عصرِ حاضر میں آرٹ کی جمالیاتی اقدار
لاہور میں 1872سے قائم شدہ ’’نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور‘‘آرٹ کی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز ہے ....
انگریزی زبان کالفظ ''آرٹ''جس کو اردوزبان میں ''فن'' بھی کہتے ہیںاور''ہنر''بھی کہاجاتاہے۔ان کی جمع ''فنون وہنر''یا''آرٹس'' ہے،مگر اس سے حقیقی مراد دراصل ایسا فن ہے جس میں لطافت ہو۔اسی لیے فن کا حرف سنتے ہی تخلیقی ہنر کی طرف دھیان جاتا ہے۔فنون لطیفہ سے مراد جذبات کا اظہار ہے اوردل کو چھولینے والی کسی تخلیق کاجنم لینا ہے۔ اقبال کے نزدیک
فن کی ہے خون جگر سے نمود
اسی لیے مصوری،مجسمہ سازی، تصویرکشی، تعمیرات، موسیقی ، تھیٹر،رقص اورفلم جیسے شعبوں کوفنون لطیفہ میں شمار کیا جاتا ہے۔اپنے خیال کو ہنر مندی سے پیش کرنے کا نام ''آرٹ'' ہے،اب چاہے اس کااظہار کسی بھی انداز میں ہو۔
آرٹ فن پارے کی تخلیقی خوبصورتی کی لاج رکھتا ہے۔ انسانی احساسات میں اتر کر روح کو متاثر کرتا ہے۔ لفظ ''آرٹ'' بڑا جادوگر لفظ ہے جس پر منکشف ہوجائے، اس کی دنیا بدل دیتا ہے اورکئی اس کی چاہ لیے اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں،مگر یہ ان پر اپنی معنویت نہیں کھولتا۔انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے مطابق''وہ حسین اشیا،فطری اظہاریا ایسے تجربے، جن کو بیان کیاجا سکے اوروہ ہنر جس کے عمل میں سوچ بھی شامل ہو،وہ آرٹ ہے۔''
آرٹ کی فلاسفی کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف مفکروں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعریف متعین کی ہے،مگر حتمی طورپر ایک تعریف جس پر تقریباً سب متفق ہیں،و ہ یہ ہے کہ ''آرٹ انسانی جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کاایک راستہ ہے۔'' روس کاکلاسیکی ناول نگار ''لیوٹالسٹائی'' آرٹ کی تعریف بھی انھی معنوں میں کرتا ہے۔ ارسطو اپنی فلاسفی میں آرٹ کو ایک اچھی نقل سے تعبیر کرتا ہے۔ جرمنی کا عظیم فلاسفر''مارٹن ہائی ڈیگر''آرٹ کو ایک ایسا طریقہ مانتا ہے،جس کے ذریعے کوئی اپنا آپ دوسروں تک پہنچائے۔''
عہد جدید میں آرٹ کی بے شمار اقسام تخلیق کی جا چکی ہیں ۔ کسی زمانے میں یہ جتنا سادہ میڈیم ہواکرتا تھا،اب اتنا سادہ نہیں رہا۔اس میں مختلف جہتیں پیدا ہو گئی ہیں،جس کے ذریعے صرف انسان کے شعوری جذبات کا اظہار ہی نہیں ہوتا، بلکہ یہ آرٹ ہمیں اب انسان کے لاشعور تک بھی لے جاتا ہے۔آرٹ ہمیں بتاتا ہے کہ آرٹسٹ کی ذہنی سطح کیا ہے۔ وہ کس طرح خیال کو تخلیق کالبادہ پہناتاہے۔وہ کون سے احساسات ہیں، جن کااظہار اسے آرٹسٹ بنا دیتا ہے۔ دورِ جدید آرٹ کی ان تمام سمتوں کابازیچہ ہے۔آرٹ کی فطرت اور اس سے جڑے ہوئے نظریات اس میں تخلیق کے متاثر کن عناصر کوجنم دیتے ہیں۔فلاسفی کی ایک شاخ جس نے آرٹ کے ان پہلوئوں پر تحقیق کی ہے،اس کو ''جمالیات'' کہتے ہیں۔یہ رخ بھی ہمیں بہت کچھ بتاتاہے۔
