کیا بیوہ عورت کو جینے کا حق نہیں
سماجی رویے اور حقوق و فرائض کے بیچ لٹکتا یہ موضوع نظراندازکیوں
سردیوں کی یخ ٹھٹھرتی رات میں ایک مخدوش الحال ضعیف خاتون نے تندور والے سے التجائیہ انداز میں دو روٹیوں کا سوال کیا۔ تندور پر کھڑے دونوں افراد نے ایک دوسرے کو معنی خیز انداز میں دیکھا اور بڑھیا سے کہنے لگے '' دو روٹی کا کیا کرو گی اماں'' وہ مخبوط الحواس بھی معلوم ہوتی تھی مگر تھی نہیں۔ وہ لمبا سانس لے کر کہنے لگی ایک روٹی میںا ور دوسری میری بہن کھائے گی۔
اس لمحے اس کی آواز میں اس قدر یاسیت بھری تھی کہ ارد گرد کے شور میں سکوت چھا گیا ہو۔ وہ جیسے کسی سامع کی متلاشی تھی جو اس کا غم اس کا درد سن سکے۔ اور تندور والے کے سوال نے گویا سوال سے اس بند میں چھید کر ڈالا تھا جو اس نے اپنے دکھوں پہ باندھ رکھا تھا۔ وہ کہنے لگی ہم دو بیوہ بہنیں ہیں اور ہمارا کوئی نہیں ایک بھانجے نے ہم پر ترس کھا کر ہمیں اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے نہ کوئی آسرا ہے نہ ٹھکانہ، مرحوم شوہر کی پینشن سے میں اور میری بہن اپنا گزر بسر کرتے ہیں ایک ایک روٹی صبح اور ایک شام کو کھاتے ہیں۔
کبھی نمک میںپانی ملا کر تو کبھی پیاز کے ساتھ۔ کون ہے ہمارا یہاں! اس سے آگے سننے کے لئے جو ہمت درکار ہے وہ شاید اس معاشرے کی اکثریت میں نہیں۔ نجانے اس معاشرے میں کتنی ہی عورتیں بیوگی میں مُردوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں المیہ یہ ہے کہ خواتین کو پہلے اپنے حقوق و فرائض سے درست انداز میں واقفیت ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو ان کی فراہمی ممکن نہیں۔ آبادی کا یہ نصف حصہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے تگ و دو میں لگا ہے۔
جب کوئی خاتون بیوہ ہو جاتی ہے تو یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ وہ زندہ جسم میں ایک مردہ کی مانند ہے زندگی کے سارے رنگ اور خوشیاں اب اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ وہ کسی دوسری عورت کی طرح زندگی کو نارمل انداز میں نہیں گزار سکتی۔ جوانی میں بیوہ ہونے والی عورت کو معاشرہ چیل کووں کی طرح چیڑ پھاڑ کر کھانے کو تیار رہتا ہے اور اگر یہ دور بڑھاپے میں آجائے تو اسے ناسور سمجھ کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور بیوہ عورت اگر اپنے تخفظ کے لئے دوسری شادی کرتی ہے تو اس کو عیاش اور بری عورت قرار دیا جاتا ہے۔سماج کا یہ رویہ پہلے سے ہی دکھی اور ٹوٹی ہوئی عورت کو مسمار کر دیتا ہے۔جو اس کی ذہنی صحت کو بھی برباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
ایک عورت جس کا شوہر وفات پا جائے اس کی زندگی غم و الم اور حسرت و نامرادی کا مظہر بن جاتی ہے۔ پرانے وقتوں میں بیوہ کا مرحوم شوہر کے ترکے میں کوئی حصہ نہ تھا اور لوگ اس کے ساتھ غلاموں والا سلوک کیا کرتے تھے۔اور ہندووں میں تو بیواؤں کو دوسری شادی تک کی اجازت نہ تھی بلکہ کچھ تو شوہر کے ساتھ جل کر مر جایا کرتی تھیں اور کچھ بیوگی کے بعد اپنے اوپر زندگی کی ساری راحتیں حرام کر لیتیں۔
اسلام نے بیواؤں کے حقوق کو واضح کرتے ہوئے انھیں شوہر کی وراثت میں حصہ دیا اور تاعمر سوگ کو محدود کر کے چار ماہ دس دن عدت کے دن مقرر کئے اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک اپنے رنج و اُلم کے ہلکا ہوجانے تک کی مہلت دی۔اگر مہر شوہر کی زندگی میں ادا نہ ہوا ہو تو وراثت میں سے سب سے پہلے مہر کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ۔ اگر صاحب اولاد ہو تو خاوند کی وراثت میں سے آٹھویں حصے کی حقد ار ہے اور بے اولادی کی صورت چوتھائی حصہ مقرر کیا گیا ۔ تاکہ وہ بے سہارااور لاوارثوں جیسی زندگی بسر نہ کرے بلکہ وہ اپنی زندگی کے حوالے سے بہتر فیصلہ کر سکے اور اس دوران اسے معاشی مسائل کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔
بیوہ کو عقد ثانی کرنے کی مکمل اجازت ہے اور اسی صورت میں اس کا سابقہ شوہر کی جانب سے وراثت میں حصہ برقرار رہے گا۔لیکن یہاں تو آؤے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یوں تو اسلام نے بیوہ عورت کے لئے پسندیدہ عمل عدت کے بعد فوری نکاح قرار دے رکھا ہے جو کہ فطری تصور حیات کے پیش نظر درست ہے۔
کیوں انسان تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اور جن خواتین کے بچے ہوں ان کو اسی صورت میں ناصرف ایک شوہر کا ساتھ ملتا ہے بلکہ ان کی بچوں کو والد کی شفقت بھی ملتی ہے۔ ایشیائی خطے سے نکل کر بھی دیکھا جائے توعرب ممالک میں جیسے ہی کوئی خاتون بیوہ ہوتی ہے وہاں عقد ثانی کے لئے بیشتر امید وار موجود ہوتے ہیں۔ لیکن برصغیر پاک و ہند میںپہلے ہی خواتین کی شادی مشکل سے ہوتی ہے اور اگر وہ بیوہ یا مطلقہ ہوں تو ایسی صورت میں عقد ثانی جوء شیر لانے کے مترادف ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ وہ فلاحی اسلامی ریاست ہی نہیں جس کا تصور ہمیں اپنے دین کی اساس سے ملتا ہے جہاںبیواؤں کو سب سے مظلوم طبقہ قرار دیا گیا تھا اور ان سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی تھی۔نبی کریم ﷺ نے بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کو عبادت قرار دیا اور فرمایا ''بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والا خدا کی راہ میں مجاہد یا اس شخص کی طرح ہے جو دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات کو نمازیں پڑھتا ہے''۔ بیوہ سے حسن سلوک اور تکریم کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عین شباب میں اپنے سے عمر میں پندرہ برس بڑی بیوہ خاتون حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کی اور پھر ان سے محبت و وفا کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے ساتھ خوشگوار مثالی ازدواجی زندگی بسر کی اور جب تک وہ حیات رہیں عقد ثانی نہ کیا۔
ریاست کی حیثیت ماں کی سی ہوتی ہے اور ماں اپنے تمام بچوں کی پرواہ کرتی ہے ان کا خیال رکھتی ہے۔ بیوہ خواتین بھی اس ریاست کی باسی ہیں اور ان کا حق ہے کہ ریاست ان کی داد رسی کرے۔ بیوہ خواتین کو سب سے پہلے اپنے پیروںپر کھڑا کرنے کے لئے انھیں ہنر سیکھانے کا بندوبست ہونا چاہیئے اور پھر انھیں آسان اقساط پر قرضے فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات اٹھا سکیں اور انھیں معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے اور نہ ہی کوئی ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا سکے۔
جو خواتین سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں وہ گھر میں ایک یا دو خواتین کو ملا کر ایک چھوٹا سا سلائی سینٹر بنا سکتی ہیں۔گھر پر براینڈز کے ریپلیکا سوٹ بیچ سکتی ہیں آن لائن اشیاء کی فروخت کرسکتی ہیں۔ اگر کھانے پکانے میں مہارت رکھتی ہیں تو گھر سے فروزن فورڈ یا تازہ کھانا پکاکر سپلائی کرنے کا کام بھی کر سکتی ہیں۔پارلر کھول سکتی ہیں کوئی بھی چھوٹا کاروبار کر سکتی ہیں ۔
جس کے لئے ضرورت ہے سب سے پہلے انھیں حوصلہ فراہم کرنے کی اورانھیں وسائل فراہم کرنے کی۔مغربی معاشروں میں بھی بوڑھے افراد کو سپورٹ کیا جاتا ہے اور عموماً ساٹھ برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ریٹائر منٹ کے بعد پنشن یا وظیفہ ملتا ہے ۔دوسری جانب بات کی جائے عمر رسیدہ بوڑھی خواتین کی تو وہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہیں کہ ان کو مستقل بنیادوں پر وظیفہ فراہم کیا جائے اور ان کی رہائش اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ان کا باقاعدہ ڈیٹا مرتب کیا جائے اس ضمن میں نادرا کا ادارہ اور مائیکرو لیول پر یونین کو نسل کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ عمر رسیدہ بیوہ خواتین کا میڈیکل فری ہونا چاہیئے اور بیماری اور معذوری کی صورت میں ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کسی فلاحی ریاستی ادارے کو سونپی جائے۔ گو کہ اولڈ ہومز اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں مگر یہ ناکافی ہے۔اور اس سب کے ساتھ اس عمر میں جذباتی سہاروں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
سکولوں اور کالجوں کے بچوں کو ایسے اولڈ ایج ہومز کا دورہ کرانے سے دوہرا فائدہ ہوگا جیسے ان افراد کی تنہائی دور ہوگئی اور زندگی کی رونق کو محسوس کر سکیں گے جبکہ بچوں کے دل میں ہمدردی اور احساس کے جذبات فروغ پائیں گے۔والدین اپنے بچوں کو ایسی خواتین کے ساتھ احترام اور حسن سلوک کی ترغیب دے کر معاشرے میں خیر کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اور ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جہاں کسی کو مشکل میں دیکھیں اور اس کی تھوڑی سی بھی مدد کر سکیں تو وہ ضرور کریں کیونکہ احساس زندگی ہے!
اس لمحے اس کی آواز میں اس قدر یاسیت بھری تھی کہ ارد گرد کے شور میں سکوت چھا گیا ہو۔ وہ جیسے کسی سامع کی متلاشی تھی جو اس کا غم اس کا درد سن سکے۔ اور تندور والے کے سوال نے گویا سوال سے اس بند میں چھید کر ڈالا تھا جو اس نے اپنے دکھوں پہ باندھ رکھا تھا۔ وہ کہنے لگی ہم دو بیوہ بہنیں ہیں اور ہمارا کوئی نہیں ایک بھانجے نے ہم پر ترس کھا کر ہمیں اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے نہ کوئی آسرا ہے نہ ٹھکانہ، مرحوم شوہر کی پینشن سے میں اور میری بہن اپنا گزر بسر کرتے ہیں ایک ایک روٹی صبح اور ایک شام کو کھاتے ہیں۔
کبھی نمک میںپانی ملا کر تو کبھی پیاز کے ساتھ۔ کون ہے ہمارا یہاں! اس سے آگے سننے کے لئے جو ہمت درکار ہے وہ شاید اس معاشرے کی اکثریت میں نہیں۔ نجانے اس معاشرے میں کتنی ہی عورتیں بیوگی میں مُردوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں المیہ یہ ہے کہ خواتین کو پہلے اپنے حقوق و فرائض سے درست انداز میں واقفیت ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو ان کی فراہمی ممکن نہیں۔ آبادی کا یہ نصف حصہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے تگ و دو میں لگا ہے۔
جب کوئی خاتون بیوہ ہو جاتی ہے تو یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ وہ زندہ جسم میں ایک مردہ کی مانند ہے زندگی کے سارے رنگ اور خوشیاں اب اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ وہ کسی دوسری عورت کی طرح زندگی کو نارمل انداز میں نہیں گزار سکتی۔ جوانی میں بیوہ ہونے والی عورت کو معاشرہ چیل کووں کی طرح چیڑ پھاڑ کر کھانے کو تیار رہتا ہے اور اگر یہ دور بڑھاپے میں آجائے تو اسے ناسور سمجھ کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور بیوہ عورت اگر اپنے تخفظ کے لئے دوسری شادی کرتی ہے تو اس کو عیاش اور بری عورت قرار دیا جاتا ہے۔سماج کا یہ رویہ پہلے سے ہی دکھی اور ٹوٹی ہوئی عورت کو مسمار کر دیتا ہے۔جو اس کی ذہنی صحت کو بھی برباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
ایک عورت جس کا شوہر وفات پا جائے اس کی زندگی غم و الم اور حسرت و نامرادی کا مظہر بن جاتی ہے۔ پرانے وقتوں میں بیوہ کا مرحوم شوہر کے ترکے میں کوئی حصہ نہ تھا اور لوگ اس کے ساتھ غلاموں والا سلوک کیا کرتے تھے۔اور ہندووں میں تو بیواؤں کو دوسری شادی تک کی اجازت نہ تھی بلکہ کچھ تو شوہر کے ساتھ جل کر مر جایا کرتی تھیں اور کچھ بیوگی کے بعد اپنے اوپر زندگی کی ساری راحتیں حرام کر لیتیں۔
اسلام نے بیواؤں کے حقوق کو واضح کرتے ہوئے انھیں شوہر کی وراثت میں حصہ دیا اور تاعمر سوگ کو محدود کر کے چار ماہ دس دن عدت کے دن مقرر کئے اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک اپنے رنج و اُلم کے ہلکا ہوجانے تک کی مہلت دی۔اگر مہر شوہر کی زندگی میں ادا نہ ہوا ہو تو وراثت میں سے سب سے پہلے مہر کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ۔ اگر صاحب اولاد ہو تو خاوند کی وراثت میں سے آٹھویں حصے کی حقد ار ہے اور بے اولادی کی صورت چوتھائی حصہ مقرر کیا گیا ۔ تاکہ وہ بے سہارااور لاوارثوں جیسی زندگی بسر نہ کرے بلکہ وہ اپنی زندگی کے حوالے سے بہتر فیصلہ کر سکے اور اس دوران اسے معاشی مسائل کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔
بیوہ کو عقد ثانی کرنے کی مکمل اجازت ہے اور اسی صورت میں اس کا سابقہ شوہر کی جانب سے وراثت میں حصہ برقرار رہے گا۔لیکن یہاں تو آؤے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یوں تو اسلام نے بیوہ عورت کے لئے پسندیدہ عمل عدت کے بعد فوری نکاح قرار دے رکھا ہے جو کہ فطری تصور حیات کے پیش نظر درست ہے۔
کیوں انسان تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اور جن خواتین کے بچے ہوں ان کو اسی صورت میں ناصرف ایک شوہر کا ساتھ ملتا ہے بلکہ ان کی بچوں کو والد کی شفقت بھی ملتی ہے۔ ایشیائی خطے سے نکل کر بھی دیکھا جائے توعرب ممالک میں جیسے ہی کوئی خاتون بیوہ ہوتی ہے وہاں عقد ثانی کے لئے بیشتر امید وار موجود ہوتے ہیں۔ لیکن برصغیر پاک و ہند میںپہلے ہی خواتین کی شادی مشکل سے ہوتی ہے اور اگر وہ بیوہ یا مطلقہ ہوں تو ایسی صورت میں عقد ثانی جوء شیر لانے کے مترادف ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ وہ فلاحی اسلامی ریاست ہی نہیں جس کا تصور ہمیں اپنے دین کی اساس سے ملتا ہے جہاںبیواؤں کو سب سے مظلوم طبقہ قرار دیا گیا تھا اور ان سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی تھی۔نبی کریم ﷺ نے بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کو عبادت قرار دیا اور فرمایا ''بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والا خدا کی راہ میں مجاہد یا اس شخص کی طرح ہے جو دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات کو نمازیں پڑھتا ہے''۔ بیوہ سے حسن سلوک اور تکریم کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عین شباب میں اپنے سے عمر میں پندرہ برس بڑی بیوہ خاتون حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کی اور پھر ان سے محبت و وفا کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے ساتھ خوشگوار مثالی ازدواجی زندگی بسر کی اور جب تک وہ حیات رہیں عقد ثانی نہ کیا۔
ریاست کی حیثیت ماں کی سی ہوتی ہے اور ماں اپنے تمام بچوں کی پرواہ کرتی ہے ان کا خیال رکھتی ہے۔ بیوہ خواتین بھی اس ریاست کی باسی ہیں اور ان کا حق ہے کہ ریاست ان کی داد رسی کرے۔ بیوہ خواتین کو سب سے پہلے اپنے پیروںپر کھڑا کرنے کے لئے انھیں ہنر سیکھانے کا بندوبست ہونا چاہیئے اور پھر انھیں آسان اقساط پر قرضے فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات اٹھا سکیں اور انھیں معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے اور نہ ہی کوئی ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا سکے۔
جو خواتین سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں وہ گھر میں ایک یا دو خواتین کو ملا کر ایک چھوٹا سا سلائی سینٹر بنا سکتی ہیں۔گھر پر براینڈز کے ریپلیکا سوٹ بیچ سکتی ہیں آن لائن اشیاء کی فروخت کرسکتی ہیں۔ اگر کھانے پکانے میں مہارت رکھتی ہیں تو گھر سے فروزن فورڈ یا تازہ کھانا پکاکر سپلائی کرنے کا کام بھی کر سکتی ہیں۔پارلر کھول سکتی ہیں کوئی بھی چھوٹا کاروبار کر سکتی ہیں ۔
جس کے لئے ضرورت ہے سب سے پہلے انھیں حوصلہ فراہم کرنے کی اورانھیں وسائل فراہم کرنے کی۔مغربی معاشروں میں بھی بوڑھے افراد کو سپورٹ کیا جاتا ہے اور عموماً ساٹھ برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ریٹائر منٹ کے بعد پنشن یا وظیفہ ملتا ہے ۔دوسری جانب بات کی جائے عمر رسیدہ بوڑھی خواتین کی تو وہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہیں کہ ان کو مستقل بنیادوں پر وظیفہ فراہم کیا جائے اور ان کی رہائش اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ان کا باقاعدہ ڈیٹا مرتب کیا جائے اس ضمن میں نادرا کا ادارہ اور مائیکرو لیول پر یونین کو نسل کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ عمر رسیدہ بیوہ خواتین کا میڈیکل فری ہونا چاہیئے اور بیماری اور معذوری کی صورت میں ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کسی فلاحی ریاستی ادارے کو سونپی جائے۔ گو کہ اولڈ ہومز اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں مگر یہ ناکافی ہے۔اور اس سب کے ساتھ اس عمر میں جذباتی سہاروں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
سکولوں اور کالجوں کے بچوں کو ایسے اولڈ ایج ہومز کا دورہ کرانے سے دوہرا فائدہ ہوگا جیسے ان افراد کی تنہائی دور ہوگئی اور زندگی کی رونق کو محسوس کر سکیں گے جبکہ بچوں کے دل میں ہمدردی اور احساس کے جذبات فروغ پائیں گے۔والدین اپنے بچوں کو ایسی خواتین کے ساتھ احترام اور حسن سلوک کی ترغیب دے کر معاشرے میں خیر کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اور ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جہاں کسی کو مشکل میں دیکھیں اور اس کی تھوڑی سی بھی مدد کر سکیں تو وہ ضرور کریں کیونکہ احساس زندگی ہے!