ہماری قومی ثقافت کا اسلامی پہلو ایک تعارف

بدقسمتی سے مغربی تہذیبی بالادستی کے نتیجے میں اس کے اثرات ہمارے معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں


جبار قریشی January 21, 2024
[email protected]

گزشتہ دنوں میرا ایک کالم بہ عنوان '' قومی ثقافت کا فروغ ضروری کیوں'' روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوا۔ اس کی اشاعت کے دو روز بعد میری ملاقات میرے ایک بہت عزیز دوست سے ہوئی جو کراچی یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں، انھوں نے میرے کالم پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہارکیا۔

ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ آپ نے اپنی تحریر میں ہماری قومی ثقافت پر جو اسلامی اثرات ہیں اس کو مکمل نظرانداز کردیا، یہ ایک اہم پہلو ہے جس کو نظرانداز کر کے نہ ہی ہماری قومی ثقافت کے خدوخال واضح ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے مفہوم کو سمجھا جا سکتا ہے۔

میرے محترم دوست نے اس حوالے سے جو نکات پیش کیے ہیں وہ میں اپنے تحریری اسلوب میں قارئین کی نظر کرتا ہوں۔

میرے محترم دوست کہتے ہیں کہ جب کوئی نظام فکر کسی معاشرے کی روح بن جاتا ہے تو اس معاشرے کی ثقافت اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اس طرح ثقافت کسی نظام فکر کے طرز زندگی کے مجموعی صورتوں کا نام ہے۔

مذہب کو ٹھوس معنی میں بیان کیا جائے تو یہ عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات و احکام اور رسوم کا مجموعے کا نام ہے یہ اس کا ظاہری پہلو ہے۔ اس کا ایک باطنی پہلو بھی ہے جسے ایمان کا نام دیا جاتا ہے جو ایک قلبی کیفیت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تہذیب میں انسانی طرز زندگی خارجی اور داخلی طور پر مذہب کے زیر اثر ہوتی ہے۔

اسلام کے نزدیک کلچر یا طرز زندگی مذہب کا حصہ ہے اسے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر مسلم معاشرہ ہے۔ اس وجہ سے ہماری قومی ثقافت پر مذہب اسلام ہماری تمام زندگی پر حاوی ہے۔ ہمارا ادب، فلسفہ، معاشرت، ہمارے خیالات اور عقائد اور فنون لطیفہ سب کچھ مذہب کے زیر اثر ہے۔

ہمارے ادب کو پڑھ کرکوئی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس پر اسلامی فکر کے اثرات ہیں۔ ہمارے ادب میں خیام، حافظ، سعدی اور رومی کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں، خواہ اس کا جغرافیائی مرکز کہیں پر بھی ہو، وہ ہماری ادبی روایات کا حصہ ہے۔ اس وجہ سے مسلم حکمرانوں کی تعمیرات بھی ہمارا تہذیبی ورثہ ہیں۔ ہماری تاریخ اسلام کے ساتھ منسلک ہے۔ آپ ہمارے طرز زندگی کا مشاہدہ کر لیں عورتوں کے لباس میں اسلام کا تصور حیا کا تصور کارفرما نظر آئے گا۔

یہی وجہ ہے کہ لباس کے حوالے سے عریانی، بے حیائی اور نمائش جسم سے گریز کیا جاتا ہے۔ کھانوں میں حرام اور حلال کے تصور کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔دوران گفتگو انشا اللہ اور ماشا اللہ کے الفاظ ادا کر کے گفتگو کے وقار کو بڑھایا جاتا ہے۔ سماجی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں کا آغازکرتے ہیں تو خیر و برکت کے لیے اس کا آغاز تلاوت کلام پاک اور دعا کے ساتھ کرتے ہیں۔ نو مولود کے کان میں اذان دینا اور عورتوں کا اذان کی آواز سن کر سروں کو ڈھانپ لینا ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔

دماغی مشغلے کے لیے عقیدے کی بحث ہوتی ہے ان کے موضوعات بھی بیش تر مذہبی ہوتے ہیں پاکی اور ناپاکی کے حوالے سے اسلام کے آداب، طہارت اور قوانین سے رہنمائی لی جاتی ہے، شراب کو ناپسند کیا جاتا ہے، موسیقی اور اوباشی کے درمیان فاصلے کو ضروری سمجھا گیا ہے، نعت گوئی، مرثیہ گوئی بھی ہماری قومی زندگی کی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہے۔

غرض پیدائش سے لے کر شادی بیاہ اور شادی بیاہ سے لے کر موت تک سارے رسوم و رواج اسلامی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اور ہماری قومی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں۔ بعض عناصر اسلامی طرز زندگی کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ یہ گھٹن زدہ، بے جان، بے رنگ اور پھیکی ہے اس میں خوشی اور تفریح کی گنجائش نہیں۔ یہ تصور غلط فہمی پر مبنی ہے اسلامی طرز زندگی میں خوشی اور پر مسرت زندگی کے تمام پہلو موجود ہیں مگر یہ سب کچھ اصولوں اور ضابطوں کے زیر اثر ہیں۔

اسلام کے نزدیک دنیا کی جو خوشی دوسروں کو تکلیف پہنچا کر اور غریب کا استحصال کرکے حاصل ہوتی ہے وہ خوشی '' خوشی'' نہیں ہوتی بلکہ جان کا روگ اور ضمیر پر بوجھ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام بے راہ روی کا سخت مخالف ہے اور بے لگام آسائش کے تمام رجحانات کی نفی کرتا ہے۔جب کوئی قوم ملی تہذیب کا روپ دھار لیتی ہے تو اسے جذباتی نعرے سے مذہب سے دور نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کی لبرل اور سیکولر جماعتیں بھی اپنے منشور میں مذہب کو بنیادی حیثیت دینے پر مجبور ہیں۔

بدقسمتی سے مغربی تہذیبی بالادستی کے نتیجے میں اس کے اثرات ہمارے معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ مغرب ایک مادہ پرست معاشرہ ہے، مغربی ذہن میں مادیت پرستی کو اولین حیثیت حاصل ہے جب کہ اسلامی معاشرے کی بنیاد روح پر رکھی گئی ہے۔ مادہ پرست معاشرے میں انسان نفسانی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں انسان بے سکونی کے دلدل میں پھنس جاتا ہے، آج ہمارا معاشرہ اسی صورتحال کا شکار ہے ہمارا معاشرہ روحانی طور پر بانجھ ہوتا جا رہا ہے۔

مادیت کے فروغ باعث ہمارے یہاں منفی قدریں فروغ پا رہی ہیں۔ خود غرضی، لالچ، ہوس زر اور چھوٹی نمائش ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتی جارہی ہیں، ان مسائل سے نجات کے لیے ہمیں عوام کے تعلق کو مذہب سے جوڑنا ہوگا۔ مذہب ہی وہ واحد قوت ہے جو انسان میں خود احتسابی کا نظام قائم کر کے اسے منفی قدروں سے باز رکھتا ہے۔میرے دوست کی جانب سے یہ تمام نکات پیش کیے گئے ہیں یہ کس حد تک درست ہیں اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔

میں اپنے کالم میں اس بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ میرے نزدیک کلچر جغرافیائی حالات کی پیداوار ہوتا ہے جو ایک خاص جغرافیائی وحدت کے اندر رونما ہوتا ہے اور زمینی اور مذہبی اثرات کے باہم ملنے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو تمام مسلم ممالک کا ثقافتی اور تہذیبی کلچر ایک جیسا ہوتا۔ دنیا کے تمام مسلم ممالک اپنا جداگانہ تہذیبی اور ثقافتی پس منظر رکھتے ہیں جس سے انکار ممکن نہیں۔

ہماری قومی ثقافت بھی جغرافیائی اور مذہبی عناصر کے باہم ملنے سے وجود میں آئی ہے۔ اس حوالے سے دونوں عناصرکی حیثیت مسلمہ ہے اس میں سے کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں