سیاسی مایوسی کا موسم کیسے بدلے گا
مایوسی گناہ ہے، مایوسی کا عمل ہمیں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیلتا ہے
مایوسی گناہ ہے، مایوسی کا عمل ہمیں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیلتا ہے اور اگر آپ کچھ کرنا بھی چاہیں توکچھ نہیں ہوتا بلکہ آپ اپنی اس مایوسی کو دوسروں تک بھی منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہمیں مایوسی کے بجائے امید کا دامن قائم رکھنا چاہیے اور اہل دانش کا کام بھی اندھیرے کے مقابلے میں روشنی اور آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کرنا ہونا چاہیے لیکن آج ہم جب اپنے ہی حالات کا جائزہ یا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں مختلف حوالوں یا معاملات پر مایوسی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔
مایوسی کا یہ عمل محض کسی ایک طبقہ تک محدود نہیں بلکہ اوپر سے لے کر نیچے تک تمام طبقات میں ایک ہی سوچ اور فکر غالب نظر آتی ہے۔
اگر ہم مایوس ہوکر بیٹھ جائیں تو ایک تو ہمارے حالات بدلیں گے نہیں بلکہ ان میں اور زیادہ خرابی ہوگی اور دوسرا طاقتور طبقہ اسی بنیاد پر خوش ہوتا ہے کہ لوگ مایوس ہوکر بیٹھ جائیں اور کسی بھی سطح پر ان میں حالات سے مزاحمت کرنے کا جنون پیدا نہ ہو۔ اگرچہ ہمیں یہ ہی منطق اور دلیل دی جاتی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے اور جذباتیت کے مقابلے میں اپنے اندر ٹھہراؤ پیدا کر کے حالات کا مقابلہ کیا جائے۔
یہ بات درست ہے لیکن حالات کا مقابلہ کرنے اور سختیاں برداشت کرنے کے پیچھے لوگوں میں ایک امید اور حالات کی بہتری کا کوئی روڈمیپ ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ حالات کی سختیوں کو جھیلتا ہے لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی سامنے جہاں خود کو حالات کی بنیاد پر بے بس سمجھتا ہے تو دوسری طرف وہ اس ملک کے طاقتور طبقات جو ہر شعبہ میں موجود ہیں، کو مختلف قسم کی مراعاتوں، عیاشیوں، آسائشوں، معاشی خوشحالی اور نئے سے نئے ترقی کے مواقعوں یا ان کی بڑھتی ہوئی دولت یا وسائل کو دیکھتا ہے تو اس کا زخم بھی گہرا ہوتا ہے اور ریاست پر اعتماد بھی کمزوری کا سبب بنتا ہے ۔
آپ ایک عمومی رائے اس ملک میں بڑے سے بڑے طاقتور افراد یا اداروں سے پوچھیں کہ کیا موجودہ سیاسی نظام اور آنے والے عام انتخابات کے نتیجے میں کوئی مثبت تبدیلی افراد یا ریاستی وحکومتی نظام میں ممکن ہوسکے گی، تو جواب نفی میں ملے گا۔ ایک ہی نقطہ نظر سب طبقوں میں بالادست ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ہماری سیاسی، سماجی، معاشی، انتظامی اور ریاستی مشکلات سمیت عام آدمی کی مشکلات میں اور سنگین بحران یا مسائل دیکھنے کو ملیں گے۔
ان کے بقول نئے انتخابات کے نتیجے میں بھی مسائل حل نہیں ہوںگے بلکہ جو سیاسی تقسیم ہر طبقہ میں موجود ہے اس سے اور زیادہ بگاڑ کے پہلو دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ عام آدمی کے پاس سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور اپنے انتخابی امیدواروں پر اعتماد کمزور ہے اور ان کی جذباتی گفتگو، خوش نما نعروں سے عام آدمی کا کوئی پیٹ بھرنے والا نہیں یا ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں۔
یہ خوش فہمی بھی لوگوں میں کمزور ہو رہی ہے کہ یہ ملک، اس کا ریاستی وحکومتی نظام اور اداروں کی سرپرستی میں عام آدمی کا کوئی حصہ ہے۔ ان میں یہ سوچ مضبوط جڑیں پکڑ رہی ہے کہ یہ ملک عام آدمی کا نہیں بلکہ اس ملک کے طاقتور طبقات یا اشرافیہ کا ہے اور ان کی بڑی حیثیت ان تمام طاقتور طبقات کے سامنے سرجھکانے یا ان کی طرف سے دی جانے والی بھیک سے جڑا ہوا ہے کیونکہ جب عام آدمی کا بنیادی حقوق کے حصول سے رشتہ کمزور ہوجائے تو ریاست، عوام اور سماجی معاہدہ کمزور شکل اختیار کرلیتا ہے۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ ہماری قسمت میں یہ موروثی سیاست ہے اور خاندانوں کی سیاست کے سامنے ہماری حیثیت محض ایک تماشائی کی ہے۔
مسئلہ محض عام آدمی یا کمزور آدمی تک محدود نہیں بلکہ اس معاشرے میں پڑھے لکھے افراد جو بڑے بڑے اہم عہدوں پر یا فیصلہ سازی کا حق رکھتے ہیں ان کے سامنے بھی حکمرانی کا نظام آئین و قانون کے مقابلے میں شخصیت کی بالادستی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہ بڑے بڑے عہدیدار لوگ بھی گورننس یا ریاستی و حکومتی فیصلوں میں خود کو بے بس سمجھتے ہیں اور ان فیصلوں پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کو طاقتور اشرافیہ کی جانب سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگر وہ مزاحمت کریں تو نتیجہ میں ملازمت یا عہدوں کے کھوجانے کا خوف ان کا بالادست ہوتا ہے جو خود ان کو بھی عملی طور پر سمجھوتوں کی سیاست پر مجبور کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہاں اچھے لوگ نہیں یا وہ ملک کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے بلکہ اصل بحران یہ ہے کہ ہم عملاً ان کو کوئی موقع دینے کے لیے تیار نہیں اور ان کے مقابلے میں چھوٹے افراد کو بڑے عہدوں پر سجا کر پورے نظام کو ہی یرغمال بنانا ہماری ترجیحات کا حصہ ہے۔
ایک بحران یہ بھی ہے کہ اس ملک میں سوچنے، سمجھنے اور متبادل تبدیلی کا ایجنڈے رکھنے والے افراد اور ریاست میں عملاً موجود طاقتور افراد کی فیصلہ سازی میں ایک بڑی خلیج موجود ہے اس لیے اچھے منصوبے، خیالات، سوچ اور فکر اعلیٰ دماغوں یا ان کی باتیں ردی کی ٹوکری تک ہی محدود ہوجاتی ہیں۔ جب ریاستی نظام اہل دانش سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہی تیار نہیں تو حالات کو کیسے بدلا جاسکتا ہے۔
ریاست نے عملاً حقیقی اہل دانش کے مقابلے میں ایک جعلی اہل دانش کا طبقہ پیدا کرکے اپنے لیے یا اپنی پذیرائی کے لیے گروہ پیدا کرلیا ہے جو ان کی جی حضوری میں پیش پیش نظر آتا ہے۔
اب مسئلہ محض مایوسی کا نہیں بلکہ اس مایوسی کو حالات کی بہتری میں امید یا روشنی کے پہلوؤں کے ساتھ جوڑنے سے ہے۔ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی سوچ، فکر اور حکمت عملی درکار ہے۔ سب سے پہلے اس بنیادی نقطہ پر اتفاق کرنا ہوگا کہ ہمارا یہ بوسیدہ سیاسی، سماجی، قانونی، انتظامی اور معاشی نظا م اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔
ہمیں اس نظام میں آگے بڑھنے کے لیے ایک بڑی سرجری درکار ہے اور یہ اگرچہ مشکل فیصلہ ہے مگر ناگزیر ہے۔ اب لوگوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ہمیں تبدیلی کے لیے غیرمعمولی اقدامات کو ہی بنیاد بنانا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو ہر طرف سے یہ واضح پیغام سیاسی جماعتوں کے اندر سے بھی اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کی جانب سے واضح طور پر جانا چاہیے کہ وہ ان کی ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اس بوسیدہ نظام کی کسی بھی صورت مزید حمایت کی جاسکتی ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا اور نئی نسل کی بنیاد پر یا ان کے باہمی تعلق کے ساتھ اس بحث کو سیاسی، جمہوری، آئینی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہیے کہ ہم موجودہ نظام اور اس کے طور طریقوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم اگرچہ نوجوانوں پر تنقید کی تو بات کرتے ہیں مگر ان میں روایتی سیاسی اور سماجی بیانیہ ٹوٹ رہا ہے، وہ روایتی بنیادوں پر ذات برادری، لسانی، علاقائی، فرقہ وارانہ یا مذہبی بنیادوں پر سوچنے کے بجائے اپنے بہتر مستقبل کو بنیاد بنا کر سوالات اٹھا رہے ہیں یا اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔
یہ ہی نوجوانوں کی طاقت اس وقت روایتی سیاست اور روایتی کرداروں کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج بن گیا ہے کہ کیسے ان نوجوانوں میں موجود سیاسی خیالات یا ردعمل کو لگام دی جاسکے لیکن یہ ممکن نہیں، آپ آوازوں کو روک تو سکتے ہیں، ان میں مزاحمت بھی ممکن ہے مگر یہ روکنے اور مزاحمت کا عمل نئی نسل میں مزید ردعمل کا سیاست کو جنم دے گا۔
ہمارا کام ان نئی نسل میں اٹھنے والی آوازوں کو درست سمت دینا ہے اور ان کو تبدیلی کے لیے سیاسی وجمہوری بنیادوں پر تیار کرنا ہے کیونکہ اقربا پروری، دولت، خاندانی رشتوں یا کرپشن کی بنیاد پر چلنے والا ریاستی نظام مزید آگے نہیں چل سکے گا۔ یہ بات اس ملک کی طاقتور اشرافیہ جتنا جلدی سمجھ لے گی بہتر ہوگا۔
مایوسی کا یہ عمل محض کسی ایک طبقہ تک محدود نہیں بلکہ اوپر سے لے کر نیچے تک تمام طبقات میں ایک ہی سوچ اور فکر غالب نظر آتی ہے۔
اگر ہم مایوس ہوکر بیٹھ جائیں تو ایک تو ہمارے حالات بدلیں گے نہیں بلکہ ان میں اور زیادہ خرابی ہوگی اور دوسرا طاقتور طبقہ اسی بنیاد پر خوش ہوتا ہے کہ لوگ مایوس ہوکر بیٹھ جائیں اور کسی بھی سطح پر ان میں حالات سے مزاحمت کرنے کا جنون پیدا نہ ہو۔ اگرچہ ہمیں یہ ہی منطق اور دلیل دی جاتی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے اور جذباتیت کے مقابلے میں اپنے اندر ٹھہراؤ پیدا کر کے حالات کا مقابلہ کیا جائے۔
یہ بات درست ہے لیکن حالات کا مقابلہ کرنے اور سختیاں برداشت کرنے کے پیچھے لوگوں میں ایک امید اور حالات کی بہتری کا کوئی روڈمیپ ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ حالات کی سختیوں کو جھیلتا ہے لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی سامنے جہاں خود کو حالات کی بنیاد پر بے بس سمجھتا ہے تو دوسری طرف وہ اس ملک کے طاقتور طبقات جو ہر شعبہ میں موجود ہیں، کو مختلف قسم کی مراعاتوں، عیاشیوں، آسائشوں، معاشی خوشحالی اور نئے سے نئے ترقی کے مواقعوں یا ان کی بڑھتی ہوئی دولت یا وسائل کو دیکھتا ہے تو اس کا زخم بھی گہرا ہوتا ہے اور ریاست پر اعتماد بھی کمزوری کا سبب بنتا ہے ۔
آپ ایک عمومی رائے اس ملک میں بڑے سے بڑے طاقتور افراد یا اداروں سے پوچھیں کہ کیا موجودہ سیاسی نظام اور آنے والے عام انتخابات کے نتیجے میں کوئی مثبت تبدیلی افراد یا ریاستی وحکومتی نظام میں ممکن ہوسکے گی، تو جواب نفی میں ملے گا۔ ایک ہی نقطہ نظر سب طبقوں میں بالادست ہے کہ انتخابات کے بعد بھی ہماری سیاسی، سماجی، معاشی، انتظامی اور ریاستی مشکلات سمیت عام آدمی کی مشکلات میں اور سنگین بحران یا مسائل دیکھنے کو ملیں گے۔
ان کے بقول نئے انتخابات کے نتیجے میں بھی مسائل حل نہیں ہوںگے بلکہ جو سیاسی تقسیم ہر طبقہ میں موجود ہے اس سے اور زیادہ بگاڑ کے پہلو دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ عام آدمی کے پاس سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور اپنے انتخابی امیدواروں پر اعتماد کمزور ہے اور ان کی جذباتی گفتگو، خوش نما نعروں سے عام آدمی کا کوئی پیٹ بھرنے والا نہیں یا ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں۔
یہ خوش فہمی بھی لوگوں میں کمزور ہو رہی ہے کہ یہ ملک، اس کا ریاستی وحکومتی نظام اور اداروں کی سرپرستی میں عام آدمی کا کوئی حصہ ہے۔ ان میں یہ سوچ مضبوط جڑیں پکڑ رہی ہے کہ یہ ملک عام آدمی کا نہیں بلکہ اس ملک کے طاقتور طبقات یا اشرافیہ کا ہے اور ان کی بڑی حیثیت ان تمام طاقتور طبقات کے سامنے سرجھکانے یا ان کی طرف سے دی جانے والی بھیک سے جڑا ہوا ہے کیونکہ جب عام آدمی کا بنیادی حقوق کے حصول سے رشتہ کمزور ہوجائے تو ریاست، عوام اور سماجی معاہدہ کمزور شکل اختیار کرلیتا ہے۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ ہماری قسمت میں یہ موروثی سیاست ہے اور خاندانوں کی سیاست کے سامنے ہماری حیثیت محض ایک تماشائی کی ہے۔
مسئلہ محض عام آدمی یا کمزور آدمی تک محدود نہیں بلکہ اس معاشرے میں پڑھے لکھے افراد جو بڑے بڑے اہم عہدوں پر یا فیصلہ سازی کا حق رکھتے ہیں ان کے سامنے بھی حکمرانی کا نظام آئین و قانون کے مقابلے میں شخصیت کی بالادستی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہ بڑے بڑے عہدیدار لوگ بھی گورننس یا ریاستی و حکومتی فیصلوں میں خود کو بے بس سمجھتے ہیں اور ان فیصلوں پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کو طاقتور اشرافیہ کی جانب سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگر وہ مزاحمت کریں تو نتیجہ میں ملازمت یا عہدوں کے کھوجانے کا خوف ان کا بالادست ہوتا ہے جو خود ان کو بھی عملی طور پر سمجھوتوں کی سیاست پر مجبور کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہاں اچھے لوگ نہیں یا وہ ملک کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے بلکہ اصل بحران یہ ہے کہ ہم عملاً ان کو کوئی موقع دینے کے لیے تیار نہیں اور ان کے مقابلے میں چھوٹے افراد کو بڑے عہدوں پر سجا کر پورے نظام کو ہی یرغمال بنانا ہماری ترجیحات کا حصہ ہے۔
ایک بحران یہ بھی ہے کہ اس ملک میں سوچنے، سمجھنے اور متبادل تبدیلی کا ایجنڈے رکھنے والے افراد اور ریاست میں عملاً موجود طاقتور افراد کی فیصلہ سازی میں ایک بڑی خلیج موجود ہے اس لیے اچھے منصوبے، خیالات، سوچ اور فکر اعلیٰ دماغوں یا ان کی باتیں ردی کی ٹوکری تک ہی محدود ہوجاتی ہیں۔ جب ریاستی نظام اہل دانش سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہی تیار نہیں تو حالات کو کیسے بدلا جاسکتا ہے۔
ریاست نے عملاً حقیقی اہل دانش کے مقابلے میں ایک جعلی اہل دانش کا طبقہ پیدا کرکے اپنے لیے یا اپنی پذیرائی کے لیے گروہ پیدا کرلیا ہے جو ان کی جی حضوری میں پیش پیش نظر آتا ہے۔
اب مسئلہ محض مایوسی کا نہیں بلکہ اس مایوسی کو حالات کی بہتری میں امید یا روشنی کے پہلوؤں کے ساتھ جوڑنے سے ہے۔ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی سوچ، فکر اور حکمت عملی درکار ہے۔ سب سے پہلے اس بنیادی نقطہ پر اتفاق کرنا ہوگا کہ ہمارا یہ بوسیدہ سیاسی، سماجی، قانونی، انتظامی اور معاشی نظا م اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔
ہمیں اس نظام میں آگے بڑھنے کے لیے ایک بڑی سرجری درکار ہے اور یہ اگرچہ مشکل فیصلہ ہے مگر ناگزیر ہے۔ اب لوگوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ہمیں تبدیلی کے لیے غیرمعمولی اقدامات کو ہی بنیاد بنانا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو ہر طرف سے یہ واضح پیغام سیاسی جماعتوں کے اندر سے بھی اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کی جانب سے واضح طور پر جانا چاہیے کہ وہ ان کی ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اس بوسیدہ نظام کی کسی بھی صورت مزید حمایت کی جاسکتی ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا اور نئی نسل کی بنیاد پر یا ان کے باہمی تعلق کے ساتھ اس بحث کو سیاسی، جمہوری، آئینی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہیے کہ ہم موجودہ نظام اور اس کے طور طریقوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم اگرچہ نوجوانوں پر تنقید کی تو بات کرتے ہیں مگر ان میں روایتی سیاسی اور سماجی بیانیہ ٹوٹ رہا ہے، وہ روایتی بنیادوں پر ذات برادری، لسانی، علاقائی، فرقہ وارانہ یا مذہبی بنیادوں پر سوچنے کے بجائے اپنے بہتر مستقبل کو بنیاد بنا کر سوالات اٹھا رہے ہیں یا اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔
یہ ہی نوجوانوں کی طاقت اس وقت روایتی سیاست اور روایتی کرداروں کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج بن گیا ہے کہ کیسے ان نوجوانوں میں موجود سیاسی خیالات یا ردعمل کو لگام دی جاسکے لیکن یہ ممکن نہیں، آپ آوازوں کو روک تو سکتے ہیں، ان میں مزاحمت بھی ممکن ہے مگر یہ روکنے اور مزاحمت کا عمل نئی نسل میں مزید ردعمل کا سیاست کو جنم دے گا۔
ہمارا کام ان نئی نسل میں اٹھنے والی آوازوں کو درست سمت دینا ہے اور ان کو تبدیلی کے لیے سیاسی وجمہوری بنیادوں پر تیار کرنا ہے کیونکہ اقربا پروری، دولت، خاندانی رشتوں یا کرپشن کی بنیاد پر چلنے والا ریاستی نظام مزید آگے نہیں چل سکے گا۔ یہ بات اس ملک کی طاقتور اشرافیہ جتنا جلدی سمجھ لے گی بہتر ہوگا۔