قیام پاکستان کے مختلف مدارج

نظریہ پاکستان پر بحث کی ابتداء سب سے پہلے لفظ پاکستان سے کرنی ہوگی


جمیل مرغز January 21, 2024
[email protected]

خان عبدالولی خان نہ صرف ایک سیاسی رہنماء تھے بلکہ وہ ایک اعلیٰ پائے کے دانشور بھی تھے۔ 1975 میںذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں نیشنل عوامی پارٹی(نیپ)پر پابندی لگائی گئی اور ایک ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیجا گیا۔ اس مقدمے کے تمام ملزمان جیلوں میں بند تھے۔

نیپ کی طرف سے پارٹی جنرل سیکریٹری سید قسور گردیزی نے عدالت میں جواب داخل کیا'اس کے ساتھ ہی خان عبدالولی خان 'میر غوث بخش بزنجو 'ارباب سکندر خان خلیل 'سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری کی طرف سے بھی انفرادی جوابات داخل کیے گئے۔

اپنے 150 صفحات سے زیادہ پر مشتمل تحریری جواب میں ولی خان نے اپنے اوپر لگائے الزامات کاجواب دیا اورملک کے مسائل پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔میں یہاں ولی خان کے اس جواب کے نکات پیش کروں جو یقینا قارئین کو پسند آئے گا۔ وہ لکھتے ہیں۔

ولی خان لکھتے ہیں،''آخر میں میں اس سب سے بڑے الزام کی طرف آتا ہوں کہ ''نیپ کے چوٹی کے رہنماء نظریہ پاکستان یا پاکستانی قومیت کے تصور پر یقین نہیں رکھتے اور اس کو عملاً نہیں مانا کیونکہ وہ لسانی' نسلی اور علاقائی بنیادوں پر چار قومیتوں کے نظریے کا پرچار کرتے ہیں۔'' یہاں میں ایک اہم غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوںجو جان بوجھ کر پھیلائی گئی ہے 'یہ غلط فہمی قوم اور قومیت کے مفہوم کو گڈ مڈ کرنا ہے۔

نیپ اس پر یقین رکھتی ہے کہ ملک میں صرف اور صرف ایک قوم ہے اور وہ ہے پاکستانی قوم 'مزید یہ کہ پاکستانی قوم مختلف قومیتوں پر مشتمل ہے جن کی زبان اور ثقافت مختلف اور الگ الگ ہے ' قوم اور قومیتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے'قومیتوں کو آپ مختلف رنگ اور خوشبو والے پھول کہہ سکتے ہیں'جن کا مجموعہ اپنے رنگ اور خوشبو کی انفرادیت قائم رکھتے ہوئے قوم کے گلدستے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

نظریہ پاکستان پر بحث کی ابتداء سب سے پہلے لفظ پاکستان سے کرنی ہوگی۔ پاکستان کا لفظ سب سے پہلے 1933 میں سننے میں آیا۔پاکستان نیشنل مومنٹ کے بانی چوہدری رحمت علی نے کیمبرج (انگلینڈ ) سے ایک پمفلٹ اب یا کبھی نہیں (Now or Never)شایع کیا تھا ۔اس میں تجویز کیا گیا تھا کہ پنجاب 'افغانیہ (NWFP) کشمیر 'سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ریاست پاکستان قائم کرکے اس کو مذہبی 'سماجی اور تاریخی بنیادوں پر الگ وفاقی آئین دیا جائے۔

دوسری طرف یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے یہ تصور پیش کیا۔ حالانکہ ڈاکٹر اقبال نے 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الہ آباد میں شمال مغربی ہند کے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا تھا۔ لیکن اس مجوزہ ریاست کا نام تجویز نہیں کیا تھا ، پاکستان کا مشرقی حصہ یعنی بنگال وغیرہ ابھی تک ان تجویزوں میں شامل نہیں تھا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کی 1940کی قرارداد لاہور میں قیام پاکستان کا مطالبہ یوں پیش کیا گیا۔''جغرافیائی طور پر متصل وحدتوں کے ایسے الگ خطے کہ مناسب علاقائی ترتیب کے بعد ان خطوں کا نقشہ اس طرح بنایا جائے کہ شمال مغرب اور شمال مشرق میں مسلم آبادی کی اکثریت کے علاقوں کو آزاد ریاستوں کا درجہ مل جائے اور ان میں شامل وحدتیں آزاد اور خود مختار ہوں''۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلمان اراکین کے دہلی کنوینشن منعقدہ اپریل 1946میں قرار داد لاہور میںترمیم کر دی گئی جس کے مطابق طے پایاکہ ''ہندوستان کے شمال مشرق میں واقع بنگال وآسام اور شمال مغرب میں واقع پنجاب'شمال مغربی سرحدی صوبہ'سندھ اور بلوچستان جہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہے کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا درجہ دیا جائے۔جس کا نام پاکستان ہو ''۔

مئی 1946میں کیبنٹ مشن پلان آیا'اس میں ہندوستان کی وفاقی حکومت کی تجویز پیش کی گئی۔اس میں تین گروپ بنائے گئے 'گروپ (A) پنجاب' سندھ 'شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان پر مشتمل تھا'گروپ(C) میں بنگال اور آسام شامل تھے اور گروپ (A) میں ہندوستان کے باقی چھ صوبے شامل تھے 'مذکورہ تینوں گروپ ہندوستان کی وفاقی حکومت کے اندر متحد ہوتے' جس کے پاس دفاع 'امور خارجہ اور مواصلات کے محکمے رہتے۔

کیبنٹ مشن کے اس پلان کو مسلم لیگ نے قبول کر لیا تھا مگر جب ہندوستان کی اصل اور حتمی تقسیم عمل میں آئی تو اس کے نتیجے میں مسلم اکثریت کے دو صوبے پنجاب اور بنگال بھی تقسیم ہوئے 'آسام میں سے صرف ضلع سلہٹ پاکستان کے مشرقی بازو کے ساتھ شامل ہوا۔

تحریک پاکستان کا بغور جائزہ لینے 'چوہدری رحمت علی اور ڈاکٹر اقبال کے تصور پاکستان یا مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 1940 سے 1947 تک چار مختلف تصور اور تجاویزپیش کی گئیں۔ قرار داد لاہور میں آزاد ریاستوں (independent states) کا مطالبہ ہوا۔ 1946 میں ترمیم کے بعد ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا مطالبہ کیا گیا' 1946میں ہی انڈین یونین کے اندر وفاق کاایک سے زیادہ یونٹ سے پاکستان مراد لیا گیا۔

بالآخر 1947میں مسلم لیگ نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم اور آسام کے صرف ایک ضلع سلہٹ کو بطور پاکستان تسلیم کرلیا'الغرض برصغیر کی آزادی سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کے وطن کے لیے چار مختلف منصوبے ہمارے سامنے ہیں'قیام پاکستان کے بعد 1955 میں پاکستان کو ون یونٹ بنانے کا خاکہ سامنے آیا جب مغربی پاکستان کی ایک وحدت (ون یونٹ) بنائی گئی اور مشرقی پاکستان کے لیے برابری (parity)کی اسکیم منظور کرکے، مرکز میں مساوی نمایندگی دے دی گئی اور بالآخر 1971 میں سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں پاکستان ایک بہت بڑی تبدیلی سے دوچار ہوا' مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے آزاد ملک بن گیا جب کہ اب مغربی پاکستان ہی پاکستان ہے ۔

یہاں یہ سوال بنیادی نوعیت اور زبردست اہمیت کا حامل ہے 'وجہ یہ ہے کہ ہر تصور کا نظریہ الگ ہوتا ہے 'مختلف تصورات کے نظریے مختلف ہوتے ہیں۔قرارداد لاہور میں ہند میں مسلمانوں کی '' آزاد ریاستوں ''کا مطالبہ ہوا جن کی ترکیبی اکائیاںآزاد اور خود مختار ہوں' 1955 میں برابری کا اصول (parity)اور مغربی پاکستان میں ون یونٹ کی تشکیل ہوئی۔

1946کے کیبنٹ مشن کے تحت گروپ سسٹم تجویز کیا گیا تھا۔ 1947میں قیام پاکستان عمل میں آگیا۔ پنجاب اور بنگال کی تقسیم ہوئی ،ر آسام میں سے صرف ضلع سلہٹ کی شمولیت سے مشرقی پاکستان اور شمالی ہند میں مغربی پاکستان ، یوں دونوں کو ملا کر ایک پاکستان قائم ہوگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں