سائنس وٹیکنالوجی میں یورپ کی برتری
انھوں نے اپنے عسکری نظام کو اتنا طاقتور کرلیا ہے کہ چین روس سمیت کوئی بھی ملک ان کی اجتماعی طاقت کامقابلہ نہیں کرسکتا
دنیا کہا ںجا رہی ہے اور ہم پچھلے 76سالوں سے ایک ہی جگہ پر ہیں۔ آج ہم امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جو بالادستی دنیا پر دیکھ رہے ہیں وہ سائینس و ٹیکنالوجی میں مسلسل مہارت حاصل کرنا ہے۔ اس مہارت کے ذریعے ہی انھوں نے دنیا کو اپنا غلام بنا کر ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کر کے اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کر لیا ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت سے انھوں نے اپنے عسکری نظام کو اتنا طاقتور کر لیا ہے کہ چین روس سمیت کوئی بھی ملک ان کی اجتماعی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس میں سب سے اہم ان کی بحری قوت ہے۔ دنیا کا شاہد ہی کوئی حصہ ایسا ہوگا جہاں امریکا اور نیٹو کی بحری، فضائی، بری افواج کثیر تعداد میں تعینات نہ ہوں جو جنگی جہازوں، آبدوزوں اور طیارہ بردار بحری جہازوں کی شکل میں موجود ہیں۔
ان ہتھیاروں کی ایجاد اور تعمیر میں کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار سے حاصل کیا جاتا ہے۔
یعنی پہلے انھوں نے ایجادات کے ذریعے اسلحہ سازی میں برتری حاصل کی۔ اس برتری کے ذریعے دنیا پر اپنا تسلط قائم کیا تیسرے مرحلے میں ان کے قیمتی وسائل پر قبضہ کر کے اپنی جنگی صلاحیتوں کو ناقابل تسخیر کر لیا۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہی تھی جس نے اپنے جنگی بیڑوں کے ذریعے ہندوستان پر قبضہ ممکن بنایا۔ جس وقت مغل بادشاہ اپنے لیے محل اور مقبرے تعمیر کروا رہے تھے اور تخت نشینی کے لیے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے تھے۔
اس وقت برطانیہ اور یورپ کی بادشاہتیں جدید علوم پر مبنی یونیورسٹیوں کی سرپرستی کر رہی تھیںاور چرچ سے آزادی بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ جن کے ذریعے ایسی ایجادات وجود میں آرہی تھیں جس نے ان کا دنیا پر قبضہ ممکن بنایا۔ بقول روسی وزیر خارجہ کے پچھلے پانچ سو سالوں سے مغرب کی بالادستی دنیا پر قائم ہے اور وہ اس سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ اور وہ پیچھے ہٹے بھی کیوں کہ اس کی پیش قدمی سائنس و ٹیکنالوجی میں دن دوگنی رات چوگنی کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔
امریکا کی دنیا پر بادشاہت کو سائنس و ٹیکنالوجی نے ہی ممکن بنایا۔ جس کو اب اس میدان میں چین اور روس کا چیلنج در پیش ہے۔ جس وقت میں یورپ میں مقیم تھا میں نے امریکی میگزین کرسچن سائنس مانیٹر میں امریکا یورپ اور تیسری دنیا کے درمیان سائنسی تقابل پڑھا۔ جس میں اس بات پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا گیا کہ امریکا اور یورپئین اقوام سائنس و ٹیکنالوجی میں براعظم افریقہ سے 8سو برس اور پاکستان جیسے ملکوں سے 5سو برس آگے ہیں۔
یہ تجزیہ بھی کم از کم 40برس پرانا ہے۔ اب تو ترقی یافتہ اور ہم جیسے تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے درمیان یہ فرق زمین آسمان کا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا ایک طرف ہر گزرتے دن کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی اپنا رہی ہے تو دوسری طرف اپنی استعمال شدہ (لنڈا بازار) ٹیکنالوجی پاکستان جیسے دنیا کے غریب ملکوں کو مہیا کر کے بے پناہ دولت کما رہی ہے اور ہم اس دان پر پھولے نہیں سماتے۔ اس المناک صورتحال کے باوجود ہم آج بھی اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ ہم دوبارہ سے فاتح عالم ہوں گے۔
مغرب نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے سامراج مخالف انقلاب کے تمام دروازے سائنس و ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کر کے بند کر دیے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا نے ایران میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ہر طرح کے سامراج مخالف انقلاب کے دروازے بند کر دیے ہیں اس کے لیے عالمی سامراج نے انتہائی تیر بہدف نسخہ مقامی سامراج تخلیق کیا ہے۔ یعنی عالمی اشرافیہ اور مقامی اشرافیہ یا آسان لفظوں میں عالمی مافیا اور ہر ملک میں مقامی مافیا کا ناپاک گٹھ جوڑ۔
ماضی میں طاعون اور ٹی بی سے جہاں کروڑوں افراد موت کے گھاٹ اتر جاتے تھے وہاں چند سال پیشتر انتہائی خوفناک وبا جس نے پوری دنیا میں قیامت برپا کر دی۔ گزشتہ سال دو سائنسدانوں جن کا تعلق جرمنی اور امریکا سے تھا کو طب میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ کیونکہ انھوں نے انتہائی کم وقت میں ریسرچ کر کے کورونا ویکسین ایجاد کی ورنہ تو کروڑوں افراد کا اس خوفناک وائرس کے ہاتھوں خاتمہ ہو جاتا۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ دنیا نے جواعداد و شمار مہیا کیے ان کے مطابق 70لاکھ افراد ہلاک ہوئے جب کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تعداد دو کروڑ ہے۔
اگر انتہائی کم وقت میں یہ ویکسین ایجاد نہ ہوتی تو یہ تعداد شاید20کروڑ تک بھی جا سکتی تھی۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے پارسا اس وبا کے خاتمے کے لیے دعائیں ہی کرتے رہ گئے۔ اس وبا کا خاتمہ تو کیا ہونا تھا۔ خود بھی جان سے گئے۔
اس کا مطلب کیا نکلا صرف دعائیں ہی کافی نہیں ہوتیں۔ اپنے وقت کے جدید ترین علوم میں مہارت حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔ مدرسوں کا کیاذکر۔۔۔ یہاں تو یونیورسٹی اور ریسرچ اداروں میں تعلیمی معیار کا یہ عالم ہے کہ عالمی سطح پر مستند مقالوں کو نقل کر کے پی ایچ ڈی حاصل کر لی جاتی ہے اور اس چوری میں بڑے بڑے پروفیسر اور وائس چانسلر تک ملوث پائے گئے ہیں۔
جہاں زندگی کامطمعٔ نظر گریڈ پرموشن اور عہدے ہوں وہاں ریاضت کون کافر کرے۔ یہ ریاضتیں تو کافروں کے نصیب میں لکھی ہیں کہ ان کی ریاضتوں کے صدقے بنی نوع انسان گزشتہ لاکھوں سال کے مقابلے میں سکھ چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ادھر ہماری یونیورسٹیوں کی پستیاں دیکھیں ۔ رینکنگ میں کوئی 500 ویں اور کوئی 1000ویں نمبر پر ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں میڈیکل سمیت دیگر شعبوں میں ڈگریاں جاری کر کے اربوں کما رہی ہیں۔ گزشتہ سال کی ایجادوں میں تازہ ترین ایجاد مصنوعی ذہانت ہے جس نے کمال ہی کر دیا ہے جسکی تفصیل پھر کبھی سہی۔
سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت سے انھوں نے اپنے عسکری نظام کو اتنا طاقتور کر لیا ہے کہ چین روس سمیت کوئی بھی ملک ان کی اجتماعی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس میں سب سے اہم ان کی بحری قوت ہے۔ دنیا کا شاہد ہی کوئی حصہ ایسا ہوگا جہاں امریکا اور نیٹو کی بحری، فضائی، بری افواج کثیر تعداد میں تعینات نہ ہوں جو جنگی جہازوں، آبدوزوں اور طیارہ بردار بحری جہازوں کی شکل میں موجود ہیں۔
ان ہتھیاروں کی ایجاد اور تعمیر میں کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار سے حاصل کیا جاتا ہے۔
یعنی پہلے انھوں نے ایجادات کے ذریعے اسلحہ سازی میں برتری حاصل کی۔ اس برتری کے ذریعے دنیا پر اپنا تسلط قائم کیا تیسرے مرحلے میں ان کے قیمتی وسائل پر قبضہ کر کے اپنی جنگی صلاحیتوں کو ناقابل تسخیر کر لیا۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہی تھی جس نے اپنے جنگی بیڑوں کے ذریعے ہندوستان پر قبضہ ممکن بنایا۔ جس وقت مغل بادشاہ اپنے لیے محل اور مقبرے تعمیر کروا رہے تھے اور تخت نشینی کے لیے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے تھے۔
اس وقت برطانیہ اور یورپ کی بادشاہتیں جدید علوم پر مبنی یونیورسٹیوں کی سرپرستی کر رہی تھیںاور چرچ سے آزادی بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ جن کے ذریعے ایسی ایجادات وجود میں آرہی تھیں جس نے ان کا دنیا پر قبضہ ممکن بنایا۔ بقول روسی وزیر خارجہ کے پچھلے پانچ سو سالوں سے مغرب کی بالادستی دنیا پر قائم ہے اور وہ اس سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ اور وہ پیچھے ہٹے بھی کیوں کہ اس کی پیش قدمی سائنس و ٹیکنالوجی میں دن دوگنی رات چوگنی کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔
امریکا کی دنیا پر بادشاہت کو سائنس و ٹیکنالوجی نے ہی ممکن بنایا۔ جس کو اب اس میدان میں چین اور روس کا چیلنج در پیش ہے۔ جس وقت میں یورپ میں مقیم تھا میں نے امریکی میگزین کرسچن سائنس مانیٹر میں امریکا یورپ اور تیسری دنیا کے درمیان سائنسی تقابل پڑھا۔ جس میں اس بات پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا گیا کہ امریکا اور یورپئین اقوام سائنس و ٹیکنالوجی میں براعظم افریقہ سے 8سو برس اور پاکستان جیسے ملکوں سے 5سو برس آگے ہیں۔
یہ تجزیہ بھی کم از کم 40برس پرانا ہے۔ اب تو ترقی یافتہ اور ہم جیسے تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے درمیان یہ فرق زمین آسمان کا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا ایک طرف ہر گزرتے دن کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی اپنا رہی ہے تو دوسری طرف اپنی استعمال شدہ (لنڈا بازار) ٹیکنالوجی پاکستان جیسے دنیا کے غریب ملکوں کو مہیا کر کے بے پناہ دولت کما رہی ہے اور ہم اس دان پر پھولے نہیں سماتے۔ اس المناک صورتحال کے باوجود ہم آج بھی اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ ہم دوبارہ سے فاتح عالم ہوں گے۔
مغرب نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے سامراج مخالف انقلاب کے تمام دروازے سائنس و ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کر کے بند کر دیے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا نے ایران میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ہر طرح کے سامراج مخالف انقلاب کے دروازے بند کر دیے ہیں اس کے لیے عالمی سامراج نے انتہائی تیر بہدف نسخہ مقامی سامراج تخلیق کیا ہے۔ یعنی عالمی اشرافیہ اور مقامی اشرافیہ یا آسان لفظوں میں عالمی مافیا اور ہر ملک میں مقامی مافیا کا ناپاک گٹھ جوڑ۔
ماضی میں طاعون اور ٹی بی سے جہاں کروڑوں افراد موت کے گھاٹ اتر جاتے تھے وہاں چند سال پیشتر انتہائی خوفناک وبا جس نے پوری دنیا میں قیامت برپا کر دی۔ گزشتہ سال دو سائنسدانوں جن کا تعلق جرمنی اور امریکا سے تھا کو طب میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ کیونکہ انھوں نے انتہائی کم وقت میں ریسرچ کر کے کورونا ویکسین ایجاد کی ورنہ تو کروڑوں افراد کا اس خوفناک وائرس کے ہاتھوں خاتمہ ہو جاتا۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ دنیا نے جواعداد و شمار مہیا کیے ان کے مطابق 70لاکھ افراد ہلاک ہوئے جب کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تعداد دو کروڑ ہے۔
اگر انتہائی کم وقت میں یہ ویکسین ایجاد نہ ہوتی تو یہ تعداد شاید20کروڑ تک بھی جا سکتی تھی۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے پارسا اس وبا کے خاتمے کے لیے دعائیں ہی کرتے رہ گئے۔ اس وبا کا خاتمہ تو کیا ہونا تھا۔ خود بھی جان سے گئے۔
اس کا مطلب کیا نکلا صرف دعائیں ہی کافی نہیں ہوتیں۔ اپنے وقت کے جدید ترین علوم میں مہارت حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔ مدرسوں کا کیاذکر۔۔۔ یہاں تو یونیورسٹی اور ریسرچ اداروں میں تعلیمی معیار کا یہ عالم ہے کہ عالمی سطح پر مستند مقالوں کو نقل کر کے پی ایچ ڈی حاصل کر لی جاتی ہے اور اس چوری میں بڑے بڑے پروفیسر اور وائس چانسلر تک ملوث پائے گئے ہیں۔
جہاں زندگی کامطمعٔ نظر گریڈ پرموشن اور عہدے ہوں وہاں ریاضت کون کافر کرے۔ یہ ریاضتیں تو کافروں کے نصیب میں لکھی ہیں کہ ان کی ریاضتوں کے صدقے بنی نوع انسان گزشتہ لاکھوں سال کے مقابلے میں سکھ چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ادھر ہماری یونیورسٹیوں کی پستیاں دیکھیں ۔ رینکنگ میں کوئی 500 ویں اور کوئی 1000ویں نمبر پر ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں میڈیکل سمیت دیگر شعبوں میں ڈگریاں جاری کر کے اربوں کما رہی ہیں۔ گزشتہ سال کی ایجادوں میں تازہ ترین ایجاد مصنوعی ذہانت ہے جس نے کمال ہی کر دیا ہے جسکی تفصیل پھر کبھی سہی۔