ترکیہ کی بستیوں میں گزرے کچھ دنوں کا قصہ
بھئی! ہم پاکستانی ایسے ہی ہیں، جہاز میں بیٹھیں یا ویگن میں، تھوڑی دیر کے لیے وہ ہماری ملکیت ہوجاتی ہے۔
(ترکی کا سفرنامہ ... پہلا پڑاؤ )
ہم سفر کو زندگی مانتے ہیں۔
ابھی تک جتنے بھی سفر کیے تھے وہ اندرون ملک تھے، بیرون ملک سفر جب کیا تھا، جب بچے بہت چھوٹے تھے، جہاز کا سفر تو بچہ سنبھالتے گزر گیا تھا۔
ایک کو باتھ روم سے لے کر آؤ، تو دوسرا جانے کی ضد کرنے لگتا تھا۔ ایک میاں کی گود میں، ایک ہماری گود میں۔ ایک کو دودھ کی بوتل پکڑاتی تو دوسرا اماں، اماں کی ضد پکڑ لیتا۔ اس کو بہلاتی تو پہلا والا شور مچانے لگتا۔ ایسے میں کیا لندن کیا کراچی، کیسا جہاز کا سفر۔ سارا وقت تو بچے سنبھالتے گزر گیا۔
ایک جیٹھ ساؤتھ شیلڈ میں رہتے تھے، دوسرے جرمنی ڈوبیل ڈرف میں۔ مگر جو حال بچوں نے کیا تھا تو ہم نے جرمنی جانے کا ارادہ ملتوی کردیا اور جرمنی جانے کی بجائے کراچی واپس آگئے۔
جب دوسرا سفر کیا تو بچے اتنے چھوٹے نہ تھے کہ بچوں کو باتھ روم لاتے لے جاتے اور دودھ کی بوتلیں بھرتے اور پلاتے گزر جاتا، مگر جہاز کے اندر اور باہر سارے مسافر گھوڑا دوڑ کا لطف اٹھاتے رہے، کچھ پاکستانی ہم سفر تھے، جو بڑی ہتک آمیز نظروں سے ہمیں اور بچوں کو دیکھ رہے تھے کہ بچوں میں بالکل تمیز نہیں ہے مگر غیرملکی مسافروں نے بچوں کو مسکرا کر دیکھا اور ان سے ہاتھ بھی ملایا اور پیار بھی کیا۔
بھئی! ہم پاکستانی ایسے ہی ہیں، جہاز میں بیٹھیں یا ویگن میں، تھوڑی دیر کے لیے وہ ہماری ملکیت ہوجاتی ہے۔ ایک مزے کی بات اور ہے آج کل مال میں جو فوڈ کورٹ وغیرہ ہوتے ہیں وہاں بہت رش ہوتا ہے اکثر لوگ ایک سیٹ پر سامان وغیرہ رکھ لیتے ہیں، اگر کوئی سیٹ کے لیے پوچھ لے کہ اگر خالی ہو تو ہمیں دے دیں، بڑی نخوت سے منھ بنا کر کہتے ہیں کہ جی نہیں، خالی نہیں ہے ، کوئی آنے والا ہے۔ یقیناً ہم میں سے کسی نہ کسی نے کبھی نہ کبھی ایسے کیا ہوگا۔
میاں کے ساتھ دوسرا سفر قاہرہ کا تھا جو آفس کی طرف سے تھا۔ اسی سال ہماری ساس کا انتقال ہوا تھا، ہم بچوں کے ساتھ اکیلے رہ نہیں سکتے تھے، اس لیے ہمیں بھی ساتھ لینا پڑا۔ اس وقت دو بڑے بچے سمجھ دار ہوچکے تھے اور دو دبئی گھوڑا دوڑ والے تھے۔ مگر اب حال یہ تھا کہ میاں تو کانفرنس میں شرکت کرتے اور ہم ہوٹل کی بالکونی سے قاہرہ کا نظارہ کرتے ۔
دو ایک بار میاں کے ساتھ دریائے نیل کے کنارے کھانا کھانے گئے اور احرام مصر دیکھنے کی حسرت لے کر واپس آگئے۔ اور بازارمصر کے چکر لگاتے کے اور رشتے داروں اور دوستوں کے طعنوں تشنوں سے بچنے کی خاطر ان کے لیے تحفے خریدتے رہیے کیوںکہ خالی ہاتھ واپس جانا ہمارے معاشرے میں ''خلاف شرع'' مانا جاتا ہے۔ واپس آ کر یہ بھی تو رعب ڈالنا تھا کہ ہم نے قاہرہ میں خوب تفریح کی اور انجوائے کیا۔ حالاں کہ دو تین دن گھومنے پھرنے کے علاوہ ہوٹل کے کمرے میں بند ہوکر بچوں کے جھگڑے چکانے میں گزر گیا تھا۔
خیر سے جب ہم واپس آئے تو میاں نے اعلان کردیا کہ اب جب تک بچے بڑے نہیں ہوجاتے وہ ہم کو لے کر کہیں نہیں جائیں گے۔ واقعی یہ بھی سچ ہوا، وہ اس کے بعد کئی بار انگلینڈ گئے، زمبابوے گئے اور قاہرہ گئے۔ ایک بار دبئی بھی گئے مگر ہم اور بچے کہیں نہیں گئے۔ واقعی یہ فیصلہ صحیح بھی تھا کہ بچے اتنے شریر تھے کہ اگر جہاز کی کھڑکی کھلنے والی ہوتی تو وہ اس سے بھی کود جاتے۔
اور جس طرح شریر ملکوں پر امریکا معاشی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرکے قابو کرنے کی کوششیں کرتا ہے اسی طرح ہم پر میاں نے سیاحتی پابندیاں عائد کرکے قابو کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ وہ اس طرح تو کام یاب ہوگئیں کہ بچوں کا سارا دھیان پڑھائی کی طرف ہو گیا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ ایک کا امتحان ہو رہا ہے تو دوسرے کی کلاسز ہو رہی ہیں، جن کی چھٹیاں ہوگئیں ہیں وہ کہیں جانے کی ضد کرتے تو انھیں وعدے وعید کرکے قابو کرلیا جاتا تھا۔
مگر دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کے پر نکل آئے، وہ خود ہی اڑنا سیکھ گئے۔ بیٹیاں بیاہی گئیں تو گھونسلے کی رونق چلی گئی، بیٹے کبھی یونیورسٹی کالج والوں کے ساتھ ٹور کرتے، کبھی میچز کھیلنے ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے۔ بیٹیاں اپنی فیملی کے ساتھ گھومتی پھرتی رہتیں اور بیٹے اپنی فیملی کے ساتھ انجوائے کرتے اور گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ رہ گئے ہمارے چھوٹے صاحب زادے عبدالعزیز خان، جنھوں نے ہمارے ساتھ مری، کاغان، سوات کے تو بہت سفر کیے ہیں مگر غیرملکی سفر ایک بار بھی نہیں کیا تھا۔
عزیز کو اسلام آباد اپنے کسی کام سے جانا تھا، واپسی پر ہم ایک ہفتے کے لیے اپنی چھوٹی بیٹی کے پاس لاہور رکے، جب ہم واپس آ رہے تھے تو ہماری سیٹ تو کھڑکی کی سمت تھی، درمیان میں بیٹا اور برابر میں ایک صاحب بیٹھے تھے۔
سیاحت کے کافی شوقین لگتے تھے، ساتھ میں بات چیت کے بھی رسیا تھے۔ انھوں نے جہاز اڑنے سے پہلے ہی عزیز سے مکمل تعارف حاصل کرکے خود اپنا اور اپنے خاندان کا مکمل تعارف کروا دیا تھا۔ ان کا تعلق تو لاہور سے تھا، مگر وہ اسپین میں رہ رہے تھے۔
انھوں نے دوران سفر عزیز کو اسپین کے جغرافیے اور تاریخ سے مکمل آگاہی دے دی تھی اور تمام قابل دید مقامات کی مکمل تفصیل فراہم کردی تھی۔ ہم نے موقع دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں، کیوں کہ کھڑکی سے سوائے بادلوں کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا اور کانوں میں اسپین اسپین کی گونج تھی۔
جب آنکھ کھلی تو ایئرہوسٹس پوچھ رہی تھی، ''میڈم! ٹی اور کافی'' اور ہمارا بیٹا اسپین کے لیے بوریا بستر باندھ چکا تھا۔
لاہور سے کراچی آنے والی پرواز ایک پرائیویٹ کمپنی کی تھی، جس میں معصوم صورت والی دبلی پتلی ہوسٹسز ہوتی ہیں، جن کے ہاتھوں مرد حضرات تو زہر کے جام بھی خوشی خوشی پی سکتے ہیں، مگر ہم خواتین کا معاملہ مختلف ہے۔ ہمیں تو وہ معصوم صورت پری چہرہ چڑیل لگ رہی تھی جس نے پیندے سے ذرا اوپر کڑوی کسیلی کافی کا ڈبڈباتا ہوا کپ ایک ہتھیلی برابر مسکہ بن اور دو انچ کے کیک کے ٹکڑے کے ساتھ آگے رکھ دیا تھا۔ ہمارا دل چاہا کہہ دیں بی بی! دو دن پہلے ہی آپ کی ایئرلائن نے دو ہزار کرایہ بڑھایا ہے، کم ازکم کپ میں کافی ہی زیادہ دے دیتیں۔
عزیز کو معلوم تھا اماں اپ سائز کپ میں چائے یا کافی پیتی ہیں۔ اس سے ان کی داڑھ بھی گیلی نہیں ہوگی، وہ معذرت خواہ لہجے میں بولا، اماں! میں نے آپ کے لیے کافی کا کہا تھا۔ آپ کو بہت نیند آ رہی تھی، اور آپ کے ہلکے ہلکے خراٹے آنا شروع ہوگئے تھے۔
میں نے سوچا آپ کو گہری نیند آجائے اور آپ کے خراٹے پورا جہاز سنے اس سے پہلے آپ کو کافی پی لینی چاہیے۔ ہم نے کہا بیٹا جی! یہ غیر کی بیٹی ہے اس لیے معافی دے دی مگر اپنی بیوی کو سمجھا دینا میری اماں کو کبھی چھوٹے کپ میں چائے مت دینا۔ میرے بیٹے کے کاندھے کے اوپر سے اسپین پلٹ لاہوری گھبرو نے جھانک کر دیکھا، آنٹی جی پانی منگواؤں؟ میرا جواب سنے بغیر اس نے ہوسٹس کو آواز لگائی۔
سنیے جی! ایک پانی کی بوتل تو پکڑا دیں، ماشا اللہ اپنے لاہوریے پوری دنیا گھوم آئیں، رہتے لاہوریے ہی ہیں۔ اسپین ہو یا امریکا ان کا بال بیکا نہیں کرسکتے اور دنیا کی ساری مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ اور ساری دنیا کے بیٹے ماں شناس ہوتے ہیں اور خاص طور پر اس قطع زمین کہ جسے برصغیر کہا جاتا ہے۔
اس نے پانی کی بوتل کھول کر ہمیں پکڑاتے ہوئے کہا میری ماں جی کو بھی اتنے نکے نکے کپوں میں چائے کافی پینا پسند نہیں ہے۔ آپ نے تو لحاظ رکھ لیا مگر میری ماں جی نے تو کپ اس کڑی کے منھ پر مار دینا تھا۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا، ہم نے حیرت سے پوچھا۔ بیٹے ماں کے چہرے کا رنگ پہچان لیتے ہیں، کب ماں کے چہرے پر خوشی کے رنگ ہیں، کب ماں اداس ہوتی ہے، کب ماں غصے میں لال پیلی ہوجاتی ہے۔ اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
میں تو آج ہی ماں جی کی جوتیاں کھا کر آرہا ہوں، بس جی اماں جی نے الٹی میٹم دے دیا ہے بہت کرلی عیاشی، اب سیدھا ہوکر گھر واپس آجا، میں نے تیری شادی کرانی ہے۔
آپ کی شادی نہیں ہوئی! ہم نے حیرت سے نوجوانی کی حدود کراس کرتے جوان کو دیکھا۔ میں دس سال سے اسپین میں ہوں جی، کوئی دس منگنیاں تو ہوئی ہوں گی اب تو تعداد یاد نہیں، دو شادیاں بھی ہوئی تھیں، ایک تو ہفتے میں ختم ہوگئی، دوسری شادی سال ڈیڑھ سال چلی۔ جب ابا جی کی طبیعت خراب تھی تو پاکستان آیا تھا۔ واپس گیا تو بیوی نے طلاق کی ڈگری ڈال دی۔ یہ تو ابا بیمار ہو تو پاکستان جاتا اماں بیمار ہو تو پاکستان چلا جاتا ہے۔
میں نے کہا تینوں کی، میرے باپ کا پیسہ ہے، تیرے باپ کا تو نہیں ہے، تو کھا پی عیش کر۔ مگر جی میمیں تو ہم کو کھوتا سمجھتی ہیں، کھونٹے سے باندھ کر رکھنا چاہتی ہیں۔ میں نے کہا اللہ کی بندی! یہ منڈا ہے تو ادھر رہ رہی ہے ورنہ دس بیس منگنیاں اور دو شادیاں کرنے والا بندہ تیرا پلو پکڑ کر نہیں بیٹھا رہتا۔ مگر جی وہ چلی گئی، بیٹا بھی ساتھ لے گئی، اس کے ہنستے چہرے پر اداسی اور اس کی آنکھوں میں آیا ہوا پانی صاف نظر آ رہا تھا۔
اس نے موبائل کھول کر اپنے بیٹے کی تصویر دکھائی۔ خوب صورت شہزادے جیسا بیٹا باپ کی گود میں تھا، اب ہماری آنکھوں میں بھی آنسو۔ آپ نے اسے روکا کیوں نہیں؟ فائدہ کیا تھا۔ حکومت ان کی، قانون ان کا اور جب میمیں دل میں کچھ ٹھان لیں تو کر گزرتی ہیں۔ ہم جدی پشتی زمیندار ہیں، ہماری شیخوپورہ میں زمینیں ہیں۔ کُھلا پیسا آتا تھا، کھلا خرچہ ہوتا تھا، پڑھائی شڑائی تو کی نہیں، نوکری کی عادت نہیں تھی۔
جب شادی کرلی بچہ ہو گیا تو ابا نے پیسہ بھیج دیا کہ پتر گھر خرید لے۔ اب وہی گھر بیچنے جا رہا ہوں۔ اب وہاں رہنے کا فائدہ، واپس آجاؤں گا اور اماں جی اور ابا جی کے ساتھ رہوں گا۔ اماں کی مرضی سے شادی کروں گا۔ پانچ بیٹوں کے بچے کھلانے کے بعد بھی ان کا ارمان نہیں گیا۔
اس نے پھر خود کو نارمل کرنے کے لیے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ دکھ میں اور سفر میں انسان کے ظرف کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ کام یاب ہو گیا تھا۔ اسی وقت جہاز کے مائیک سے کراچی پہنچنے کی اطلاع دی جانے لگی ساتھ ساتھ سیٹ بیلٹ باندھنے اور جہاز سے اترنے کی بھی ہدایات جاری ہونے لگیں۔
ہم نے سیٹ بیلٹ کھولی ہی نہیں تھی تو باندھتے کیوں، وہی خوب صورت ایئرہوسٹس ایک ایک کو چیک کرتی جا رہی تھی، نوجوان نے اپنا وزیٹنگ کارڈ مجھے پکڑاتے ہوئے کہا، آپ کا کبھی لاہور آنا ہو تو شیخوپورہ ضرور آئیے گا۔ میں اب واپس آ کر زمینوں پر رہوں گا اور آنٹی جی اپنے شہزادے کو ایشین یا کسی بھی یورپی ملک اکیلا مت بھیجے گا۔
آپ ضرور ساتھ جانا۔ اس نے عادت کے مطابق عزیز کے کاندھے پر تھکی دی۔ ہمارا بیٹا جو اتنی دیر ہمارے درمیان خاموش بیٹھا تھا، چٹک کر بولا: آپ پھر اپنی اماں کو ساتھ لے کر کیوں نہیں گئے؟ جوانا! میری اماں گیارہ کی ٹیم میدان میں اتار چکی تھیں۔ میں ان کا بارہواں کھلاڑی تھا۔ ان کی ہمت نہیں بچی تھی، مگر آنٹی کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے تو سولو ٹرپ کرنا تھا، بیٹے نے منھ بسورا۔ اس نے ہمارے بیٹے کے کاندھے پر پھر تھپکی دی۔ میں بھی سولو ٹرپ کرنے گیا تھا، ٹرپ ہوگیا، کچھ بھی نہیں بچا یار! نہ دولت نہ اولاد۔
اس وقت جہاز کے پہیے زمین سے ٹکرائے اور وہ رن وے پر دوڑنے لگا۔ جہاز میں خاموشی تھی، یا تو جہاز کو ٹیکسی کرنے میں دیر لگ گئی تھی، یا مسافروں کی آپس میں جدائی کا وہ لمحہ تھا جو ہر سفر کے اختتام پر آتا ہے۔
ہم سفر کو زندگی ماننے والے ہیں۔ اختتام کے بعد ایک نئی تر و تازہ زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ جہاز ہلکی سی گڑگڑاہٹ کے بعد رک گیا، جہاز کے اندر بھی ہلچل مچ گئی، ہر مسافر کو اپنے ہینڈ کیری کی فکر پڑی تھی۔ کھٹ کھٹاکھٹ ہینڈ کیری اتارے جا رہے تھے۔
اس نے ہمارے بیٹے کو گرم جوشی سے الوداع کہا۔ ہمیں بھی خدا حافظ کہا، خدا ''حافظ چوہدری محمد اسحاق'' ہم نے کارڈ پر نام پڑھ کر اسے اپنے بیگ میں رکھ لیا۔
جدائی کے بعد ایک بار پھر ملن کا لمحہ آگیا۔ ہم پندرہ دن بعد گھر واپس آ رہے تھے۔ ہمیں معلوم تھا سعید ایئرپورٹ کے باہر ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ہماری دوست نبراس سہیل نے اولگاٹکارچک کے نوبیل انعام یافتہ ناول Flight کا ترجمہ ''پرواز'' کے نام سے کیا اور ہمیں وہ ناول تحفے میں بھجوایا۔ یہ ناول ہمارے ہینڈ کیری میں موجود رہتا ہے جو ہم اکثر فرصت ملتے ہی پڑھتے ہیں۔ یہ ناول ہمیں بہت پسند آیا ہے۔ اس ناول سے ایک اقتباس:
''وسیع و عریض ہوائی اڈے اگلی پرواز سے ملحق کرنے کے وعدے پر ہمیں ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں۔ یہ نقل و حرکت کے لیے منتقلی کی ترتیب اور نظام اوقات کی تنظیم ہے۔ لیکن اگر ہمیں اگلے کچھ روز کہیں نہ جانا ہو تو بھی ان مقامات کو جاننا ہی اپنے اندر بہت اہم ہے۔''
