں میں کبھی ہو ہی نہیں سکتی، اس سے ہمیشہ اس کے اپنے ہم مذہبوں کی منافقانہ سازشوں نے نقصان پہنچایا، اگر عرب ترکوں کے خلاف برطانیہ اور اتحادیوں کا ساتھ نہ دیتے محض اقتدارکی نورا کشتی کے لیے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ایک مسلمان اگر تکلیف میں ہو تو سارے عالم اسلام کو اس کی تکلیف محسوس ہونی چاہیے اور اسی اتحاد کی بدولت مسلمانان عالم عظمت رفتہ حاصل کرسکتے ہیں۔
مسلمانوں کو اب جس قدر اس اتحاد کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ مسلمانان عالم اسلام کو درپیش مسائل اور خطرات کا مقابلہ صرف اسی اتحاد کی بدولت کرسکتے ہیں۔ اس اہم ترین مسئلے پر پوری امت مضطرب ہے۔ عربوں کے علاقے فلسطین میں یہود کی آمد اور ان کی آبادکاری برطانیہ کی ایک سازش تھی جس کے زیر اثر وہ ہر جگہ سے نکالے جانے والی قوم کو ایک وطن دینا چاہتے تھے اور یہ منافقانہ عزائم اب پورے طور پر کھل چکے ہیں۔ اس لیے خدارا تمام اسلامی ممالک اس لاوارث کو تسلیم کرنے سے اجتناب کریں۔
عربوں اور صیہونیوں کے مقاصد اور مفادات بالکل متضاد ہیں اور برطانیہ تو محض جمعیت اقوام کے انتداب کے بے مقصد حصول کے لیے قابض ہے جب کہ جمعیت اقوام دراصل ایک فرانسیسی ادارہ ہے جس کا مقصد صرف اسلامی ملکوں کے حصے بخرے کر کے انھیں کمزور سے کمزور ترکرنا ہے اور یہ یہودیوں کا ملک بھی نہیں کیونکہ یہود تو عربوں کی آمد سے بہت پہلے اپنی مرضی سے اس خطے سے نکل گئے تھے اور صیہونیت کوئی مذہبی تحریک نہیں بلکہ یہ صرف سیدھے سادے مسلمانوں سے ان کی آفاقی اقدار سے فائدہ اٹھانے کے پیش نظر اراضی زمین ہڑپنے اور ان کے سچے جذبات سے کھیلنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ دور حاضرمیں حماس نے جو کچھ کیا وہ سو فیصد درست عمل تھا چونکہ اب برسوں سے جاری یہودونصاریٰ کی فریب کاری کا اختتام ہونا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
برطانیہ کی اس شیطانی اصطلاح کا مقصد یہ تھا کہ مقامی باشندے وقت آنے پر بغیرکسی بیرونی مدد کے اپنے ملک کا نظم و نسق چلا سکیں جب کہ اس خصوصیت والی اصطلاح کا جوازکچھ اس طرح ان یہود و نصاریٰ نے پیش کیا کہ اس علاقے کے باسی منتشر اور پسماندہ ہیں تو اس لیے انھیں اس انتداب (Mandate) کے تحت رہنا ضروری ہے۔
عربوں نے بہ حالت مجبوری اس اصطلاح کو اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ آگے چل کر عربوں کو مکمل آزادی دے دی جائے گی اور سالانہ تین ہزار یہودیوں سے زیادہ کو فلسطین میں آباد نہ ہونے دیا جائے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ یہودی قوم نے کبھی بھی معاہدوں کی پاسداری نہیں کی اور ہوا بھی یہی، غیر قانونی طور پر ناجائز ذرایع سے ہزاروں کی تعداد میں یہودی برطانوی حکمرانوں کی ایماء پر آتے رہے اور آباد ہوتے رہے۔
مسلمانوں کے خلاف یہود کی اس منظم سازش میں دھن دولت پانی کی طرح بہائی جا رہی تھی جس کی بناء پر دھونس اور دھاندلی کو ہتھیار بنا کر عربوں کی زمینوں پر یہ قابض ہوتے گئے۔ برطانوی حکمرانوں کے بل پر یہودی صدیوں سے آباد عربوں کے مکانات اور زمینوں پر قابض ہوجاتے اور عرب اپنے ہی وطن میں مہاجرین کی سی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
انبیاء کی سر زمین جہاں امام الانبیاء اور امام الاقبلتین نے سفر معراج پر جانے سے قبل انبیاء کی جماعت کی امامت فرمائی اور جو صدیوں سے امن و سکون کا گہوارہ تھی صیہونیت کے منحوس قدموں کی آمد کے ساتھ لاتعداد عذاب و مصائب ظلم و ناانصافی کا ٹھکانہ بن گئی ہے۔
آفرین ہے وہاں کے حقیقی جانشینوں پر جو اپنے کلمے کی سربلندی کے لیے ایک طرف یہودیوں سے اور دوسری طرف برطانوی امریکیوں سے دست و پیکارہیں۔ خدائے بزرگ کے فضل سے ان کے حوصلوں کی ایمانی طاقت کو کفرکی قوتیں شکست دینے سے عاجز ہیں۔ آج بھی برطانیہ نے انھیں انتداب کے زیر تسلط رکھا ہوا ہے جس کے تحت عربوں کے ساتھ ناانصافیاں مسلسل جاری ہیں۔
1921میں پہلا فساد ہوا اور یہ لامتناہی سلسلہ بتدریج جاری و ساری ہے جس کی اصل جڑ برطانوی حکومت کی جانبدارانہ پالیسیاں ہیں جو صورتحال کو بد سے بدتر بنا رہی ہیں۔ فلسطین پر صیہونیوں کا دعویٰ محض سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے تھا، ورنہ یہودی دوہزارسال قبل مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس عظیم سرزمین سے بے دخل کر دیے گئے تھے۔
برطانوی حکومت کی ہر ممکن ناجائز مدد جس میں اسلحے کی فراہمی، انتہائی اہمیت کی حامل امداد جس کی وجہ سے عربوں اور یہودیوں کے درمیان وسیع پیمانے پر فسادات ہوتے رہے بالاخر عربوں نے منظم جدوجہد کے لیے عرب قومی محاذ قائم کی جس کے زیر انتظام ملک بھر میں ہڑتال کی گئی۔
مفتی اعظم فلسطین امین الحسنی کی صدارت میں عربوں نے برطانوی حکومت اور یہودیوں سے عدم تعاون کیا، جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ کی کہ گویا پورا ملک فوجی کیمپ بن گیا۔ بلاخر عربوں کی اعلیٰ قیادت کی مداخلت اور اصرار سے عربوں نے11 اکتوبر 1936 کو ہڑتال ختم کر دی۔
اس مفاہمت کے لیے بننے والے کمیشن نے8 جولائی1937 کو اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ عرب آزادی کے خواہاں تھے اور فلسطین کو ایک آزاد عرب ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ صیہونی عزائم سے سخت نفرت کرتے ہیں اور برطانوی انتداب قابل قبول نہیں ہے اوراب ضرورت اس امر کی ہے کہ عربوں اور یہودیوں کے درمیان پائیدار امن کے لیے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے اور یہ تقسیم ہوئی ہندوستان پاکستان کی تقسیم کی طرح ناجائز اور جانبداری پر مبنی، کیونکہ وہاں بھی برطانیہ تھا اور یہاں بھی'' فریب کاروں کا ٹولہ'' جس میں ساحلی پٹی، یافہ، تل ابیب اور یروشلم کے اہم شہر یہودیوں کی جھولی میں ڈال دیے گئے۔
بیت المقدس، بیت الاحم اور دیگر مقدس مقامات مثلا ناصریہ اور جھیل طبریہ برطانوی حکومت کے تحت جو ان مقامات کی عظمت و اہمیت سے بالکل نابلد اور ناآشنا ہیں۔ باقی ماندہ علاقہ عربوں کے حصے میں آئے اور پھر وہی فتنہ کہ دونوں آزاد ریاستیں ایک دفعہ پھر برطانوی عملداری میں رکھنے کی سفارش کی گئی تاکہ یہ ہمیشہ محکوم رہیں، ان کے دست نگر ہوکر اور یوں ایک دفعہ پھر صیہونی اور برطانوی سامراجی عزائم کھل کر سامنے آگئے اور برطانیہ کی ہمیشہ کی طرح فریب کاری کا پردہ چاک ہوگیا۔
فلسطین ہمیشہ سے ایک مسلم اکثریتی ملک تھا، ہے اور رہے گا۔ سرزمین انبیاء ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے انتہائی محترم یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول۔ برطانیہ کی ہمیشہ کی خواہش و سازش کے تحت اب یہ علاقہ غیر مسلموں کے سپرد کیا جا رہا ہے جب کہ یہ مشرق و مغرب کے سنگم پر واقع ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جیسی نایاب قوت کو شکست کسی غیر مسلم کے ہاتھوں میں کبھی ہو ہی نہیں سکتی، اس سے ہمیشہ اس کے اپنے ہم مذہبوں کی منافقانہ سازشوں نے نقصان پہنچایا، اگر عرب ترکوں کے خلاف برطانیہ اور اتحادیوں کا ساتھ نہ دیتے محض اقتدارکی نورا کشتی کے لیے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ایک مسلمان اگر تکلیف میں ہو تو سارے عالم اسلام کو اس کی تکلیف محسوس ہونی چاہیے اور اسی اتحاد کی بدولت مسلمانان عالم عظمت رفتہ حاصل کرسکتے ہیں۔
مسلمانوں کو اب جس قدر اس اتحاد کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ مسلمانان عالم اسلام کو درپیش مسائل اور خطرات کا مقابلہ صرف اسی اتحاد کی بدولت کرسکتے ہیں۔ اس اہم ترین مسئلے پر پوری امت مضطرب ہے۔ عربوں کے علاقے فلسطین میں یہود کی آمد اور ان کی آبادکاری برطانیہ کی ایک سازش تھی جس کے زیر اثر وہ ہر جگہ سے نکالے جانے والی قوم کو ایک وطن دینا چاہتے تھے اور یہ منافقانہ عزائم اب پورے طور پر کھل چکے ہیں۔ اس لیے خدارا تمام اسلامی ممالک اس لاوارث کو تسلیم کرنے سے اجتناب کریں۔
عربوں اور صیہونیوں کے مقاصد اور مفادات بالکل متضاد ہیں اور برطانیہ تو محض جمعیت اقوام کے انتداب کے بے مقصد حصول کے لیے قابض ہے جب کہ جمعیت اقوام دراصل ایک فرانسیسی ادارہ ہے جس کا مقصد صرف اسلامی ملکوں کے حصے بخرے کر کے انھیں کمزور سے کمزور ترکرنا ہے اور یہ یہودیوں کا ملک بھی نہیں کیونکہ یہود تو عربوں کی آمد سے بہت پہلے اپنی مرضی سے اس خطے سے نکل گئے تھے اور صیہونیت کوئی مذہبی تحریک نہیں بلکہ یہ صرف سیدھے سادے مسلمانوں سے ان کی آفاقی اقدار سے فائدہ اٹھانے کے پیش نظر اراضی زمین ہڑپنے اور ان کے سچے جذبات سے کھیلنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ دور حاضرمیں حماس نے جو کچھ کیا وہ سو فیصد درست عمل تھا چونکہ اب برسوں سے جاری یہودونصاریٰ کی فریب کاری کا اختتام ہونا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