جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
کیا آج بھی انسان کو ٹکڑیوں میں بانٹ کر صنعت و حرفت کی ترقی سے محروم کر دیا جائے گا؟
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
لاتعداد جنگوں سے نبرد آزما انسان کیا، اس جدید ٹیکنالوجی یا دکھائی جانے والی ترقی کے دور میں بھی امن کی بات نہیں کرسکتا، کیا آج کا فرد انسانوں کی تقسیم پر ماتم کرنے سے بھی گریزاں رہے گا، کیا بھوک اور افلاس سے جنگ نہیں کی جا سکتی؟ کیا سرحدی حد بندیاں انسان کے وقار اور اس کی حرمت کو چباتی رہیں گی؟
کیا آج بھی انسان کو ٹکڑیوں میں بانٹ کر صنعت و حرفت کی ترقی سے محروم کر دیا جائے گا؟ کیا ہم آج بھی ہیرو شیما، ناگا ساکی اور ہلاکو و چنگیزی ظلم کے شکار ہوتے رہیں گے؟ کیا ہم نسل کے تخلیقی سوتوں کو پھوٹنے سے قبل ہی مرجھا دینے پر مجبور کر دیں گے؟ کیا ہم آج بھی جذبات کی عنایات سے ذہنی مفلوج نسل کو جنم دیتے رہیں گے؟ کیا ہماری تاریخ اور ادب کے ان امن پسند گوشوں کو دریا برد کیا جاتا رہے گا، جن کی روشنی سے پیار خلوص، قربت اور امن کے گیت گنگناتے ہیں؟
یاد رکھو ایسا ہونے والا نہیں ہے، امن کی قوت نہ توپ و تفنگ سے کمزور ہوگی اور نہ ہی پسے ہوئے طبقات اپنی بہتر زندگی پانے کی جدوجہد سے پیچھے ہٹیں گے، یہ بھی یاد رکھنا کہ مہلک ہتھیاروں کے ہر اس کہن کو مٹانے والے موجود ہیں جو کہ بے ہنگم سرمایہ داری کے جبڑے چیر پھاڑ کر پرامن بقائے باہمی کے پھریرے لہرائیں گے۔
ہمیں یاد ہے کہ تم نے امن کی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا، جبر کے منہ میں بارود کے انگارے بھرے، نسل کو اپنے حرص و لالچ میں طاقت کی بنیاد پر تہہ تیغ کیا، مگر 19ویں صدی کے ساحر لدھیانوی کے '' امن پرور''سفر کو نہ روک سکے، ہم تمہارے ان خنجروں سے بھی واقف ہیں جو تم دھوکا دہی کے لیے چھپائے پھرتے ہو، ہم تمہارے دہرے عمل سے واقف بھی ہیں اور تمہارے چہروں سے قطعی مرعوب بھی نہیں، کیونکہ ہم ترقی پسند فکر کے وہ سر پھرے ہیں، جو اپنے افلاس اور تنگ دستی میں بھی شعور کے ساتھاری رہتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ تم سروں کے مینار بنانیوالے اور تہذیب کو لٹیرے ہو، قاچاری نسل کے وہ پہلوی ہو جس کے ظلم و جبر کی کوکھ سے نکل کر انسانوں کے حقوق غصب کرنے کا چوغا پہنے دندنا رہے ہیں ، مگر توپ و تفنگ کا یہ کھیل اب چلنے والا نہیں، سمجھائے دیتا ہوں کہ بھوک و افلاس کے قافلوں کی تعداد تمہاری سرمایہ دارانہ خرمستیوں سے بہت اچھی طرح نہ صرف واقف ہے بلکہ بھوک و افلاس کے یہ قافلے عالمی سطح پر صف بندیوں میں مصروف عمل ہیں، اور ایک روز بھوک و افلاس کے یہ '' پرامن قافلے'' تمہاری ساری امارات اور توپ و تفنگ کی طاقت کو مسمار کر کے سارے جگ میں امن و آشتی کے گیت گنگنائیں گے۔
یہ وہ وقت ہوگا کہ نہ کسی کا تاج بچے گا اور نہ کسی کی طاقت کا زعم، اب بھی وقت ہے کہ افلاس سے دوچار انسانوں کے خالی ہاتھوں کی طاقت سے عالم کو محبت، شعور اور تہذیب سے آراستہ کرو اور حق و سچ کی شمعیں پر امن انسان کو روشن کرنے دو، تمہیں یاد تو ہوگا کہ انھی افلاس زدہ انسانوں نے نہ ہی '' جنگی ہلاکو '' رہنے دیا اور نہ ہی ظالم شداد اور نمرود بچ سکے، اب بھی وقت ہے کہ سرحدی قید میں بند امن کو جنگ کے مقابلے میں عام کرو، وگرنہ خس و خاشاک ہوجائو گیا اور بے نام و نشان تاریخ کا عبرتناک حوالہ ہی رہو گے۔
ہماری تو پرکھائی نسلوں نے تاتاریوں کے قتل و غارت تک کا مقابلہ کیا اور '' امن پسند'' عوام کے شعور کو صیقل کرکے تاتاریوں کے جنگ وجدل سے بھرے غلیظ ارادوں کو شکست دی گو کہ ہم نہتے مگر'' امن ''کے طاقتور ہتھیار سے لیس تھے، مگر ہر اس ''جنگی کیفیت'' کو ہماری مرضی و منشا کے بغیر ہم پر تھوپ دیا جاتا ہے جو ہماری بقا اور امن سلامتی کو نشانہ بنائے۔
خطے کے جنگی ماحول میں آج مارکسی دانشور سبط حسن کی معرکتہ الآرا کتاب '' انقلاب ایران''کے وہ باب ،ِحواشی اور تاریخی سچائی آج بھی اپنے قلمی شعور کے ساتھ تازہ ہے جس میں مارکسی دانشور سبط حسن نے 1979 کے ایران اور وہاں کی سیاسی ہلچل کے مضمرات اور بعد از انقلاب کے بعد کے نظام کے بارے میں لکھا۔
سبط حسن نے انقلاب ایران سے پہلے کے دور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ '' رضا شاہ نے دولت اقتدار کی ہوس میں ایران کی آزادی اور ساڑھے تین کروڑ ایرانیوں کے جان و مال، عزت و آبرو کو دائو پر لگا دیا، رضا شاہ نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے آخری حربہ کے طور پر کہنا شروع کر دیا کہ اس تحریک کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے جو میری تیل کی پالیسی کے خلاف ہے، مگر وہ شخص جو امریکا کے سایہ عافیت میں حکومت کر رہا ہو اس کی امریکا دشمنی پر کس کو اعتبار آتا، سو رضا شاہ کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور '' انقلاب ایران'' کے غلغلے نے ایران میں اپنے قدم جمانے شروع کیے، لوگوں کی یہ توقعات بے جا نہ تھیں کہ انقلاب ایران کی از سر نو تعمیر میں تمام مکتبہ فکر کو فریق بنائیں گے، مگر 6 ماہ کے اندر قومی تقاضوں کو پس و پشت ڈال کر اپنے مخالفین سے انتقام لینا شروع کردیا گیا۔
اسلامی غلغلے پر مبنی انقلاب ایران نے برسر اقتدار آتے ہی سب سے پہلا حملہ عورتوں کی آزادی پر کرتے ہوئے حکم دیا کہ '' چادر اوڑھ کر نکلو بلکہ بہتر ہے کہ گھروں کے اندر بیٹھو '' اس عجیب و غریب منطق کے خلاف سڑکوں پر لاٹھیاں اورگولیاں کھانے والی خواتین تین روز تک سراپا احتجاج رہیں اور آخرکار یہ حکم واپس لینا پڑا۔ انقلاب میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے طلبا نے تہران یونیورسٹی کے فٹبال گرائونڈ میں لاکھوں کے اجتماع میں مطالبہ کیا کہ کابینہ میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندے شامل کیے جائیں، اس کے جواب میں ان طلبا کو اسلام دشمن اور بے دین ہونے کی سند دی گئی،گو انقلاب ایران والے ان بے دینوں کے کندھوں پر سوارہوکر اقتدار کی دہلیز تک پہنچے تھے۔
انقلاب کے عتاب میں سب سے پہلے روزنامہ ''آیندگان'' پر پابندی لگائی گئی، جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے نشرو اشاعت کے سربراہ صادق قطب زادہ کی شاہ پرستی کو دستاویزات کے ذریعے افشا کیا تھا، اسی طرح ایران کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اخبار'' کیہان انٹرنیشنل'' کو اظہارکی آزادی دلوانے کی پاداش میں بند کرکے سزا دی گئی، ملک کا نیا آئین منتخب شدہ مجلس آئین ساز ادارے کے بجائے چپکے سے تیار ہو کر وزیر داخلہ کے ذریعے منظر عام پر لایا گیا۔ ذرا غورکیجیے کہ وہ دو ریاستیں جنگی جنون کے سینگ اٹکانے کی کوشش میں ہیں، جب کہ دنیا میں اور جنون اور جبر و استبداد مضبوط کرنے والا امریکا درمیان میں بیٹھا عوام کے حقوق اور امن کی بے سری بانسری بجا رہا ہے۔