قبل از تاریخ سے لے کرعہد حاضرتک ہمیںبہت سارے ادوار ملتے ہیں،جس میں آرٹ مختلف انداز میں تخلیق ہوا۔ قبل ازتاریخ میں روس،ہندوستان،چین، جاپان، کوریا، افریقہ، امریکااورآسڑیلیاجیسے خطوں میںآرٹ کے سراغ ملتے ہیں۔دیواروں پر نقش ونگار،ظروف،مجسمہ سازی اور پینٹنگز کے نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ آرٹ نے ہمیشہ انسانی توجہ کواپنی طرف مرکوز کیا۔یورپ میں بھی پتھر،دھات اور لوہے کے ادوار میں مندرجہ بالا فنون کا بول بالا رہا ۔
عصر حاضر میں بعد ازتاریخ سے آرٹ اپنا سفر طے کرتے ہوئے جدید آرٹ تک پہنچا،پھر جدید آرٹ کے بعد کادور اوراب عصری آرٹ تک اس کا کینوس پھیلاہواہے،جو ہمیں ورطۂ حیرت میں مبتلا کردیتاہے کہ انسان کی جمالیات کتنی پختہ ہیں اوروہ اپنی بات کہنے کے لیے اظہار کے کتنے طریقے تراشتا ہے ،عقل دنگ رہ جاتی ہے۔دنیا بھر کی جامعات میں اب آرٹ بطورمضمون پڑھایاجاتاہے اوراس کی کئی شاخیں بھی ہیں۔پاکستان کے کئی شہروں میں بھی یہ مضمون باقاعدہ مرکزی حیثیت اختیار کرچکاہے۔
لاہور میں 1872سے قائم شدہ ''نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور''آرٹ کی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز ہے،اب تک یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا آرٹ اوردیگر فنون لطیفہ کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں ۔پاکستان کے کئی نامور فنکاروں کا تعلق بھی اسی درس گاہ سے ہے۔کراچی میں 1989 سے قائم شدہ ''انڈس ویلی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر''بھی نئی نسل میں اس فن کے ثمرات پہنچانے میں کوشاں ہے۔اس کے علاوہ اسی شہر میں 1964سے قائم شدہ ''کراچی اسکول آف آرٹ''اورجامعہ کراچی کا شعبہ ''آرٹ اینڈ ویژول اسٹڈیز''بھی نئی نسل کو آرٹ سے متعارف کروانے میں اپنا کلیدی کردار اداکررہاہے۔
اسلام آباد میں 1973سے قائم شدہ''پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس''بھی فنون لطیفہ کے فروغ میں متحرک ہے۔ طلبا یہاں سے مختلف فنون میں تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں مثبت کردار اداکررہے ہیں۔ جامعہ پشاور کا شعبہ ''آرٹ اینڈ ڈیزائن''فن کے فروغ کے لیے نئی نسل کی توجہ کامرکز ہے۔کوئٹہ میں انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائننگ سے منسلک ''کالج آف ڈیزائن'' بھی علاقائی خطے کے فنون کو جدید تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرکے آرٹ کے فروغ کی کوششوں میں معاون ثابت ہورہاہے۔اسی طرح پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی جامعات،کالجز اور انسٹیٹیوٹس نے آرٹ کی تعلیم کو پھیلانے میں اپنا مثبت کردار نبھا رہے ہیں۔