ہمارا یہ پہلا پڑاؤ تھا، دوسرا پڑاؤ یہیں سے شروع کریں گے۔
(جاری ہے)
ہم سفر کو زندگی مانتے ہیں۔
ابھی تک جتنے بھی سفر کیے تھے وہ اندرون ملک تھے، بیرون ملک سفر جب کیا تھا، جب بچے بہت چھوٹے تھے، جہاز کا سفر تو بچہ سنبھالتے گزر گیا تھا۔
ایک کو باتھ روم سے لے کر آؤ، تو دوسرا جانے کی ضد کرنے لگتا تھا۔ ایک میاں کی گود میں، ایک ہماری گود میں۔ ایک کو دودھ کی بوتل پکڑاتی تو دوسرا اماں، اماں کی ضد پکڑ لیتا۔ اس کو بہلاتی تو پہلا والا شور مچانے لگتا۔ ایسے میں کیا لندن کیا کراچی، کیسا جہاز کا سفر۔ سارا وقت تو بچے سنبھالتے گزر گیا۔
ایک جیٹھ ساؤتھ شیلڈ میں رہتے تھے، دوسرے جرمنی ڈوبیل ڈرف میں۔ مگر جو حال بچوں نے کیا تھا تو ہم نے جرمنی جانے کا ارادہ ملتوی کردیا اور جرمنی جانے کی بجائے کراچی واپس آگئے۔
جب دوسرا سفر کیا تو بچے اتنے چھوٹے نہ تھے کہ بچوں کو باتھ روم لاتے لے جاتے اور دودھ کی بوتلیں بھرتے اور پلاتے گزر جاتا، مگر جہاز کے اندر اور باہر سارے مسافر گھوڑا دوڑ کا لطف اٹھاتے رہے، کچھ پاکستانی ہم سفر تھے، جو بڑی ہتک آمیز نظروں سے ہمیں اور بچوں کو دیکھ رہے تھے کہ بچوں میں بالکل تمیز نہیں ہے مگر غیرملکی مسافروں نے بچوں کو مسکرا کر دیکھا اور ان سے ہاتھ بھی ملایا اور پیار بھی کیا۔
بھئی! ہم پاکستانی ایسے ہی ہیں، جہاز میں بیٹھیں یا ویگن میں، تھوڑی دیر کے لیے وہ ہماری ملکیت ہوجاتی ہے۔ ایک مزے کی بات اور ہے آج کل مال میں جو فوڈ کورٹ وغیرہ ہوتے ہیں وہاں بہت رش ہوتا ہے اکثر لوگ ایک سیٹ پر سامان وغیرہ رکھ لیتے ہیں، اگر کوئی سیٹ کے لیے پوچھ لے کہ اگر خالی ہو تو ہمیں دے دیں، بڑی نخوت سے منھ بنا کر کہتے ہیں کہ جی نہیں، خالی نہیں ہے ، کوئی آنے والا ہے۔ یقیناً ہم میں سے کسی نہ کسی نے کبھی نہ کبھی ایسے کیا ہوگا۔
میاں کے ساتھ دوسرا سفر قاہرہ کا تھا جو آفس کی طرف سے تھا۔ اسی سال ہماری ساس کا انتقال ہوا تھا، ہم بچوں کے ساتھ اکیلے رہ نہیں سکتے تھے، اس لیے ہمیں بھی ساتھ لینا پڑا۔ اس وقت دو بڑے بچے سمجھ دار ہوچکے تھے اور دو دبئی گھوڑا دوڑ والے تھے۔ مگر اب حال یہ تھا کہ میاں تو کانفرنس میں شرکت کرتے اور ہم ہوٹل کی بالکونی سے قاہرہ کا نظارہ کرتے ۔
دو ایک بار میاں کے ساتھ دریائے نیل کے کنارے کھانا کھانے گئے اور احرام مصر دیکھنے کی حسرت لے کر واپس آگئے۔ اور بازارمصر کے چکر لگاتے کے اور رشتے داروں اور دوستوں کے طعنوں تشنوں سے بچنے کی خاطر ان کے لیے تحفے خریدتے رہیے کیوںکہ خالی ہاتھ واپس جانا ہمارے معاشرے میں ''خلاف شرع'' مانا جاتا ہے۔ واپس آ کر یہ بھی تو رعب ڈالنا تھا کہ ہم نے قاہرہ میں خوب تفریح کی اور انجوائے کیا۔ حالاں کہ دو تین دن گھومنے پھرنے کے علاوہ ہوٹل کے کمرے میں بند ہوکر بچوں کے جھگڑے چکانے میں گزر گیا تھا۔
خیر سے جب ہم واپس آئے تو میاں نے اعلان کردیا کہ اب جب تک بچے بڑے نہیں ہوجاتے وہ ہم کو لے کر کہیں نہیں جائیں گے۔ واقعی یہ بھی سچ ہوا، وہ اس کے بعد کئی بار انگلینڈ گئے، زمبابوے گئے اور قاہرہ گئے۔ ایک بار دبئی بھی گئے مگر ہم اور بچے کہیں نہیں گئے۔ واقعی یہ فیصلہ صحیح بھی تھا کہ بچے اتنے شریر تھے کہ اگر جہاز کی کھڑکی کھلنے والی ہوتی تو وہ اس سے بھی کود جاتے۔