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
لاتعداد جنگوں سے نبرد آزما انسان کیا، اس جدید ٹیکنالوجی یا دکھائی جانے والی ترقی کے دور میں بھی امن کی بات نہیں کرسکتا، کیا آج کا فرد انسانوں کی تقسیم پر ماتم کرنے سے بھی گریزاں رہے گا، کیا بھوک اور افلاس سے جنگ نہیں کی جا سکتی؟ کیا سرحدی حد بندیاں انسان کے وقار اور اس کی حرمت کو چباتی رہیں گی؟
کیا آج بھی انسان کو ٹکڑیوں میں بانٹ کر صنعت و حرفت کی ترقی سے محروم کر دیا جائے گا؟ کیا ہم آج بھی ہیرو شیما، ناگا ساکی اور ہلاکو و چنگیزی ظلم کے شکار ہوتے رہیں گے؟ کیا ہم نسل کے تخلیقی سوتوں کو پھوٹنے سے قبل ہی مرجھا دینے پر مجبور کر دیں گے؟ کیا ہم آج بھی جذبات کی عنایات سے ذہنی مفلوج نسل کو جنم دیتے رہیں گے؟ کیا ہماری تاریخ اور ادب کے ان امن پسند گوشوں کو دریا برد کیا جاتا رہے گا، جن کی روشنی سے پیار خلوص، قربت اور امن کے گیت گنگناتے ہیں؟
یاد رکھو ایسا ہونے والا نہیں ہے، امن کی قوت نہ توپ و تفنگ سے کمزور ہوگی اور نہ ہی پسے ہوئے طبقات اپنی بہتر زندگی پانے کی جدوجہد سے پیچھے ہٹیں گے، یہ بھی یاد رکھنا کہ مہلک ہتھیاروں کے ہر اس کہن کو مٹانے والے موجود ہیں جو کہ بے ہنگم سرمایہ داری کے جبڑے چیر پھاڑ کر پرامن بقائے باہمی کے پھریرے لہرائیں گے۔
ہمیں یاد ہے کہ تم نے امن کی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا، جبر کے منہ میں بارود کے انگارے بھرے، نسل کو اپنے حرص و لالچ میں طاقت کی بنیاد پر تہہ تیغ کیا، مگر 19ویں صدی کے ساحر لدھیانوی کے '' امن پرور''سفر کو نہ روک سکے، ہم تمہارے ان خنجروں سے بھی واقف ہیں جو تم دھوکا دہی کے لیے چھپائے پھرتے ہو، ہم تمہارے دہرے عمل سے واقف بھی ہیں اور تمہارے چہروں سے قطعی مرعوب بھی نہیں، کیونکہ ہم ترقی پسند فکر کے وہ سر پھرے ہیں، جو اپنے افلاس اور تنگ دستی میں بھی شعور کے ساتھاری رہتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ تم سروں کے مینار بنانیوالے اور تہذیب کو لٹیرے ہو، قاچاری نسل کے وہ پہلوی ہو جس کے ظلم و جبر کی کوکھ سے نکل کر انسانوں کے حقوق غصب کرنے کا چوغا پہنے دندنا رہے ہیں ، مگر توپ و تفنگ کا یہ کھیل اب چلنے والا نہیں، سمجھائے دیتا ہوں کہ بھوک و افلاس کے قافلوں کی تعداد تمہاری سرمایہ دارانہ خرمستیوں سے بہت اچھی طرح نہ صرف واقف ہے بلکہ بھوک و افلاس کے یہ قافلے عالمی سطح پر صف بندیوں میں مصروف عمل ہیں، اور ایک روز بھوک و افلاس کے یہ '' پرامن قافلے'' تمہاری ساری امارات اور توپ و تفنگ کی طاقت کو مسمار کر کے سارے جگ میں امن و آشتی کے گیت گنگنائیں گے۔
یہ وہ وقت ہوگا کہ نہ کسی کا تاج بچے گا اور نہ کسی کی طاقت کا زعم، اب بھی وقت ہے کہ افلاس سے دوچار انسانوں کے خالی ہاتھوں کی طاقت سے عالم کو محبت، شعور اور تہذیب سے آراستہ کرو اور حق و سچ کی شمعیں پر امن انسان کو روشن کرنے دو، تمہیں یاد تو ہوگا کہ انھی افلاس زدہ انسانوں نے نہ ہی '' جنگی ہلاکو '' رہنے دیا اور نہ ہی ظالم شداد اور نمرود بچ سکے، اب بھی وقت ہے کہ سرحدی قید میں بند امن کو جنگ کے مقابلے میں عام کرو، وگرنہ خس و خاشاک ہوجائو گیا اور بے نام و نشان تاریخ کا عبرتناک حوالہ ہی رہو گے۔