دنیا بھر کے فنکاروں نے اپنے فن کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار بھی کیا۔یہی وجہ ہے، فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں ہمیں آرٹسٹ مختلف انداز کے کام کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر ہم صرف مصوری کے شعبے میں ہی جائزہ لیں، تو پینٹنگز کے ابتدائی دور سے لے کر موجودہ عہد تک تقریباً کوئی 150تحریکوں نے جنم لیا اور مصوروں نے ان کے زیر اثر فن پارے تخلیق کیے۔اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی فنکار اپنے نظریات کے تابع رہے ۔
آرٹ کا ہنر صرف تخلیقات کی حد تک محدود نہیں ،بلکہ ہماری زندگی کا دارومدار بھی اس طرزفکر پر ہے،بس بات ذرا غور کرنے کی ہے۔پیدائشی طور پر ودیعت ہونے والی صلاحیتوں کو اگر نکھار لیاجائے،زندگی میں محنت کرکے کوئی مقام حاصل ہوجائے،کسی کے دل کو اپنے اخلاق سے فتح کر لیا جائے،تو یہ بھی ایک ہنر ہے،جس سے انسان کامیابیاں سمیٹ سکتا ہے۔ہمارے ہاں ایک عجیب چلن بن گیاہے کہ خوبیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے خامیاں ڈھونڈنے پر لوگ اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ خامی کوڈھونڈکر نکالنا بھی ایک منفی ہنر ہی ہے،مگر عہدحاضر میں اکثریت اس فن میں تاک ہے۔
ہمارے موضوعات بڑے عجیب ہوگئے ہیں۔ سیاست پر گفتگو فرمانے کا شغل عام ہوگیا ہے۔سیاست کے چوروں اورڈاکوئوں پر بات کرکے ہمیں کیا مل سکتا ہے، کیا اچھی بات ہو کہ ہم کوئی اچھا سا گیت سنیں،اپنے کام پر توجہ دیں تو شاید کچھ بات بن جائے۔گزرتے وقت کے ساتھ ہماری روح بدآوازوں سے آلودہ ہوتی جا رہی ہے،اگر ہم اچھے خیال، سریلے گیت،میٹھے لہجوں، شفاف مناظر اورخوشبودار لوگوں کو اپنی زندگی میں اوردل میں جگہ دیں تو شاید روح کا میل صاف ہو اور ہم انسان کی فطری زندگی جی سکیں،لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
صرف کراچی شہر میں ہزاروں لوگ تاک کرمار دیے جاتے ہیں اوریہ سلسلہ جاری ہے،حکومت صرف بیانات اور تحقیقی کمیٹیاں بنانے تک محدود رہتی ہے۔جون ایلیا نے کہا، ''زندگی میں خوش رہنے کے لیے بہت زیادہ بے حسی چاہیے۔'' یہ بھی ایک آرٹ ہے،جس میں ہم کافی خود کفیل ہوتے جا رہے ہیں۔منفی واقعات سے چینلوں کی اسکرین اور اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں، مگر یہ غم کسی کو نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اب غیر کے مرنے کاغم اپنا نہیں ہوتا، ہم صرف تب ہی جھنجوڑ دیے جاتے ہیں ،جب کوئی اپنا لپیٹ میں آئے۔
زندگی کوآپ جی کر بسر کریں، تو یہ ایک ہنر ہے،اگر زندگی خود سے گزرے جارہی ہے،تو اس میں کوئی کمال ہنر نہیں ہے۔زندگی کی جمالیات یہ ہیں کہ سچے اور کھرے انسان بنیں۔محنت کریں، اور خوبصورتی کو دل سے روح تک اتاریں، پھر آپ کو شام کو ڈوبتا ہوا سورج،آدھی رات کا چاند،گرم پیالی میں چائے سے اٹھتی ہوئی بھاپ،مصور کی تصویر، گائیک کا گیت،فلموں کی کہانیاں،ناولوں کے کردار، ستار کی آواز ،پنچھی کی پرواز،سب کچھ اچھا لگے گا۔زندگی سے جب پیار ہوجائے،تو آدھی جیت ہوجاتی ہے۔محبتوں کو عام کریں گے،تو نفرتوں کی آگ ٹھنڈی ہوگی اورکوئی پھر تاک کر نہیں مارا جائے گا،مگر اس کے لیے درد مند دل اور احساس ہونا شرط ہے ،ایسا نہیں سوچیں گے ،تو پھر ایک دوسرے کے لیے بدگمانی ہی پیدا ہوگی، بقول نواب مصطفی خان شیفتہ۔۔
اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں
فن کی ہے خون جگر سے نمود
اسی لیے مصوری،مجسمہ سازی، تصویرکشی، تعمیرات، موسیقی ، تھیٹر،رقص اورفلم جیسے شعبوں کوفنون لطیفہ میں شمار کیا جاتا ہے۔اپنے خیال کو ہنر مندی سے پیش کرنے کا نام ''آرٹ'' ہے،اب چاہے اس کااظہار کسی بھی انداز میں ہو۔
آرٹ فن پارے کی تخلیقی خوبصورتی کی لاج رکھتا ہے۔ انسانی احساسات میں اتر کر روح کو متاثر کرتا ہے۔ لفظ ''آرٹ'' بڑا جادوگر لفظ ہے جس پر منکشف ہوجائے، اس کی دنیا بدل دیتا ہے اورکئی اس کی چاہ لیے اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں،مگر یہ ان پر اپنی معنویت نہیں کھولتا۔انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے مطابق''وہ حسین اشیا،فطری اظہاریا ایسے تجربے، جن کو بیان کیاجا سکے اوروہ ہنر جس کے عمل میں سوچ بھی شامل ہو،وہ آرٹ ہے۔''
آرٹ کی فلاسفی کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف مفکروں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعریف متعین کی ہے،مگر حتمی طورپر ایک تعریف جس پر تقریباً سب متفق ہیں،و ہ یہ ہے کہ ''آرٹ انسانی جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کاایک راستہ ہے۔'' روس کاکلاسیکی ناول نگار ''لیوٹالسٹائی'' آرٹ کی تعریف بھی انھی معنوں میں کرتا ہے۔ ارسطو اپنی فلاسفی میں آرٹ کو ایک اچھی نقل سے تعبیر کرتا ہے۔ جرمنی کا عظیم فلاسفر''مارٹن ہائی ڈیگر''آرٹ کو ایک ایسا طریقہ مانتا ہے،جس کے ذریعے کوئی اپنا آپ دوسروں تک پہنچائے۔''
عہد جدید میں آرٹ کی بے شمار اقسام تخلیق کی جا چکی ہیں ۔ کسی زمانے میں یہ جتنا سادہ میڈیم ہواکرتا تھا،اب اتنا سادہ نہیں رہا۔اس میں مختلف جہتیں پیدا ہو گئی ہیں،جس کے ذریعے صرف انسان کے شعوری جذبات کا اظہار ہی نہیں ہوتا، بلکہ یہ آرٹ ہمیں اب انسان کے لاشعور تک بھی لے جاتا ہے۔آرٹ ہمیں بتاتا ہے کہ آرٹسٹ کی ذہنی سطح کیا ہے۔ وہ کس طرح خیال کو تخلیق کالبادہ پہناتاہے۔وہ کون سے احساسات ہیں، جن کااظہار اسے آرٹسٹ بنا دیتا ہے۔ دورِ جدید آرٹ کی ان تمام سمتوں کابازیچہ ہے۔آرٹ کی فطرت اور اس سے جڑے ہوئے نظریات اس میں تخلیق کے متاثر کن عناصر کوجنم دیتے ہیں۔فلاسفی کی ایک شاخ جس نے آرٹ کے ان پہلوئوں پر تحقیق کی ہے،اس کو ''جمالیات'' کہتے ہیں۔یہ رخ بھی ہمیں بہت کچھ بتاتاہے۔
قبل از تاریخ سے لے کرعہد حاضرتک ہمیںبہت سارے ادوار ملتے ہیں،جس میں آرٹ مختلف انداز میں تخلیق ہوا۔ قبل ازتاریخ میں روس،ہندوستان،چین، جاپان، کوریا، افریقہ، امریکااورآسڑیلیاجیسے خطوں میںآرٹ کے سراغ ملتے ہیں۔دیواروں پر نقش ونگار،ظروف،مجسمہ سازی اور پینٹنگز کے نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ آرٹ نے ہمیشہ انسانی توجہ کواپنی طرف مرکوز کیا۔یورپ میں بھی پتھر،دھات اور لوہے کے ادوار میں مندرجہ بالا فنون کا بول بالا رہا ۔
عصر حاضر میں بعد ازتاریخ سے آرٹ اپنا سفر طے کرتے ہوئے جدید آرٹ تک پہنچا،پھر جدید آرٹ کے بعد کادور اوراب عصری آرٹ تک اس کا کینوس پھیلاہواہے،جو ہمیں ورطۂ حیرت میں مبتلا کردیتاہے کہ انسان کی جمالیات کتنی پختہ ہیں اوروہ اپنی بات کہنے کے لیے اظہار کے کتنے طریقے تراشتا ہے ،عقل دنگ رہ جاتی ہے۔دنیا بھر کی جامعات میں اب آرٹ بطورمضمون پڑھایاجاتاہے اوراس کی کئی شاخیں بھی ہیں۔پاکستان کے کئی شہروں میں بھی یہ مضمون باقاعدہ مرکزی حیثیت اختیار کرچکاہے۔
لاہور میں 1872سے قائم شدہ ''نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور''آرٹ کی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز ہے،اب تک یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا آرٹ اوردیگر فنون لطیفہ کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں ۔پاکستان کے کئی نامور فنکاروں کا تعلق بھی اسی درس گاہ سے ہے۔کراچی میں 1989 سے قائم شدہ ''انڈس ویلی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر''بھی نئی نسل میں اس فن کے ثمرات پہنچانے میں کوشاں ہے۔اس کے علاوہ اسی شہر میں 1964سے قائم شدہ ''کراچی اسکول آف آرٹ''اورجامعہ کراچی کا شعبہ ''آرٹ اینڈ ویژول اسٹڈیز''بھی نئی نسل کو آرٹ سے متعارف کروانے میں اپنا کلیدی کردار اداکررہاہے۔
اسلام آباد میں 1973سے قائم شدہ''پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس''بھی فنون لطیفہ کے فروغ میں متحرک ہے۔ طلبا یہاں سے مختلف فنون میں تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں مثبت کردار اداکررہے ہیں۔ جامعہ پشاور کا شعبہ ''آرٹ اینڈ ڈیزائن''فن کے فروغ کے لیے نئی نسل کی توجہ کامرکز ہے۔کوئٹہ میں انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائننگ سے منسلک ''کالج آف ڈیزائن'' بھی علاقائی خطے کے فنون کو جدید تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرکے آرٹ کے فروغ کی کوششوں میں معاون ثابت ہورہاہے۔اسی طرح پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی جامعات،کالجز اور انسٹیٹیوٹس نے آرٹ کی تعلیم کو پھیلانے میں اپنا مثبت کردار نبھا رہے ہیں۔
دنیا بھر کے فنکاروں نے اپنے فن کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار بھی کیا۔یہی وجہ ہے، فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں ہمیں آرٹسٹ مختلف انداز کے کام کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر ہم صرف مصوری کے شعبے میں ہی جائزہ لیں، تو پینٹنگز کے ابتدائی دور سے لے کر موجودہ عہد تک تقریباً کوئی 150تحریکوں نے جنم لیا اور مصوروں نے ان کے زیر اثر فن پارے تخلیق کیے۔اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی فنکار اپنے نظریات کے تابع رہے ۔
