جدید بلوچ سیاست اور بی ایس او

کسی زمانے میں بی ایس او کی فکری لائن متعین کرنے والے دانش ور طبقے کو نوجوانوں نے حاشیے پر لا پھینکا ...

khanabadosh81@gmail.com

قبائلی سماج کی اقدار بھی عمومی سماجی اقدار سے مختلف ہوتی ہیں،اب وہ آئیڈیل قبائلی سماج تو خواب ہوئے جن کی بنیاد اصول ومساوات پر قائم ہو اس لیے یہ واضح رہے کہ ہم اس قبائلی سماج کی بات کر رہے ہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں جہاں سروائیول آف فٹسٹس کا قانون لاگو ہوتا ہے، جہاں زندگی اور اس کی تمام مراعات پر یا تو سردارکا حق ہے یا ان کا جن کی پشت پر سردار کا ہاتھ ہے۔ اس سماج کا ہر فرد اپنے تئیں سردار و نواب ہے جس کی ہر فکر ، ہر عمل حرفِ آخر ہے۔

اس سے آگے سوچنا ، اس پر سوال اٹھانا، حتیٰ کہ اس کی طرح نہ سوچنا بھی گناہِ کبیرہ ہے، غداری ہے ۔ اس لیے ایسے میں اگر کوئی سر پھرا آگے بڑھ کر نہ صرف سوال اٹھائے بلکہ اس سارے ڈھانچے کی فکری بنیادوں کو ہلا ڈالے ،جس کو سماج کی اکثریت برسوں تک اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہو، تو اورکچھ نہ سہی تو اس کی ایمانداری اور حوصلے کی داد تو ضرور دینی چاہیے۔ آج سے چند برس پیشتربلوچستان میں عبدالرحیم ظفر نے ''سنگ ِ لرزاں؛ بی ایس او تشکیل سے تقسیم تک'' لکھ کر ایسی ہی جرأتِ رندانہ کا ثبوت دیا۔

جدید بلوچ سیاست کی تاریخ میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا وہی مقام ہے جوعبدالعزیز کرد اور یوسف عزیز کی قایم کردہ اولین تنظیم انجمن اتحادِ بلوچاں کا یا پہلی باضابطہ سیاسی جماعت قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کا۔بلوچ سیاست میں نئے خون کا آغاز ہی اسی سے نہیں ہوتا بلکہ آج تک نوابوں اور سرداروں کی پارٹیوں کو اقتدار تک پہنچانے والا یہی جوان خون ہے ، جو نعرے مار مار کر، وال چاکنگ کر کر کے، اپنے کندھوں پہ اٹھا اٹھاکر اپنے قائدین کو اقتدار کے ایوان تک پہنچاتے رہے ہیں اورجہاں ان کے قائدین ان کی جوانیوں اور خوابوں کو دفن کرتے رہے ہیں۔

یہ خواب شکنی اس قدر اور اتنی بار ہوئی کہ پھر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہاں سے اٹھے اور آنیوالوں کو اتنا ہی بتا سکے کہ اس راہ میں کانٹے کتنے ہیں،کہاں کتنی کھائیاں ہیں اور کہاں ،کس مقام پہ رہبر ،رہزن کا روپ دھار لیتا ہے۔ بی ایس او کی تشکیل اور پھر اس کی تقسیم کے مرکزی کرداروں میں سے ایک اہم کردار، عبدالرحیم ظفر نے پہلی بار اس گواہی کوتحریری شکل دے کر بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کے لیے کئی فکری دَر وَا کر دیے۔

ہندوستان کی تقسیم والے برس ،1947ء میں تحصیل جیونی کے ایک چھوٹے سے گائوں میں جنمے، رحیم ظفر بی ایس او کی چوتھی کابینہ 1965-66ء میں سیکریٹری جنرل کے عہدے پر متمکن رہے۔یہ وہی دور تھا جب ملک بھر میں اور بالخصوص بلوچستان میں نیپ کا طوطی بولتا تھا۔ بلوچستان کے سرکردہ سیاسی رہنما، میر بزنجو، نواب مری، سردار مینگل، نواب بگٹی، میر گل خان، ہم فکر و ہم راہ تھے۔ بلوچستان میں ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ قوم انھیں نجات دہندہ سمجھتی تھی۔ بیشتر سیاسی و نظریاتی اختلافات کے باوجود بلوچستان کی سیاست میں نیپ اور مذکورہ بالا شخصیات کے کردار و اہمیت سے کبھی کسی سیاسی فرد کو انکار نہیں رہا۔


یہ تو ابھی چند برس قبل نواب مری کی جانب سے ایک انٹرویو میں نیپ میں شمولیت کو اپنی سیاسی غلطی قرار دینے کے بعد بلوچ جوانوں کی جانب سے نیپ اور بزنجو کو گالیاں دینے کا 'باضابطہ سلسلہ' شروع ہوا ،ورنہ بلوچستان کا پڑھا لکھا طبقہ آج بھی اس جماعت اور اس قائد کو بصدِ احترام یاد کرتا ہے۔بھلا اس حقیقت سے کس کو مفر ہے کہ بشمول نواب مری و بگٹی و مینگل کے کون تھا جو میر بزنجو کی شخصیت کے سحر سے محفوظ رہا ہو۔ نیپ میں شمولیت کو سیاسی غلطی قرار دینے والے نواب مری اب بھی انھیں اپنا 'استاد' کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔رحیم ظفر اور ان کے ساتھی بھی اسی سحر انگیز شخصیت کی سیاسی تربیت کا حصہ رہے لیکن ان کے تمام تر سحر کے باوجود انھوں نے اندھی تقلید سے انکار کر دیا۔

تمام تر احترام کے باوجود انھوں نے محض قائد کے فیصلے کے تحت اپنے سیاسی اصولوں کی قربانی سے انکار کر دیا ، اور ان کے بقول یہی بی ایس او کی تقسیم کا بنیادی سبب تھا۔ اس اختلاف کاایک بنیادی سبب قائدین کا رویہ بھی تھا جنہوں نے پہلے تو بلوچ نوجوانوں کو سہانے خواب دکھائے اور پھر انھیں وال چاکنگ پہ لگا کر ووٹ کے حصول کی دوڑ لگا دی۔ رحیم ظفر کے یہ فقرے بلاشبہ ایک مخلص سیاسی کارکن کے خوابوں کی نوحہ گری کا اعلیٰ نمونہ ہیں،جو انھوں نے اپنے قائدین سے سخت محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھے ،کہ :''انھوں نے وقت سے پہلے جذبہ جہاد کی چنگاریوں کو دہکتا ہوا شعلہ بنا دیا تھا ۔ان شعلوں کی روشنی میں ان کے چہرے دیوتائوں کی طرح دمکتے چمکتے پاک و شفاف نظر آتے تھے، ان کے پیروکار اور ماننے والے یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان دیوتائوں کی مجبوریاں بھی ہو سکتی ہیں یا وہ کوئی غلطی بھی کر سکتے ہیں'' (ص،87)

وقت کے ساتھ دیوتا بدلتے رہے،لیکن ان کا عمل وہی رہا۔ یوں بلوچ طلبا تنظیم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتی رہی۔ اس تنظیم کا احیا سن دوہزار کے قریب ایک بار پھر اُس وقت ہوا جب اللہ نذر نامی نوجوان نے تنظیم کو پارلیمانی سیاسی تنظیموں کے اثر سے الگ کرنے کے لیے 'آزاد'کے نام سے ایک الگ دھڑا تشکیل دے دیا۔یہ نوجوان اور اس کے ساتھی نہایت پڑھے لکھے تھے، ذہین تھے، علم دوست تھے۔ سو،بلوچ نوجوان جوق در جوق ان کے گرد جمع ہونے لگے۔بی ایس او کا یہ دھڑا بہت تیزی سے بلوچ طلبہ کا نمایندہ بن کر ابھرا۔ دو ہزار چار میں ڈاکٹر اللہ نذر لاپتہ ہوئے تو ان کی تنظیم کے وائس چیئرمین نے ان کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ یہ بلوچ مزاحمتی تحریک کے ابتدائی ایام تھے۔ اس بھوک احتجاج کے نتیجے میں اللہ نذر اور ان کے ساتھی منظرعام پہ لائے گئے۔

معمولی نوعیت کے مقدمات کے اندراج کے بعد شخصی ضمانت پہ رہا کر دیے گئے۔بعدازاں اللہ نذر نے مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ جوائن کر لی۔بی ایس او کا 'آزاد' نامی دھڑا ان کی فکر کے زیر اثر مزاحمتی فکر سے جڑا رہا۔ اس لیے اس سے جڑے طلبا پر عتاب نازل ہوتا رہا۔ پہلے پہل ان کے کارکن اغوا ہوئے۔ پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں۔دوہزار آٹھ میں دو برس کے لیے منتخب ہونے والی کابینہ حالات کی سنگینی کے باعث چار برس تک اپنا کونسل سیشن تک منعقد نہ کر سکی ۔اسی دوران تنظیم کے مرکزی وائس چیئرمین ذاکر مجید کو لاپتا کر دیا گیا ۔ جس کی رہائی کے لیے اس کی جوان بہن فرزانہ مجید دو برسوں سے احتجاج پہ ہے، اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ہونے والے ماما قدیر کے تاریخی لانگ مارچ میں بھی شامل رہی ۔ لیکن اس کے باوجود تنظیم اپنی حکمت عملی میں کسی قسم کی تبدیلی کی روادار نہ ہوئی۔

کسی زمانے میں بی ایس او کی فکری لائن متعین کرنے والے دانش ور طبقے کو نوجوانوں نے حاشیے پر لا پھینکا۔جو ایک آدھ اساتذہ آگے آئے، انھوں نے بھی نوجوانوں کی فکری رہنمائی کرنے کی بجائے ان کی رہنمائی میں چلنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ کہ نہ تو وہ اساتذہ رہے، نہ وہ کارکن باقی بچے۔کیمو فلاج کے باوجود تنظیم کی مرکزی قیادت نشانہ بنائی جا چکی۔مرکزی چیئرمین کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے جاری بھوک ہڑتالی کیمپ کو ایک ماہ ہونے کو آیا۔بھوک ہڑتال پہ بیٹھے نوجوان کی جان جاتی نظر آتی ہے۔بلوچ طلبا کو خون کے اس دریا میں دھکیلنے والے ایک طرف ہو چکے۔تنظیم کے فیصلے اب ناتجربہ کار نوجوان قیادت کے ہاتھ میں ہیں۔جس کا اخلاص تو شبے سے بالاتر سہی، مگر یہ خلوص سیاست میں کچے پن کی گواہی بھی دے رہا ہے۔

بلوچ نوجوانوں کو وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ازسر نو تنظیم سازی پہ غور کرنا ہوگا۔تنظیمی سطح پرجذبات کی رو میں بہہ کر کیے گئے فیصلوں کی پشیمانی عمر بھر کا روگ ہی نہیں بنتی، پورے سماج کی چولیں بھی ہلا دیتی ہے، اور اس کا نتیجہ بی ایس او کی تشکیل سے تقسیم تک کی کہانی بیان کرنے والے عمر رسیدہ ،سرد و گرم چشیدہ رحیم ظفر کے اس الم ناک تجربے کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ،'' اب سوائے زخم چاٹنے اور بے کار درخت (گز) کو اس امید کے ساتھ کہ شاید اس میں شہد کا چھتہ ہو، منہ مارنے کے اور کوئی چارہ نہیں۔''
Load Next Story