ہماری تو پرکھائی نسلوں نے تاتاریوں کے قتل و غارت تک کا مقابلہ کیا اور '' امن پسند'' عوام کے شعور کو صیقل کرکے تاتاریوں کے جنگ وجدل سے بھرے غلیظ ارادوں کو شکست دی گو کہ ہم نہتے مگر'' امن ''کے طاقتور ہتھیار سے لیس تھے، مگر ہر اس ''جنگی کیفیت'' کو ہماری مرضی و منشا کے بغیر ہم پر تھوپ دیا جاتا ہے جو ہماری بقا اور امن سلامتی کو نشانہ بنائے۔
خطے کے جنگی ماحول میں آج مارکسی دانشور سبط حسن کی معرکتہ الآرا کتاب '' انقلاب ایران''کے وہ باب ،ِحواشی اور تاریخی سچائی آج بھی اپنے قلمی شعور کے ساتھ تازہ ہے جس میں مارکسی دانشور سبط حسن نے 1979 کے ایران اور وہاں کی سیاسی ہلچل کے مضمرات اور بعد از انقلاب کے بعد کے نظام کے بارے میں لکھا۔
سبط حسن نے انقلاب ایران سے پہلے کے دور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ '' رضا شاہ نے دولت اقتدار کی ہوس میں ایران کی آزادی اور ساڑھے تین کروڑ ایرانیوں کے جان و مال، عزت و آبرو کو دائو پر لگا دیا، رضا شاہ نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے آخری حربہ کے طور پر کہنا شروع کر دیا کہ اس تحریک کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے جو میری تیل کی پالیسی کے خلاف ہے، مگر وہ شخص جو امریکا کے سایہ عافیت میں حکومت کر رہا ہو اس کی امریکا دشمنی پر کس کو اعتبار آتا، سو رضا شاہ کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور '' انقلاب ایران'' کے غلغلے نے ایران میں اپنے قدم جمانے شروع کیے، لوگوں کی یہ توقعات بے جا نہ تھیں کہ انقلاب ایران کی از سر نو تعمیر میں تمام مکتبہ فکر کو فریق بنائیں گے، مگر 6 ماہ کے اندر قومی تقاضوں کو پس و پشت ڈال کر اپنے مخالفین سے انتقام لینا شروع کردیا گیا۔
اسلامی غلغلے پر مبنی انقلاب ایران نے برسر اقتدار آتے ہی سب سے پہلا حملہ عورتوں کی آزادی پر کرتے ہوئے حکم دیا کہ '' چادر اوڑھ کر نکلو بلکہ بہتر ہے کہ گھروں کے اندر بیٹھو '' اس عجیب و غریب منطق کے خلاف سڑکوں پر لاٹھیاں اورگولیاں کھانے والی خواتین تین روز تک سراپا احتجاج رہیں اور آخرکار یہ حکم واپس لینا پڑا۔ انقلاب میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے طلبا نے تہران یونیورسٹی کے فٹبال گرائونڈ میں لاکھوں کے اجتماع میں مطالبہ کیا کہ کابینہ میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندے شامل کیے جائیں، اس کے جواب میں ان طلبا کو اسلام دشمن اور بے دین ہونے کی سند دی گئی،گو انقلاب ایران والے ان بے دینوں کے کندھوں پر سوارہوکر اقتدار کی دہلیز تک پہنچے تھے۔
انقلاب کے عتاب میں سب سے پہلے روزنامہ ''آیندگان'' پر پابندی لگائی گئی، جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے نشرو اشاعت کے سربراہ صادق قطب زادہ کی شاہ پرستی کو دستاویزات کے ذریعے افشا کیا تھا، اسی طرح ایران کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اخبار'' کیہان انٹرنیشنل'' کو اظہارکی آزادی دلوانے کی پاداش میں بند کرکے سزا دی گئی، ملک کا نیا آئین منتخب شدہ مجلس آئین ساز ادارے کے بجائے چپکے سے تیار ہو کر وزیر داخلہ کے ذریعے منظر عام پر لایا گیا۔ ذرا غورکیجیے کہ وہ دو ریاستیں جنگی جنون کے سینگ اٹکانے کی کوشش میں ہیں، جب کہ دنیا میں اور جنون اور جبر و استبداد مضبوط کرنے والا امریکا درمیان میں بیٹھا عوام کے حقوق اور امن کی بے سری بانسری بجا رہا ہے۔