لیول پلیئنگ فیلڈ بانی پی ٹی آئی اور ان کے اعزازی وکلا
باتیں اور معاملات تو بہت سے ہیں لیکن اس وقت پی ٹی آئی کے تنظیمی انتخابات ایک نہ ختم ہونے والی بحث کا موضوع ہیں
پاکستان اس وقت ایک دل چسپ مخمصے میں گرفتار ہے۔ ایک طرف اصول اور قاعدہ قانون ہے اور دوسری طرف ایک ایسی خواہش ہے جسے لیول پلیئنگ فیلڈ کانام دے کر ایک خاص قسم کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔
ان دونوں کیفیات کے بیچ انتخابات ہیں، کم و بیش تین ہفتے رہ جانے کے باوجود جن پر شکوک و شبہات کے سائے تاحال منڈلا رہے ہیں۔
یہ سائے اگر دور ہو بھی جاتے ہیں تو انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ کیا یہ صورت حال پاکستان کو اس کے بہتر مستقبل کی طرف لے جا رہی ہے یا پے در پے بحرانوں میں غوطے کھاتے ہوئے ملک میں ایک اور نسبتاً پیچیدہ بحران پیدا کرنے کا پیش خیمہ بن جائے گی؟
حقیقت جو بھی ہو اسے فی الحال ایک طرف رکھ دیجیے، عمومی تاثر یہی ہے کہ اس ملک میں قاعدے قوانین غریب اور کمزور کے لیے ہیں اور طاقت ور ان سے مبرا ہے۔ بانی پی ٹی آئی بھی یہی نعرہ لگا کر میدان سیاست میں کودے تھے کہ دو نہیں ایک پاکستان لیکن عملی صورت کیا ہے۔
لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر جو بات بھی کہی جا رہی ہے جو دلائل بھی دیے جا رہے ہیں اور جو خواہش بھی کی جا رہی ہے، وہ قاعدے قوانین کو طاق پر رکھ کر دو پاکستان بنانے والی بات ہے۔ اس خواہش میں بانی پی ٹی آئی اور ان کے پیروکار بھی شریک ہیں اور ان کے اعزازی اور غیر اعزازی وکلا بھی۔
باتیں اور معاملات تو بہت سے ہیں لیکن اس وقت پی ٹی آئی کے تنظیمی انتخابات ایک نہ ختم ہونے والی بحث کا موضوع ہیں جس کا سبب اولاًالیکشن کمیشن آف پاکستان کا ایک فیصلہ بنا ہے اور ثانیاً سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ جس نے پاکستان تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا ہے۔
یہی بحث کا موضوع ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اب انتخابات اسی کیفیت میں یعنی پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے محرومی کی صورت میں ہوں گے تو ان انتخابات کی کوئی ساکھ نہیں ہو گی کیوں کہ ایک بڑی جماعت اپنے انتخابی نشان سے محرومی کی صورت میں برابر کے مواقع سے محروم ہو گئی ہے۔
صورت حال کی ایک تصویر یہی ہے جو بیان کی جا رہی ہے لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جسے ہمارے بہت سے دانش وروں، ممتاز صحافیوں اور اینکر صاحبان نے نظر انداز کر دیا ہے۔ اب چیلنج دو ہیں۔
اوّل، نظر انداز کیے گئے تصویر کے رخ کو قوم کے سامنے پیش کرنا اور دوم، پھیلائے گئے تاثر اور تصویر کے حقیقی رخ کے درمیان فرق اور اس کے اثرات کی وضاحت۔
بنیادی بات وہی ہے جو پی ٹی آئی نے نعرے کی صورت میں اختیار کی تھی یعنی دو نہیں ایک پاکستان۔ یعنی قانون اور اس پر عمل درآمد ہر ایک کے لیے یکساں ہو لیکن حالات جاریہ کا المیہ یہ ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر اس بنیادی اصول سے ہی صرف نظر کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ گڑ بڑ کیا ہے؟
اس گڑ بڑ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک شخص اور اس کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ شخص ہے اکبر شیر بابر جنھیں عام طور پر اکبر ایس بابر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ بابر صاحب تحریک انصاف کے بانی رکن ہیں۔
یہ صاحب کس خیال یا آرزو کے تحت پی ٹی آئی کی تشکیل میں حصے دار اور بانی پی ٹی آئی کے ساتھی بنے؟لیول پلیئنگ فیلڈ کی نیک خواہش رکھنے والے ہمارے دوست اگر ذرا سی لیول پلیئنگ فیلڈ انھیں بھی فراہم کریں اور پی ٹی آئی کے اعزازی وکیل بننے کے ساتھ ساتھ کچھ وقت انھیں بھی اپنی بات کہنے کے لیے فراہم کر دیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آخر کیا سبب تھا کہ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کا معاملہ لے کر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچے جسے وہ آج بھی جان سے عزیز سمجھتے ہیں؟
اب اگر کوئی گہرائی میں حقائق کی کھوج لگا کر دیکھے تو حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو پاکستان کی جمہوری جماعت اور ادارہ بنانے اور اس کے نعروں کا بنیادی خیال ہمارے اس مثالیت پسند دوست کے زرخیر ذہن کی پیداوار ہے۔ یہ تصورات بانی پی ٹی آئی کے علم میں تو اس وقت آئے جب وہ ژوب کے اس روایت شکن پشتون کی سبز رنگ کی کرولا 74 کے مسافر بنے۔
اکبر ایس بابر صبح و شام انھیں اپنی اس پرانی گاڑی میں لیے پھرتے تھے اور ان سے کہا کرتے تھے کہ آخر کوئی تو ہو جو اس ملک کو برابری اور مساوات کی طرف لے کر جائے۔ اصول بیان نہ کرے، اس پر عمل بھی کرے۔
رفتہ رفتہ بابر صاحب کے خیالات سے بانی پی ٹی آئی ہم آہنگ ہوتے گئے۔ بانی پی ٹی آئی نے خود ہی یہ عہد بھی اکبر بابر سے کیا کہ "اگر میں بھی اصولوں سے ہٹوں تو اکبر تم میرے سامنے کھڑے ہوجانا"۔ ان ہی اصولوں کے مطابق ایک جماعت کا تصور پیش کیا گیا جس کے لیے اکبر بابر کا ذہن اور بانی پی ٹی آئی کا برانڈ استعمال ہوا۔
بہت بعد میں جب بانی پی ٹی آئی کی سمجھ میں یہ آیا کہ مثالیت پسندی(آئیڈیلزم)سے اقتدار نہیں ملتا بلکہ اس کے لیے کچھ اور لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ سمجھانے والوں نے جب انھیں یہ حقائق ذہن نشین کرا دیے تو وہ مثالیت پسندی پر مبنی نعرے تو بلند کرتے رہے لیکن نعروں سے ان کا یقین اور دل دونوں ہی اٹھ چکے تھے۔ یوں وہ جیٹ ٹیکنالوجی کے قائل ہو گئے جس کے عملی تقاضے ان کے لیے جہانگیر ترین جیسے زور آوروں نے پورے کیے۔
یہ سیاست کے نئے اصولوں پر بانی پی ٹی آئی کے ایمان لانے کا شاخسانہ ہی تھا کہ انھوں نے نہ ممنوعہ فنڈنگ کو عیب جانا اور نہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بار بار یاد دہانی کرانے کے باوجود اپنی جماعت کے اندرونی انتخابات کرانے ضروری سمجھے۔ بعد میں جب انتخابات کا یہ چیلنج کسی پہاڑ کی طرح سر پر آ کھڑا ہوا، انھوں نے گڑیوں کی شادی جیسے کھیل کی طرح یہ انتخابات کرائے۔ یہ کھیل ان کے گلے پڑ گیا یوں وہ انتخابی نشان سے محروم ہوئے۔
اس واقعے کے بعد خود بانی پی ٹی آئی بھی دو نہیں ایک پاکستان جیسے اپنے نام نہاد دعوے سے لا تعلق ہو گئے اور سیاسی جماعتوں میں آمریت کے خلاف دہائیوں سے آواز بلند کرنے والے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ایسے خیالات رکھنے والے دانش ور بھی ان کے ہم خیال دکھائی دینے لگے ہیں۔
اکبر ایس بابر کا پاکستانی سیاست پر احسان یہ ہے کہ اوّل انھوں نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے ذریعے قومی سیاسی جماعتوں میں ڈسپلن پیدا کرنے کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد سیاسی جماعتوں کے انتخابی عمل کو باضابطہ، شفاف اور جمہوری بنانے کی طرف عملی پیش قدمی کر دی۔ اکبر ایس بابر کی سیاسی میدان میں اور کوئی کامیابی ہو یا نہ ہو، یہی دو فیصلے قومی سیاسی زندگی میں انھیں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو کسی ضابطے کا پابند بنانا ایک خواب تھا۔ اب اس خواب کی تکمیل ہو رہی ہے تو یہی خواب دیکھنے والے اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ اس کے خلاف میدان میں کود پڑے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے یہ فیصلے صرف پی ٹی آئی کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان فیصلوں سے ایک اصول قائم ہو گیا ہے۔ آیندہ کسی جماعت کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ اپنی فنڈنگ کو شفاف نہ رکھے اور اپنے تنظیمی انتخابات میں کوئی جعل سازی کر سکے۔
قومی سیاست میں ایک مثبت روایت قائم ہو رہی ہے جو سب کے لیے ایک جیسی ہے۔ آج اگر اس روایت کو تہہ تیغ کر دیا گیا تو آیندہ کبھی یہ معاملہ درست سمت اختیار نہ کر سکے گا۔ پی ٹی آئی اگر اپنے سیاسی نظریات میں سچی تھی اور ہمارے دانش ور واقعی ملک میں شفاف سیاسی عمل کے آرزو مند ہیں تو ان کی طرف سے حالیہ فیصلوں کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