اور جس طرح شریر ملکوں پر امریکا معاشی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرکے قابو کرنے کی کوششیں کرتا ہے اسی طرح ہم پر میاں نے سیاحتی پابندیاں عائد کرکے قابو کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ وہ اس طرح تو کام یاب ہوگئیں کہ بچوں کا سارا دھیان پڑھائی کی طرف ہو گیا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ ایک کا امتحان ہو رہا ہے تو دوسرے کی کلاسز ہو رہی ہیں، جن کی چھٹیاں ہوگئیں ہیں وہ کہیں جانے کی ضد کرتے تو انھیں وعدے وعید کرکے قابو کرلیا جاتا تھا۔
مگر دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کے پر نکل آئے، وہ خود ہی اڑنا سیکھ گئے۔ بیٹیاں بیاہی گئیں تو گھونسلے کی رونق چلی گئی، بیٹے کبھی یونیورسٹی کالج والوں کے ساتھ ٹور کرتے، کبھی میچز کھیلنے ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے۔ بیٹیاں اپنی فیملی کے ساتھ گھومتی پھرتی رہتیں اور بیٹے اپنی فیملی کے ساتھ انجوائے کرتے اور گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ رہ گئے ہمارے چھوٹے صاحب زادے عبدالعزیز خان، جنھوں نے ہمارے ساتھ مری، کاغان، سوات کے تو بہت سفر کیے ہیں مگر غیرملکی سفر ایک بار بھی نہیں کیا تھا۔
عزیز کو اسلام آباد اپنے کسی کام سے جانا تھا، واپسی پر ہم ایک ہفتے کے لیے اپنی چھوٹی بیٹی کے پاس لاہور رکے، جب ہم واپس آ رہے تھے تو ہماری سیٹ تو کھڑکی کی سمت تھی، درمیان میں بیٹا اور برابر میں ایک صاحب بیٹھے تھے۔
سیاحت کے کافی شوقین لگتے تھے، ساتھ میں بات چیت کے بھی رسیا تھے۔ انھوں نے جہاز اڑنے سے پہلے ہی عزیز سے مکمل تعارف حاصل کرکے خود اپنا اور اپنے خاندان کا مکمل تعارف کروا دیا تھا۔ ان کا تعلق تو لاہور سے تھا، مگر وہ اسپین میں رہ رہے تھے۔
انھوں نے دوران سفر عزیز کو اسپین کے جغرافیے اور تاریخ سے مکمل آگاہی دے دی تھی اور تمام قابل دید مقامات کی مکمل تفصیل فراہم کردی تھی۔ ہم نے موقع دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں، کیوں کہ کھڑکی سے سوائے بادلوں کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا اور کانوں میں اسپین اسپین کی گونج تھی۔
جب آنکھ کھلی تو ایئرہوسٹس پوچھ رہی تھی، ''میڈم! ٹی اور کافی'' اور ہمارا بیٹا اسپین کے لیے بوریا بستر باندھ چکا تھا۔
لاہور سے کراچی آنے والی پرواز ایک پرائیویٹ کمپنی کی تھی، جس میں معصوم صورت والی دبلی پتلی ہوسٹسز ہوتی ہیں، جن کے ہاتھوں مرد حضرات تو زہر کے جام بھی خوشی خوشی پی سکتے ہیں، مگر ہم خواتین کا معاملہ مختلف ہے۔ ہمیں تو وہ معصوم صورت پری چہرہ چڑیل لگ رہی تھی جس نے پیندے سے ذرا اوپر کڑوی کسیلی کافی کا ڈبڈباتا ہوا کپ ایک ہتھیلی برابر مسکہ بن اور دو انچ کے کیک کے ٹکڑے کے ساتھ آگے رکھ دیا تھا۔ ہمارا دل چاہا کہہ دیں بی بی! دو دن پہلے ہی آپ کی ایئرلائن نے دو ہزار کرایہ بڑھایا ہے، کم ازکم کپ میں کافی ہی زیادہ دے دیتیں۔
عزیز کو معلوم تھا اماں اپ سائز کپ میں چائے یا کافی پیتی ہیں۔ اس سے ان کی داڑھ بھی گیلی نہیں ہوگی، وہ معذرت خواہ لہجے میں بولا، اماں! میں نے آپ کے لیے کافی کا کہا تھا۔ آپ کو بہت نیند آ رہی تھی، اور آپ کے ہلکے ہلکے خراٹے آنا شروع ہوگئے تھے۔
میں نے سوچا آپ کو گہری نیند آجائے اور آپ کے خراٹے پورا جہاز سنے اس سے پہلے آپ کو کافی پی لینی چاہیے۔ ہم نے کہا بیٹا جی! یہ غیر کی بیٹی ہے اس لیے معافی دے دی مگر اپنی بیوی کو سمجھا دینا میری اماں کو کبھی چھوٹے کپ میں چائے مت دینا۔ میرے بیٹے کے کاندھے کے اوپر سے اسپین پلٹ لاہوری گھبرو نے جھانک کر دیکھا، آنٹی جی پانی منگواؤں؟ میرا جواب سنے بغیر اس نے ہوسٹس کو آواز لگائی۔
سنیے جی! ایک پانی کی بوتل تو پکڑا دیں، ماشا اللہ اپنے لاہوریے پوری دنیا گھوم آئیں، رہتے لاہوریے ہی ہیں۔ اسپین ہو یا امریکا ان کا بال بیکا نہیں کرسکتے اور دنیا کی ساری مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ اور ساری دنیا کے بیٹے ماں شناس ہوتے ہیں اور خاص طور پر اس قطع زمین کہ جسے برصغیر کہا جاتا ہے۔
اس نے پانی کی بوتل کھول کر ہمیں پکڑاتے ہوئے کہا میری ماں جی کو بھی اتنے نکے نکے کپوں میں چائے کافی پینا پسند نہیں ہے۔ آپ نے تو لحاظ رکھ لیا مگر میری ماں جی نے تو کپ اس کڑی کے منھ پر مار دینا تھا۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا، ہم نے حیرت سے پوچھا۔ بیٹے ماں کے چہرے کا رنگ پہچان لیتے ہیں، کب ماں کے چہرے پر خوشی کے رنگ ہیں، کب ماں اداس ہوتی ہے، کب ماں غصے میں لال پیلی ہوجاتی ہے۔ اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
میں تو آج ہی ماں جی کی جوتیاں کھا کر آرہا ہوں، بس جی اماں جی نے الٹی میٹم دے دیا ہے بہت کرلی عیاشی، اب سیدھا ہوکر گھر واپس آجا، میں نے تیری شادی کرانی ہے۔
آپ کی شادی نہیں ہوئی! ہم نے حیرت سے نوجوانی کی حدود کراس کرتے جوان کو دیکھا۔ میں دس سال سے اسپین میں ہوں جی، کوئی دس منگنیاں تو ہوئی ہوں گی اب تو تعداد یاد نہیں، دو شادیاں بھی ہوئی تھیں، ایک تو ہفتے میں ختم ہوگئی، دوسری شادی سال ڈیڑھ سال چلی۔ جب ابا جی کی طبیعت خراب تھی تو پاکستان آیا تھا۔ واپس گیا تو بیوی نے طلاق کی ڈگری ڈال دی۔ یہ تو ابا بیمار ہو تو پاکستان جاتا اماں بیمار ہو تو پاکستان چلا جاتا ہے۔
میں نے کہا تینوں کی، میرے باپ کا پیسہ ہے، تیرے باپ کا تو نہیں ہے، تو کھا پی عیش کر۔ مگر جی میمیں تو ہم کو کھوتا سمجھتی ہیں، کھونٹے سے باندھ کر رکھنا چاہتی ہیں۔ میں نے کہا اللہ کی بندی! یہ منڈا ہے تو ادھر رہ رہی ہے ورنہ دس بیس منگنیاں اور دو شادیاں کرنے والا بندہ تیرا پلو پکڑ کر نہیں بیٹھا رہتا۔ مگر جی وہ چلی گئی، بیٹا بھی ساتھ لے گئی، اس کے ہنستے چہرے پر اداسی اور اس کی آنکھوں میں آیا ہوا پانی صاف نظر آ رہا تھا۔
اس نے موبائل کھول کر اپنے بیٹے کی تصویر دکھائی۔ خوب صورت شہزادے جیسا بیٹا باپ کی گود میں تھا، اب ہماری آنکھوں میں بھی آنسو۔ آپ نے اسے روکا کیوں نہیں؟ فائدہ کیا تھا۔ حکومت ان کی، قانون ان کا اور جب میمیں دل میں کچھ ٹھان لیں تو کر گزرتی ہیں۔ ہم جدی پشتی زمیندار ہیں، ہماری شیخوپورہ میں زمینیں ہیں۔ کُھلا پیسا آتا تھا، کھلا خرچہ ہوتا تھا، پڑھائی شڑائی تو کی نہیں، نوکری کی عادت نہیں تھی۔
جب شادی کرلی بچہ ہو گیا تو ابا نے پیسہ بھیج دیا کہ پتر گھر خرید لے۔ اب وہی گھر بیچنے جا رہا ہوں۔ اب وہاں رہنے کا فائدہ، واپس آجاؤں گا اور اماں جی اور ابا جی کے ساتھ رہوں گا۔ اماں کی مرضی سے شادی کروں گا۔ پانچ بیٹوں کے بچے کھلانے کے بعد بھی ان کا ارمان نہیں گیا۔
اس نے پھر خود کو نارمل کرنے کے لیے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ دکھ میں اور سفر میں انسان کے ظرف کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ کام یاب ہو گیا تھا۔ اسی وقت جہاز کے مائیک سے کراچی پہنچنے کی اطلاع دی جانے لگی ساتھ ساتھ سیٹ بیلٹ باندھنے اور جہاز سے اترنے کی بھی ہدایات جاری ہونے لگیں۔
ہم نے سیٹ بیلٹ کھولی ہی نہیں تھی تو باندھتے کیوں، وہی خوب صورت ایئرہوسٹس ایک ایک کو چیک کرتی جا رہی تھی، نوجوان نے اپنا وزیٹنگ کارڈ مجھے پکڑاتے ہوئے کہا، آپ کا کبھی لاہور آنا ہو تو شیخوپورہ ضرور آئیے گا۔ میں اب واپس آ کر زمینوں پر رہوں گا اور آنٹی جی اپنے شہزادے کو ایشین یا کسی بھی یورپی ملک اکیلا مت بھیجے گا۔
آپ ضرور ساتھ جانا۔ اس نے عادت کے مطابق عزیز کے کاندھے پر تھکی دی۔ ہمارا بیٹا جو اتنی دیر ہمارے درمیان خاموش بیٹھا تھا، چٹک کر بولا: آپ پھر اپنی اماں کو ساتھ لے کر کیوں نہیں گئے؟ جوانا! میری اماں گیارہ کی ٹیم میدان میں اتار چکی تھیں۔ میں ان کا بارہواں کھلاڑی تھا۔ ان کی ہمت نہیں بچی تھی، مگر آنٹی کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے تو سولو ٹرپ کرنا تھا، بیٹے نے منھ بسورا۔ اس نے ہمارے بیٹے کے کاندھے پر پھر تھپکی دی۔ میں بھی سولو ٹرپ کرنے گیا تھا، ٹرپ ہوگیا، کچھ بھی نہیں بچا یار! نہ دولت نہ اولاد۔
اس وقت جہاز کے پہیے زمین سے ٹکرائے اور وہ رن وے پر دوڑنے لگا۔ جہاز میں خاموشی تھی، یا تو جہاز کو ٹیکسی کرنے میں دیر لگ گئی تھی، یا مسافروں کی آپس میں جدائی کا وہ لمحہ تھا جو ہر سفر کے اختتام پر آتا ہے۔
ہم سفر کو زندگی ماننے والے ہیں۔ اختتام کے بعد ایک نئی تر و تازہ زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ جہاز ہلکی سی گڑگڑاہٹ کے بعد رک گیا، جہاز کے اندر بھی ہلچل مچ گئی، ہر مسافر کو اپنے ہینڈ کیری کی فکر پڑی تھی۔ کھٹ کھٹاکھٹ ہینڈ کیری اتارے جا رہے تھے۔
اس نے ہمارے بیٹے کو گرم جوشی سے الوداع کہا۔ ہمیں بھی خدا حافظ کہا، خدا ''حافظ چوہدری محمد اسحاق'' ہم نے کارڈ پر نام پڑھ کر اسے اپنے بیگ میں رکھ لیا۔
جدائی کے بعد ایک بار پھر ملن کا لمحہ آگیا۔ ہم پندرہ دن بعد گھر واپس آ رہے تھے۔ ہمیں معلوم تھا سعید ایئرپورٹ کے باہر ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ہماری دوست نبراس سہیل نے اولگاٹکارچک کے نوبیل انعام یافتہ ناول Flight کا ترجمہ ''پرواز'' کے نام سے کیا اور ہمیں وہ ناول تحفے میں بھجوایا۔ یہ ناول ہمارے ہینڈ کیری میں موجود رہتا ہے جو ہم اکثر فرصت ملتے ہی پڑھتے ہیں۔ یہ ناول ہمیں بہت پسند آیا ہے۔ اس ناول سے ایک اقتباس:
''وسیع و عریض ہوائی اڈے اگلی پرواز سے ملحق کرنے کے وعدے پر ہمیں ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں۔ یہ نقل و حرکت کے لیے منتقلی کی ترتیب اور نظام اوقات کی تنظیم ہے۔ لیکن اگر ہمیں اگلے کچھ روز کہیں نہ جانا ہو تو بھی ان مقامات کو جاننا ہی اپنے اندر بہت اہم ہے۔''
ہمارا یہ پہلا پڑاؤ تھا، دوسرا پڑاؤ یہیں سے شروع کریں گے۔
(جاری ہے)