پاک ایران کشیدگی پاکستان نے قومی خودمختاری کا بہترین دفاع کیا
سفارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ دانشمندانہ ہے: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
''پاک ایران حالیہ کشیدگی''کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ ، سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
جاوید حسین
(سابق سفارتکار)
ایران نے ہمارے سرحدی علاقوںمیں حملے کیے ہیں جو افسوسناک بھی ہیں اور تشویشناک بھی۔افسوس اس لیے کہ ہمارے دوست ملک نے ایسا کیا جو سمجھ سے باہر ہے۔ اس کی مختلف توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے جن کا تعلق اسرائیل سے ہے، ایسا لگتا ہے کہ نان ریجنل پاورز اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، حالیہ حملوں کے پیچھے بھی وہ کار فرما ہیں۔
بھارت تو پہلے سے ہی ایران سے ہمارے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ایران سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری نے سب پول کھول دیے تھے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ ایران کی سرزمین استعمال کر رہی ہے، بھارت اسے سپورٹ کر رہا ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ میں جب ایران میں تعینات تھا تو اس وقت جنداللہ جو جیش العدل سے پہلے تھی، وہ ایران میں حملے کرتی تھی۔ ایران کا یہ خیال تھا اسے نان ریجنل پاورز کا تعاون حاصل ہے۔
ا سے اسرائیل، امریکا اور برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں سپورٹ کر رہی ہیں۔ ہمیں ایران سے شکایت تھی کہ اس کی سرزمین ہماری خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ اگر دونوں ممالک کی شکایات میں صداقت ہے تو یہ دونوں کہ لیے ہی لمحہ فکریہ ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرانے کے بجائے ان عناصر کے خلاف جوائنٹ آپریشنز کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ مشاورتی اقدامات کیے جائیں کہ جس کے پاس بھی انفارمیشن ہو وہ دوسرے کے ساتھ شیئر کرے اور اپنی سرحد کو دوسرے کے خلاف استعمال ہونے سے روکے، اسی میں دونوں ممالک کا مفاد ہے۔ 16، 17 جنوری کی درمیانی رات ایران نے جو کیا وہ غلط تھا۔ا س سے ہماری خودمختاری اور سالمیت متاثر ہوئی۔
پاکستان نے موثر انداز میں اس کا جواب دیا۔ ہمارے جوابی حملوں میں کوئی ایرانی نہیں مارا گیا بلکہ صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی نہیں کی بلکہ ڈرون، میزائل اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔
پاک ایران کشیدگی دونوں ممالک کے حق میں نہیں، اس معاملے کو سفارتی انداز میں ہی حل ہونا چاہیے۔ا س حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی نے جو فیصلہ کیا وہ درست ہے۔ سفارتی تعلقات کا فروغ دونوں کے حق میں ہے۔
اس میں چین کا کردار اہم ہوسکتا ہے۔ ہمیں اس سارے معاملے میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ایران کو کس نے گمراہ کیا؟ چند روز قبل بھارتی وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا تھا، ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔اس میں نان ریجنل طاقتوں کے کردار کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔
بڑی طاقتوں کا تو فارمولا ہی تقسیم اور راج کرنا ہے۔ صدام حسین کو بھی غلط گائیڈ کیا گیا تھا کہ ایران کی حالت بری ہے، وہ لڑ نہیں سکے گا۔ پھر صدام حسین نے حملہ کر دیا اور 8 سال تک جنگ جاری رہی جس میں دونوں کا نقصان ہوا اور فائدہ انہوں نے اٹھایا جنہوں نے غلط رپورٹس دی اور مس گائیڈ کیا۔ افغانستان اور طالبان کے معاملے میں بھی ایسے ہی معاملات تھے اور پھر 9/11 کے بعد امریکا خود آگیا۔
حالیہ معاملے میں بھارت اور مغربی ممالک کے عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں جب ایران میں تعینات تھا تو اس وقت بھارتی وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا اور اپنے سٹاف کے ساتھ میٹنگ میں یہ بات کی کہ ہم ایران اور پاکستان کے تعلقات کو اتنا خراب کریں گے کہ آئندہ اگر پاکستان کے ساتھ ہمارے مسائل پیدا ہوں تو پاکستان، ایران کی سپورٹ حاصل نہ کرسکے۔
یہ خفیہ بات چیت تھی جو ہم تک پہنچی۔ اس کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم انجانے میں بھارت کی سٹرٹیجی کا شکار تو نہیں ہو رہے؟یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب بھی ہمارے اور بھارت درمیان مسائل پیدا ہوئے، ایران نے ہمیں سپورٹ کیا لہٰذا اس کے ساتھ بہترین تعلقات ہمارا لانگ ٹرم منصوبہ ہونا چاہیے۔
قائداعظمؒ نے جب ایران میںا پنا سفیر بھیجا تو انہیں خصوصی طور پر یہ کہا کہ میں جس ملک میں بھیج رہا ہوں اس کے ساتھ ہمارے خصوصی تعلقات ہونگے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان اور ایران کی سکیورٹی ایک دوسرے سے لنک ہے لہٰذا کشیدگی کو کم اور دوستی کو فروغ دینا چاہیے۔
کرنل (ر) فرخ چیمہ
(دفاعی تجزیہ نگار)
فساد اور رد فساد میں انتہائی باریک لکیر ہوتی ہے۔ جنگ کی صورت میں دونوں فریقین ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرا رہے ہوتے ہیں لیکن پاک، ایران حالیہ کشیدگی میں واضح ہے کہ ایران نے فساد شروع کیا جو بلاوجہ ہے۔ ایران کا یہ حملہ ہماری سالمیت پر حملہ ہے جس کا افواج پاکستان نے انتہائی موثر انداز میں دفاع کیا اور جوابی حملے کرکے واضح کر دیا کہ پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت ناقابل تسخیر ہے۔
خودمختار ممالک کا یہی انداز ہوتا ہے کہ اگر کوئی سرحدی خلاف ورزی کرے تو ایسا جواب دیا جاتا ہے کہ آئندہ کسی کو جرات نہ ہو۔پاکستان نے ایران کے میزائل حملے کا بھرپور جواب دیتے ہوئے جمعرات کو علی الصبح ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں کارروائی کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو موثر انداز میں نشانہ بنایا جس میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
''مرگ برسرمچار آپریشن'' کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا اور ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار تھے۔ حملے میں ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور سٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ کولیٹرل نقصان سے بچنے کیلئے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی۔
اس کارروائی میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی جوابی کارروائی میں کسی شہی یا ایرانی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ایران کے پاکستان پر حملے کے حوالے قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ خود ایران کے پاس اس کا ٹھوس جواب نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایران فرسٹیشن کا شکار ہے ۔ وہ اسرائیل میں کچھ نہیں کر سکا لہٰذا اب جنگ کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہتا ہے۔اسے معلوم ہے کہ پاکستان مسائل میں پھنسا ہے۔ افغانستان کے ساتھ بھی مسائل ہیں، افغان مہاجرین کا معاملہ بھی ہے۔ اب اگر ایران کے ساتھ بھی معالات کشیدہ ہوجائیں تو پاکستان کے لیے معیشت اور تجارت مشکل ہوجائے گی۔
یہ سب کو واضح ہونا چاہیے کہ مشکل ضرور ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو بھی یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ ہماری خودمختاری اور سالمیت پر حملہ کرے۔ پاکستان نے ایران کو درست جواب دیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ہماری افواج ہر طرح سے تیار ہیں۔ یقین ہے کہ اب ایران ایسی حرکت نہیں کرے گا لیکن ہمیں پھر بھی چوکنا رہنا ہوگا۔
ایران ہمارے ملک میں فرقہ واریت کو بھی ہوا دے سکتا ہے، اس سے ہمارے لیے اندرونی طور پر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں لہٰذا ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔ ملک میں نئی قیادت کی فارمیشن ہورہی ہے، ہم عام انتخابات کی طرف جا رہے ہیں، ایسے میں ایران کا حملہ لمحہ فکریہ ہے۔ ملکی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت سب سے پہلے ہے، قوم کو یکجان ہوکر مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار)
ایران کے پاکستان میں حملوں کے حوالے سے سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے ایران نے حملہ کیوں کیا؟ حملہ تو اس وقت کیا جاتا ہے جب سفارتی راستہ بند ہوچکا ہو۔ یہاں تو پاک، ایران سفارتی تعلقات بہتر تھے۔ دونوں ممالک میں تجارت ، افواج کی مشترکہ مشقیں اور قیادت سے ملاقاتیں ہو رہی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ کی ہمارے وزیراعظم سے ملاقات ہوئی مگر بعدازاں اچانک حملہ کر دیا گیا۔ میرے نزدیک اس کا جواب خود ایران کے پاس بھی نہیں ہے کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا بلکہ وہ ناقابل فہم توجیہات پیش کر رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایران میں فیصلہ سازی میں 'ڈیپ سٹیٹ' شامل ہے۔ پاکستان کے حوالے سے ایران کا اندازہ غلط نکلا۔ اسے شاید یہ خیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں، پاکستان اس وقت مسائل میں گھرا ہوا ہے لہٰذا جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔پاکستان نے اس معاملے پر بہترین ردعمل دیا ہے۔ پاکستان نے پہلے سفارتی محاذ پر بھرپور جواب دیا۔ دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان نے بھاری دل کے ساتھ جوابی کارروائی کی ہے۔
میرے نزدیک پاکستان نے اس معاملے میں نپا تلا ردعمل دیا ہے۔ جوابی حملوں میں کوئی بھی ایرانی ہلاک نہیں ہوا بلکہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستان کے خلاف متحرک تھے۔ ایران کی بات کریں تو اس میں فرسٹیشن نظر آتی ہے۔ اسرائیل کا معاملہ، جنرل قاسم سلیمانی کا قتل اور پھر ان کی برسی پر حملہ جس میں 100 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، اس سب میںایران کچھ نہ کر سکا۔ پاکستان پر حملہ صرف دنیا کو بتانے کیلئے تھا کہ ہم کسی سے نہیں ڈرتے، اگر ہم پر دباؤ ڈالا گیا توجنگ کو وسیع کر دیں گے۔
پاکستان نے ایران کو جواب دیکر قومی خودمختاری اور ملکی سلامتی کا تحفظ کیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسے پاکستان نے اپنی جیت قرار نہیں دیا جس طرح ہم بھارت کے معاملے میں کلیم کرتے ہیں۔ پاکستان نے انتہائی سمجھداری کے ساتھ اس معاملے کو ہینڈل کیا اور دنیا پر یہ واضح بھی کر دیا کہ کسی کو بھی سرحدی خلاف ورزی نہیں کرنے دی جائے گی۔
چین نے دونوں ممالک کو بات چیت سے معاملہ حل کرنے کا کہا۔ حالات کو نارملائز کرنے میں چین کا کردار اہم ہوسکتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایران سے سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق اور کابینہ سے اس کی منظوری اچھا اقدام ہے۔ ایران کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں لہٰذا کوشش کی جائے کہ کسی بھی سطح پر جنگی بیانات جاری نہ کیے جائیں۔ ایران کو بھی چاہیے کہ اس معاملے کو بات چیت سے حل کرے۔ پاکستان کو اس وقت اپنے اندرونی معاملات دیکھنے ہیں۔
سیاسی اور معاشی استحکام لانا ہے۔ ہمارا پورا مغربی بارڈر حساس ہوچکا ہے لہٰذا بارڈر سکیورٹی کو مزید بڑھانا ہوگا۔ اچھے تعلقات پاکستان اور ایران ، دونوں کے مفاد میں ہیں،کشیدگی، دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ خطے کیلئے بھی مشکلات پیدا کرے گی۔
جاوید حسین
(سابق سفارتکار)
ایران نے ہمارے سرحدی علاقوںمیں حملے کیے ہیں جو افسوسناک بھی ہیں اور تشویشناک بھی۔افسوس اس لیے کہ ہمارے دوست ملک نے ایسا کیا جو سمجھ سے باہر ہے۔ اس کی مختلف توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے جن کا تعلق اسرائیل سے ہے، ایسا لگتا ہے کہ نان ریجنل پاورز اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، حالیہ حملوں کے پیچھے بھی وہ کار فرما ہیں۔
بھارت تو پہلے سے ہی ایران سے ہمارے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ایران سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری نے سب پول کھول دیے تھے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ ایران کی سرزمین استعمال کر رہی ہے، بھارت اسے سپورٹ کر رہا ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ میں جب ایران میں تعینات تھا تو اس وقت جنداللہ جو جیش العدل سے پہلے تھی، وہ ایران میں حملے کرتی تھی۔ ایران کا یہ خیال تھا اسے نان ریجنل پاورز کا تعاون حاصل ہے۔
ا سے اسرائیل، امریکا اور برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں سپورٹ کر رہی ہیں۔ ہمیں ایران سے شکایت تھی کہ اس کی سرزمین ہماری خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ اگر دونوں ممالک کی شکایات میں صداقت ہے تو یہ دونوں کہ لیے ہی لمحہ فکریہ ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرانے کے بجائے ان عناصر کے خلاف جوائنٹ آپریشنز کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ مشاورتی اقدامات کیے جائیں کہ جس کے پاس بھی انفارمیشن ہو وہ دوسرے کے ساتھ شیئر کرے اور اپنی سرحد کو دوسرے کے خلاف استعمال ہونے سے روکے، اسی میں دونوں ممالک کا مفاد ہے۔ 16، 17 جنوری کی درمیانی رات ایران نے جو کیا وہ غلط تھا۔ا س سے ہماری خودمختاری اور سالمیت متاثر ہوئی۔
پاکستان نے موثر انداز میں اس کا جواب دیا۔ ہمارے جوابی حملوں میں کوئی ایرانی نہیں مارا گیا بلکہ صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی نہیں کی بلکہ ڈرون، میزائل اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔
پاک ایران کشیدگی دونوں ممالک کے حق میں نہیں، اس معاملے کو سفارتی انداز میں ہی حل ہونا چاہیے۔ا س حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی نے جو فیصلہ کیا وہ درست ہے۔ سفارتی تعلقات کا فروغ دونوں کے حق میں ہے۔
اس میں چین کا کردار اہم ہوسکتا ہے۔ ہمیں اس سارے معاملے میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ایران کو کس نے گمراہ کیا؟ چند روز قبل بھارتی وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا تھا، ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔اس میں نان ریجنل طاقتوں کے کردار کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔
بڑی طاقتوں کا تو فارمولا ہی تقسیم اور راج کرنا ہے۔ صدام حسین کو بھی غلط گائیڈ کیا گیا تھا کہ ایران کی حالت بری ہے، وہ لڑ نہیں سکے گا۔ پھر صدام حسین نے حملہ کر دیا اور 8 سال تک جنگ جاری رہی جس میں دونوں کا نقصان ہوا اور فائدہ انہوں نے اٹھایا جنہوں نے غلط رپورٹس دی اور مس گائیڈ کیا۔ افغانستان اور طالبان کے معاملے میں بھی ایسے ہی معاملات تھے اور پھر 9/11 کے بعد امریکا خود آگیا۔
حالیہ معاملے میں بھارت اور مغربی ممالک کے عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں جب ایران میں تعینات تھا تو اس وقت بھارتی وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا اور اپنے سٹاف کے ساتھ میٹنگ میں یہ بات کی کہ ہم ایران اور پاکستان کے تعلقات کو اتنا خراب کریں گے کہ آئندہ اگر پاکستان کے ساتھ ہمارے مسائل پیدا ہوں تو پاکستان، ایران کی سپورٹ حاصل نہ کرسکے۔
یہ خفیہ بات چیت تھی جو ہم تک پہنچی۔ اس کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم انجانے میں بھارت کی سٹرٹیجی کا شکار تو نہیں ہو رہے؟یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب بھی ہمارے اور بھارت درمیان مسائل پیدا ہوئے، ایران نے ہمیں سپورٹ کیا لہٰذا اس کے ساتھ بہترین تعلقات ہمارا لانگ ٹرم منصوبہ ہونا چاہیے۔
قائداعظمؒ نے جب ایران میںا پنا سفیر بھیجا تو انہیں خصوصی طور پر یہ کہا کہ میں جس ملک میں بھیج رہا ہوں اس کے ساتھ ہمارے خصوصی تعلقات ہونگے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان اور ایران کی سکیورٹی ایک دوسرے سے لنک ہے لہٰذا کشیدگی کو کم اور دوستی کو فروغ دینا چاہیے۔
کرنل (ر) فرخ چیمہ
(دفاعی تجزیہ نگار)
فساد اور رد فساد میں انتہائی باریک لکیر ہوتی ہے۔ جنگ کی صورت میں دونوں فریقین ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرا رہے ہوتے ہیں لیکن پاک، ایران حالیہ کشیدگی میں واضح ہے کہ ایران نے فساد شروع کیا جو بلاوجہ ہے۔ ایران کا یہ حملہ ہماری سالمیت پر حملہ ہے جس کا افواج پاکستان نے انتہائی موثر انداز میں دفاع کیا اور جوابی حملے کرکے واضح کر دیا کہ پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت ناقابل تسخیر ہے۔
خودمختار ممالک کا یہی انداز ہوتا ہے کہ اگر کوئی سرحدی خلاف ورزی کرے تو ایسا جواب دیا جاتا ہے کہ آئندہ کسی کو جرات نہ ہو۔پاکستان نے ایران کے میزائل حملے کا بھرپور جواب دیتے ہوئے جمعرات کو علی الصبح ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں کارروائی کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو موثر انداز میں نشانہ بنایا جس میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
''مرگ برسرمچار آپریشن'' کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا اور ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار تھے۔ حملے میں ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور سٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ کولیٹرل نقصان سے بچنے کیلئے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی۔
اس کارروائی میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی جوابی کارروائی میں کسی شہی یا ایرانی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ایران کے پاکستان پر حملے کے حوالے قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ خود ایران کے پاس اس کا ٹھوس جواب نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایران فرسٹیشن کا شکار ہے ۔ وہ اسرائیل میں کچھ نہیں کر سکا لہٰذا اب جنگ کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہتا ہے۔اسے معلوم ہے کہ پاکستان مسائل میں پھنسا ہے۔ افغانستان کے ساتھ بھی مسائل ہیں، افغان مہاجرین کا معاملہ بھی ہے۔ اب اگر ایران کے ساتھ بھی معالات کشیدہ ہوجائیں تو پاکستان کے لیے معیشت اور تجارت مشکل ہوجائے گی۔
یہ سب کو واضح ہونا چاہیے کہ مشکل ضرور ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو بھی یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ ہماری خودمختاری اور سالمیت پر حملہ کرے۔ پاکستان نے ایران کو درست جواب دیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ہماری افواج ہر طرح سے تیار ہیں۔ یقین ہے کہ اب ایران ایسی حرکت نہیں کرے گا لیکن ہمیں پھر بھی چوکنا رہنا ہوگا۔
ایران ہمارے ملک میں فرقہ واریت کو بھی ہوا دے سکتا ہے، اس سے ہمارے لیے اندرونی طور پر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں لہٰذا ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔ ملک میں نئی قیادت کی فارمیشن ہورہی ہے، ہم عام انتخابات کی طرف جا رہے ہیں، ایسے میں ایران کا حملہ لمحہ فکریہ ہے۔ ملکی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت سب سے پہلے ہے، قوم کو یکجان ہوکر مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار)
ایران کے پاکستان میں حملوں کے حوالے سے سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے ایران نے حملہ کیوں کیا؟ حملہ تو اس وقت کیا جاتا ہے جب سفارتی راستہ بند ہوچکا ہو۔ یہاں تو پاک، ایران سفارتی تعلقات بہتر تھے۔ دونوں ممالک میں تجارت ، افواج کی مشترکہ مشقیں اور قیادت سے ملاقاتیں ہو رہی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ کی ہمارے وزیراعظم سے ملاقات ہوئی مگر بعدازاں اچانک حملہ کر دیا گیا۔ میرے نزدیک اس کا جواب خود ایران کے پاس بھی نہیں ہے کہ یہ حملہ کیوں کیا گیا بلکہ وہ ناقابل فہم توجیہات پیش کر رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایران میں فیصلہ سازی میں 'ڈیپ سٹیٹ' شامل ہے۔ پاکستان کے حوالے سے ایران کا اندازہ غلط نکلا۔ اسے شاید یہ خیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں، پاکستان اس وقت مسائل میں گھرا ہوا ہے لہٰذا جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔پاکستان نے اس معاملے پر بہترین ردعمل دیا ہے۔ پاکستان نے پہلے سفارتی محاذ پر بھرپور جواب دیا۔ دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان نے بھاری دل کے ساتھ جوابی کارروائی کی ہے۔
میرے نزدیک پاکستان نے اس معاملے میں نپا تلا ردعمل دیا ہے۔ جوابی حملوں میں کوئی بھی ایرانی ہلاک نہیں ہوا بلکہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستان کے خلاف متحرک تھے۔ ایران کی بات کریں تو اس میں فرسٹیشن نظر آتی ہے۔ اسرائیل کا معاملہ، جنرل قاسم سلیمانی کا قتل اور پھر ان کی برسی پر حملہ جس میں 100 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، اس سب میںایران کچھ نہ کر سکا۔ پاکستان پر حملہ صرف دنیا کو بتانے کیلئے تھا کہ ہم کسی سے نہیں ڈرتے، اگر ہم پر دباؤ ڈالا گیا توجنگ کو وسیع کر دیں گے۔
پاکستان نے ایران کو جواب دیکر قومی خودمختاری اور ملکی سلامتی کا تحفظ کیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسے پاکستان نے اپنی جیت قرار نہیں دیا جس طرح ہم بھارت کے معاملے میں کلیم کرتے ہیں۔ پاکستان نے انتہائی سمجھداری کے ساتھ اس معاملے کو ہینڈل کیا اور دنیا پر یہ واضح بھی کر دیا کہ کسی کو بھی سرحدی خلاف ورزی نہیں کرنے دی جائے گی۔
چین نے دونوں ممالک کو بات چیت سے معاملہ حل کرنے کا کہا۔ حالات کو نارملائز کرنے میں چین کا کردار اہم ہوسکتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایران سے سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق اور کابینہ سے اس کی منظوری اچھا اقدام ہے۔ ایران کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں لہٰذا کوشش کی جائے کہ کسی بھی سطح پر جنگی بیانات جاری نہ کیے جائیں۔ ایران کو بھی چاہیے کہ اس معاملے کو بات چیت سے حل کرے۔ پاکستان کو اس وقت اپنے اندرونی معاملات دیکھنے ہیں۔
سیاسی اور معاشی استحکام لانا ہے۔ ہمارا پورا مغربی بارڈر حساس ہوچکا ہے لہٰذا بارڈر سکیورٹی کو مزید بڑھانا ہوگا۔ اچھے تعلقات پاکستان اور ایران ، دونوں کے مفاد میں ہیں،کشیدگی، دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ خطے کیلئے بھی مشکلات پیدا کرے گی۔