آرٹ کا ہنر صرف تخلیقات کی حد تک محدود نہیں ،بلکہ ہماری زندگی کا دارومدار بھی اس طرزفکر پر ہے،بس بات ذرا غور کرنے کی ہے۔پیدائشی طور پر ودیعت ہونے والی صلاحیتوں کو اگر نکھار لیاجائے،زندگی میں محنت کرکے کوئی مقام حاصل ہوجائے،کسی کے دل کو اپنے اخلاق سے فتح کر لیا جائے،تو یہ بھی ایک ہنر ہے،جس سے انسان کامیابیاں سمیٹ سکتا ہے۔ہمارے ہاں ایک عجیب چلن بن گیاہے کہ خوبیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے خامیاں ڈھونڈنے پر لوگ اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ خامی کوڈھونڈکر نکالنا بھی ایک منفی ہنر ہی ہے،مگر عہدحاضر میں اکثریت اس فن میں تاک ہے۔
ہمارے موضوعات بڑے عجیب ہوگئے ہیں۔ سیاست پر گفتگو فرمانے کا شغل عام ہوگیا ہے۔سیاست کے چوروں اورڈاکوئوں پر بات کرکے ہمیں کیا مل سکتا ہے، کیا اچھی بات ہو کہ ہم کوئی اچھا سا گیت سنیں،اپنے کام پر توجہ دیں تو شاید کچھ بات بن جائے۔گزرتے وقت کے ساتھ ہماری روح بدآوازوں سے آلودہ ہوتی جا رہی ہے،اگر ہم اچھے خیال، سریلے گیت،میٹھے لہجوں، شفاف مناظر اورخوشبودار لوگوں کو اپنی زندگی میں اوردل میں جگہ دیں تو شاید روح کا میل صاف ہو اور ہم انسان کی فطری زندگی جی سکیں،لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
صرف کراچی شہر میں ہزاروں لوگ تاک کرمار دیے جاتے ہیں اوریہ سلسلہ جاری ہے،حکومت صرف بیانات اور تحقیقی کمیٹیاں بنانے تک محدود رہتی ہے۔جون ایلیا نے کہا، ''زندگی میں خوش رہنے کے لیے بہت زیادہ بے حسی چاہیے۔'' یہ بھی ایک آرٹ ہے،جس میں ہم کافی خود کفیل ہوتے جا رہے ہیں۔منفی واقعات سے چینلوں کی اسکرین اور اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں، مگر یہ غم کسی کو نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اب غیر کے مرنے کاغم اپنا نہیں ہوتا، ہم صرف تب ہی جھنجوڑ دیے جاتے ہیں ،جب کوئی اپنا لپیٹ میں آئے۔
زندگی کوآپ جی کر بسر کریں، تو یہ ایک ہنر ہے،اگر زندگی خود سے گزرے جارہی ہے،تو اس میں کوئی کمال ہنر نہیں ہے۔زندگی کی جمالیات یہ ہیں کہ سچے اور کھرے انسان بنیں۔محنت کریں، اور خوبصورتی کو دل سے روح تک اتاریں، پھر آپ کو شام کو ڈوبتا ہوا سورج،آدھی رات کا چاند،گرم پیالی میں چائے سے اٹھتی ہوئی بھاپ،مصور کی تصویر، گائیک کا گیت،فلموں کی کہانیاں،ناولوں کے کردار، ستار کی آواز ،پنچھی کی پرواز،سب کچھ اچھا لگے گا۔زندگی سے جب پیار ہوجائے،تو آدھی جیت ہوجاتی ہے۔محبتوں کو عام کریں گے،تو نفرتوں کی آگ ٹھنڈی ہوگی اورکوئی پھر تاک کر نہیں مارا جائے گا،مگر اس کے لیے درد مند دل اور احساس ہونا شرط ہے ،ایسا نہیں سوچیں گے ،تو پھر ایک دوسرے کے لیے بدگمانی ہی پیدا ہوگی، بقول نواب مصطفی خان شیفتہ۔۔
اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں