بھارت کے 15 ویں وزیر اعظم نریندر مودی

63 سالہ نریندر مودی کسی تعارف کے محتاج نہیں کیونکہ بھارت کے صوبہ گجرات کے انسانیت سوز مسلم کش فسادات ...


Shakeel Farooqi June 03, 2014
[email protected]

پیر 26 مئی کو آخر کار وہی ہوا جس کی سیاسی پنڈت ایک عرصے سے پیشین گوئی کر رہے تھے اور جس کی بھارت کے عام چناؤ کے موقعے پر ہونے والے ایگزٹ پولز نے نہایت واضح الفاظ میں نشاندہی کردی تھی یعنی برسوں سے برسر اقتدار انڈین نیشنل کانگریس کی ہار اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی عرف بی جے پی بنت آر ایس ایس کی جیت۔ مگر کانگریس کی شکست اس قدر عبرتناک اور شرمناک اور بی جے پی کی فتح اور کامیابی اتنی زبردست اور تاریخی ہوگی اس کا درست اندازہ بڑے بڑے سیاسی نجومی بھی لگانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے جس کے نتیجے میں ان کی قیاس آرائیاں محض دھری کی دھری رہ گئیں۔

جیسا کہ ہم شاید اس سے پہلے بھی عرض کرچکے ہیں بی جے پی کی فتح میں جہاں اس کی مسلسل کوششوں اور بھرپور تیاریوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے، وہیں کانگریس کی مسلسل ناقص کارکردگی اور ضرورت سے زیادہ غلط فہمی بلکہ خوش فہمی کا بھی کچھ کم عمل دخل نہیں ہے۔ دراصل کانگریس نے اپنی طویل حکمرانی کے نشے میں دھت ہوکر بھارت کی جنتا کو اپنی رعیت اور رعایا بلکہ گھر کی لونڈی باندی سمجھ لیا تھا اور ہندوستان کو آزادی دلانے والی سیاسی جماعت ہونے کی وجہ سے اسے یہ گھمنڈ ہوگیا تھا کہ اس نے ہندوستان پر ہمیشہ حکومت کرنے کا گویا ٹھیکہ لے لیا ہے۔

بھارت کی دوسری سب سے بڑی اکثریت یعنی بھارت کے ان مسلمانوں کو بھی شدید طور پر مایوس کردیا جو اپنے ووٹوں کی فیصلہ کن تعداد سے کانگریس کا پلڑا بھاری کرکے عام انتخابات کا پانسہ پلٹ دیا کرتے تھے۔ بہرحال بی جے پی اپنی کامیابی کا جشن منا رہی ہے اور کانگریس اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتتے ہوئے اپنی پسپائی کے کاری زخموں کو چاٹ رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کو لوک سبھا میں غالب اکثریت حاصل ہے جس کے باعث وہ کسی اور سیاسی جماعت کی حمایت یا مدد کی محتاج نہیں ہے اور بلا روک ٹوک اپنی من چاہی سرکار بنانے میں پوری طرح سے خودمختار اور قطعی آزاد ہے۔

اب اسے اپنی اتحادی جماعتوں کی حمایت درکار نہیں ہے بلکہ اس کی اتحادی جماعتوں کو اس کی مرضی و منشا کے مطابق چلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن شکست خوردہ سابق حکمراں جماعت کانگریس کا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے کیونکہ ایوان زیریں میں اس کی صرف 44 نشستیں اسے کسی کی بھی حمایت دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بی جے پی کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ بہ قول اقبال:

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

شاید بہت کم لوگوں کا دھیان اس جانب گیا ہوگا کہ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں بی جے پی کے سیاسی اتحاد یا مورچے این ڈی اے کی موجودہ تعداد مجموعی طور پر صرف 64 سیٹوں پر مشتمل ہے جب کہ کانگریس پارٹی کو تن تنہا اس ایوان میں 68 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے۔ دوسری جانب اس ایوان میں بی جے پی کی اپنی نشستیں صرف 46 ہیں۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کے اتحادیوں یعنی AL ADMK اور TDP کی نشستوں کی تعداد بالترتیب 10 اور 6 ہے۔ دوسری جانب ان اتحادیوں کی مخالف جماعتوں بی ایس پی اور ٹی ایم سی بالترتیب 14 اور 12 نشستیں حاصل ہیں جب کہ SP کی 6، NCP کی 6 اور JD-U کی 2 نشستیں اس کے علاوہ ہیں۔

حقیقی صورت حال یہ ہے کہ 240 ارکان پر مشتمل راجیہ سبھا میں کسی بھی بل کو منظور کرانے کے لیے بی جے پی کے اتحاد NDA کو کم سے کم 121 ارکان کی قطعی حمایت درکار ہوگی جوکہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ آج کے دن سے لے کر سال 2015 کے اختتام تک راجیہ سبھا میں صرف 23 سیٹیں خالی ہوں گی۔ بالفرض اگر NDA آیندہ راجیہ سبھا کی ان خالی نشستوں کو پر کرنے میں کوئی بہت بڑی کامیابی بھی حاصل کرلیتی ہے (جوکہ بعید از قیاس ہے) تب بھی وہ غالب اکثریت کے حصول سے میلوں کوسوں دور رہے گی۔

چشم کشا زمینی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بل اس وقت تک قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے راشٹر پتی (صدر مملکت) کے دستخط حاصل کرنے کے لیے پیش نہیں کیا جاسکتا جب تک اسے راجیہ سبھا سمیت پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے کثرت رائے سے منظور نہ کیا ہو۔ باور ہو کہ اس وقت راجیہ سبھا میں 50 بل اس ایوان کی منظوری حاصل کرنے کے لیے زیر التوا پڑے ہیں جن میں Judicial Appointment Commission بل ، Drugs and Cosmetics (Amendment) بل، انسداد بدعنوانی (ترمیمی) بل اور Real Estate (Regulation and Development) جیسے اہم بلوں کے علاوہ بعض دیگر بل بھی شامل ہیں۔

بہر حال 26 مئی کو بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی بھارت کی سیاسی جماعت بی جے پی کے امیدوار 63 سالہ نریندر مودی نے راجدھانی نئی دہلی میں واقع راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھاکر ہندوستان کے نام نہاد سیکولرزم کے چہرے پر پڑے ہوئے فریبی نقاب کو نوچ ڈالا اور حکمراں کانگریس پارٹی کا جنازہ نکال دیا۔ نریندر مودی ہندوستان کے 15 ویں اور بی جے پی کے دوسرے وزیر اعظم ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے ان کا نام بی جے پی کے بدنام زمانہ بزرگ رہنما ایل کے ایڈوانی نے پیش کیا تھا جب کہ مرلی منوہر جوشی، ایم وین کیاہ نائیڈو، نیتن گڈکری، سشما سوراج، اور ارن جیٹلے سمیت پارٹی کے دیگر سیاسی رہنماؤں نے ان کی تائید کی تھی۔

63 سالہ نریندر مودی کسی تعارف کے محتاج نہیں کیونکہ بھارت کے صوبہ گجرات کے انسانیت سوز مسلم کش فسادات کے حوالے سے پوری دنیا انھیں خوب اچھی طرح سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ نریندر مودی اسلام اور مسلم دشمنی میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے انتہا پسندوں میں سرفہرست شمار کیے جاتے ہیں اور ''ہندوتوا'' کا نعرہ لگا لگا کر انھیں نہ صرف اپنی جماعت میں تیزی سے اتنی غیر معمولی مقبولیت اور اہمیت حاصل ہوئی ہے بلکہ وہ ایک ٹی بوائے سے بلند ہوکر بھارت کے پردھان منتری کے عہدے تک جا پہنچے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت کے مسلمانوں سے بے انتہا تعصب اور بغض و عناد کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے کامیاب امیدواروں کی طویل فہرست میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے۔

یہ اور بات ہے کہ بعض نام نہاد ایمان اور ضمیر فروش مسلمانوں کے نام ان کے حمایتیوں میں شامل نظر آتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی دور پرے کا بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ سچ پوچھیے تو نریندر مودی اور ان کی پارٹی کو عام انتخابات میں یہ کامیابی ان کی اسلام اور پاکستان دشمنی کی بنا پر ہی حاصل ہوئی ہے۔ ان کی پاکستان دشمنی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہی ایک مثال کافی ہے کہ انھوں نے اپنی جماعت کے ایک بزرگ اور انتہائی پرانے اور سینئر رہنما جسونت سنگھ کو اپنی پارٹی سے محض اس جرم کی پاداش میں نکال کر باہر کردیا تھا کہ انھوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی پر ایک کتاب لکھ ڈالی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں