دبئی میں کرکٹ اور شاہ رخ خان
شاہ رخ کرکٹ کے بہت شوقین ہیں، مختلف لیگز میں انھوں نے ٹیمیں خریدی ہوئی ہیں
اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ میں نے حال ہی میں جیسن ہولڈر اور سیم بلنگز کی بولنگ کا سامنا کیا اور چند شاٹس بھی کھیلے تو آپ شاید مسکرا کر سوچیں ایسا ویڈیو گیم میں ہوا ہو گا، البتہ مجھے واقعی یہ موقع دبئی میں آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کے دوران ملا، جب ٹینس بال سے چند صحافیوں نے اسٹارز کے ساتھ کچھ دیر کرکٹ کھیلی، ہولڈر سنجیدہ طبیعت کے مالک اور بلنگز ہنسی مذاق کرنے والے انسان ہیں۔
انھوں نے اردو اور پنجابی کے کچھ الفاظ بھی سیکھ لیے جو بولتے رہتے ہیں جیسے شاباش شاباش، اوے ایتھے شاٹ مار وغیرہ،دبئی میں یہ اچھا تجربہ رہا،اگلے دن شارجہ میں افتتاحی میچ کے دوران گہما گہمی رہی، میں نے ہربھجن سنگھ کا بھی انٹرویو کیا جو آپ جلد ''کرکٹ پاکستان '' پر دیکھیں گے۔
شارجہ اسٹیڈیم میں ڈنر کرتے ہوئے ایک بھارتی صحافی نے باآواز بلند کہا کہ ''ذکا اشرف نے استعفیٰ دے دیا'' مجھ تک یہ خبر پہنچ چکی تھی لیکن میں خود خاموش بیٹھا رہاا کیونکہ یہاں ہر دوسرے آدمی کا یہی سوال تھا کہ آپ کے بورڈ میں اتنی تبدیلیاں کیوں ہوتی ہیں۔
میں کیسے انھیں یہ جواب دیتا کہ ایسا حکومتی مداخلت کے سبب ہوتا ہے اس لیے انجان بنا رہا، ذکا اشرف کو اس بار ہاتھ پاؤں باندھ کر فائٹ کیلیے رنگ میں اتارا گیا، مخالف گروپ کا موجودہ اعلیٰ حلقوں میں اثرورسوخ زیادہ ہے لہذا پی سی بی کا سربراہ ہوتے ہوئے بھی ذکا اشرف بے بس تھے،گوکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ تاخیر سے مستعفی ہوئے لیکن فیصلہ درست ہی رہا، میں نے جب انھیں فون کیا تو وہ کہنے لگے کہ ''میں کوئی کام نہیں کر پا رہا تھا۔
حکومت سے اجازت ہی نہیں ملتی، اس لیے عہدے پر جمے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا''۔ اس دن شارجہ اسٹیڈیم میں اچھا ماحول بنا ہوا تھا،اگلے دن اینڈی فلاور سے ملاقات ہوئی، انھوں نے بتایا کہ وہ مصروفیات کی وجہ سے آئندہ برس بھی پی ایس ایل کیلیے دستیاب نہیں ہوں گے، ویسے ملتان سلطانز کیلیے نویں ایڈیشن میں کارکردگی کا معیار برقرار رکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔
عالمگیر ترین کی وفات کے بعد علی ترین نے ذمہ داری سنبھال لی ہے لیکن وہ دکھاوا کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جس کام میں واہ واہ ہو وہاں علی ترین متحرک نظر آتے ہیں،شاید اس کی وجہ سیاسی کیریئر کی تیاری ہو، جیسے علی ظفر نے پی ایس ایل کا ترانہ گایا لیکن ملتان سلطانز نے اعتراض جڑ دیا،علی ظفر نے اپنا پیسہ لگا کر گانا بنایا جو اب آفیشل طور پر کام نہیں آ سکے گا، کسی اور گلوکار کی خدمات لی جائیں گی۔
ان پر ماضی میں ہراسگی کا الزام لگا جو ثابت نہ ہو سکا لیکن اسے بنیاد بنا کر اینتھم نہیں گانے دیا گیا،دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی پی سی بی کے ایک صاحب ایسے ہی ہراسگی کا الزام لگنے کے بعد دوبارہ بڑی پوسٹ پر براجمان ہیں، چونکہ ان پراعتراض سے ہیڈلائن نہیں بنتی اس لیے کسی نے شور نہیں مچایا،خیر بات آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کی ہو رہی تھی، جب دبئی میں پہلا میچ ہوا تو میری وقار یونس سے ملاقات ہوئی، وہ کمنٹری کرنے آئے ہوئے ہیں۔
وقار بھائی بھی ملکی کرکٹ کی صورتحال پر رنجیدہ نظر آئے، ملک سے محبت کرنے والے ہر شخص کا یہی سوال ہے کہ یہ ہماری کرکٹ کے ساتھ ہو کیا رہا ہے،آسٹریلیا کے بعد نیوزی لینڈ میں بھی ٹیم مسلسل ہارتی رہی، وسیم اکرم سے کافی تفصیلی بات چیت ہوئی، وسیم بھائی کا بھی یہی سوال تھا کہ پی سی بی میں اب کیا ہوگا؟
شعیب اختر نے میڈیا سینٹر میں میرے ساتھ ہی لنچ کیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ اب ملکی کرکٹ کے معاملات میں دلچسپی ہی نہیں لیتے، اتنی بْری خبروں کے درمیان آج پاکستان کے میچ جیتنے کی اچھی نیوز بھی ملی، اس سے ظاہر ہوا کہ کھلاڑیوں میں صلاحیت موجود ہے لیکن یکجتی کی کمی ہو گئی، کپتانی نے آپس میں پھوٹ ڈال دی، جس طرح کی بیٹنگ ہوئی اس سے 0-5 کے آثار نمایاں تھے لیکن بولرز نے اچھی کارکردگی سے فتح دلا دی۔
شاہین شاہ آفریدی اور اعظم خان نیوزی لینڈ سے براہ راست یو اے ای پہنچ کر آئی ایل ٹی ٹوئنٹی میں حصہ لیں گے، عماد وسیم اور محمد عامر تو پہلے ہی سے ایکشن میں ہیں، شاداب خان بھی آنے والے ہیں، منتظمین کو امید ہے کہ پاکستانی کرکٹرز کی آمد سے آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کی رونقیں بڑھیں گی۔
ویسے اس بار میں3 میچز کے دوران اسٹیڈیم گیا مجھے شائقین کا جوش وخروش زیادہ نظر آیا، نعرے بازی بھی ہوتی رہی، اب شاہین کے آنے سے خصوصا پٹھان بھائی تو بڑی تعداد میں آ سکتے ہیں، ایک پٹھان (شاہ رخ خان ) توپہلے ہی دبئی آئے ہوئے ہیں،وہ گذشتہ برس لیگ کے دوران فلم پٹھان کی پروموشن کر رہے تھے۔
اس مرتبہ اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کیلیے آئے، ٹی وی پر انھیں اسٹیڈیم میں دیکھ کر مجھ سے کئی دوستوں نے کہا کہ شاہ رخ سے ملاقات ہوئی؟ سیلفی ضرور لینا، میں انھیں یہی جواب دیتا رہا کہ ان کی سیکیورٹی کسی کو قریب نہیں جانے دیتی لہذا کوئی چانس نہیں تھا، شاہ رخ کرکٹ کے بہت شوقین ہیں، مختلف لیگز میں انھوں نے ٹیمیں خریدی ہوئی ہیں، پیسے کی تو ان کو کمی نہیں ظاہر ہے شوق میں ایسا کرتے ہیں،عماد وسیم انہی کی ٹیم کا حصہ ہیں،میں آپ کو ان سے پوچھ کر بتاؤں گا کہ ٹیم اونر سے کیا بات ہوئی، اب میری بھی وطن واپسی کی تیاری ہے۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ پی سی بی کا سربراہ کون بنے گا، امیدواروں نے اپنی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں مگر آئے گا وہی جس کی پارٹی عام انتخابات جیتے گی، شاید نجم سیٹھی کو ایک اور اننگز کھیلنے کا موقع مل جائے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ندیم عمر بھی دوڑ میں شامل ہیں، میں نے پی سی بی کے الیکشن کمشنر شاہ خاور سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اس ہفتے صورتحال واضح ہو جائے گی،خیر چیئرمین جو بھی آئے اسے کام کرنے کیلیے پورے تین سال ملنے چاہیئں تاکہ ملکی کرکٹ سے غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
انھوں نے اردو اور پنجابی کے کچھ الفاظ بھی سیکھ لیے جو بولتے رہتے ہیں جیسے شاباش شاباش، اوے ایتھے شاٹ مار وغیرہ،دبئی میں یہ اچھا تجربہ رہا،اگلے دن شارجہ میں افتتاحی میچ کے دوران گہما گہمی رہی، میں نے ہربھجن سنگھ کا بھی انٹرویو کیا جو آپ جلد ''کرکٹ پاکستان '' پر دیکھیں گے۔
شارجہ اسٹیڈیم میں ڈنر کرتے ہوئے ایک بھارتی صحافی نے باآواز بلند کہا کہ ''ذکا اشرف نے استعفیٰ دے دیا'' مجھ تک یہ خبر پہنچ چکی تھی لیکن میں خود خاموش بیٹھا رہاا کیونکہ یہاں ہر دوسرے آدمی کا یہی سوال تھا کہ آپ کے بورڈ میں اتنی تبدیلیاں کیوں ہوتی ہیں۔
میں کیسے انھیں یہ جواب دیتا کہ ایسا حکومتی مداخلت کے سبب ہوتا ہے اس لیے انجان بنا رہا، ذکا اشرف کو اس بار ہاتھ پاؤں باندھ کر فائٹ کیلیے رنگ میں اتارا گیا، مخالف گروپ کا موجودہ اعلیٰ حلقوں میں اثرورسوخ زیادہ ہے لہذا پی سی بی کا سربراہ ہوتے ہوئے بھی ذکا اشرف بے بس تھے،گوکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ تاخیر سے مستعفی ہوئے لیکن فیصلہ درست ہی رہا، میں نے جب انھیں فون کیا تو وہ کہنے لگے کہ ''میں کوئی کام نہیں کر پا رہا تھا۔
حکومت سے اجازت ہی نہیں ملتی، اس لیے عہدے پر جمے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا''۔ اس دن شارجہ اسٹیڈیم میں اچھا ماحول بنا ہوا تھا،اگلے دن اینڈی فلاور سے ملاقات ہوئی، انھوں نے بتایا کہ وہ مصروفیات کی وجہ سے آئندہ برس بھی پی ایس ایل کیلیے دستیاب نہیں ہوں گے، ویسے ملتان سلطانز کیلیے نویں ایڈیشن میں کارکردگی کا معیار برقرار رکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔
عالمگیر ترین کی وفات کے بعد علی ترین نے ذمہ داری سنبھال لی ہے لیکن وہ دکھاوا کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جس کام میں واہ واہ ہو وہاں علی ترین متحرک نظر آتے ہیں،شاید اس کی وجہ سیاسی کیریئر کی تیاری ہو، جیسے علی ظفر نے پی ایس ایل کا ترانہ گایا لیکن ملتان سلطانز نے اعتراض جڑ دیا،علی ظفر نے اپنا پیسہ لگا کر گانا بنایا جو اب آفیشل طور پر کام نہیں آ سکے گا، کسی اور گلوکار کی خدمات لی جائیں گی۔
ان پر ماضی میں ہراسگی کا الزام لگا جو ثابت نہ ہو سکا لیکن اسے بنیاد بنا کر اینتھم نہیں گانے دیا گیا،دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی پی سی بی کے ایک صاحب ایسے ہی ہراسگی کا الزام لگنے کے بعد دوبارہ بڑی پوسٹ پر براجمان ہیں، چونکہ ان پراعتراض سے ہیڈلائن نہیں بنتی اس لیے کسی نے شور نہیں مچایا،خیر بات آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کی ہو رہی تھی، جب دبئی میں پہلا میچ ہوا تو میری وقار یونس سے ملاقات ہوئی، وہ کمنٹری کرنے آئے ہوئے ہیں۔
وقار بھائی بھی ملکی کرکٹ کی صورتحال پر رنجیدہ نظر آئے، ملک سے محبت کرنے والے ہر شخص کا یہی سوال ہے کہ یہ ہماری کرکٹ کے ساتھ ہو کیا رہا ہے،آسٹریلیا کے بعد نیوزی لینڈ میں بھی ٹیم مسلسل ہارتی رہی، وسیم اکرم سے کافی تفصیلی بات چیت ہوئی، وسیم بھائی کا بھی یہی سوال تھا کہ پی سی بی میں اب کیا ہوگا؟
شعیب اختر نے میڈیا سینٹر میں میرے ساتھ ہی لنچ کیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ اب ملکی کرکٹ کے معاملات میں دلچسپی ہی نہیں لیتے، اتنی بْری خبروں کے درمیان آج پاکستان کے میچ جیتنے کی اچھی نیوز بھی ملی، اس سے ظاہر ہوا کہ کھلاڑیوں میں صلاحیت موجود ہے لیکن یکجتی کی کمی ہو گئی، کپتانی نے آپس میں پھوٹ ڈال دی، جس طرح کی بیٹنگ ہوئی اس سے 0-5 کے آثار نمایاں تھے لیکن بولرز نے اچھی کارکردگی سے فتح دلا دی۔
شاہین شاہ آفریدی اور اعظم خان نیوزی لینڈ سے براہ راست یو اے ای پہنچ کر آئی ایل ٹی ٹوئنٹی میں حصہ لیں گے، عماد وسیم اور محمد عامر تو پہلے ہی سے ایکشن میں ہیں، شاداب خان بھی آنے والے ہیں، منتظمین کو امید ہے کہ پاکستانی کرکٹرز کی آمد سے آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کی رونقیں بڑھیں گی۔
ویسے اس بار میں3 میچز کے دوران اسٹیڈیم گیا مجھے شائقین کا جوش وخروش زیادہ نظر آیا، نعرے بازی بھی ہوتی رہی، اب شاہین کے آنے سے خصوصا پٹھان بھائی تو بڑی تعداد میں آ سکتے ہیں، ایک پٹھان (شاہ رخ خان ) توپہلے ہی دبئی آئے ہوئے ہیں،وہ گذشتہ برس لیگ کے دوران فلم پٹھان کی پروموشن کر رہے تھے۔
اس مرتبہ اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کیلیے آئے، ٹی وی پر انھیں اسٹیڈیم میں دیکھ کر مجھ سے کئی دوستوں نے کہا کہ شاہ رخ سے ملاقات ہوئی؟ سیلفی ضرور لینا، میں انھیں یہی جواب دیتا رہا کہ ان کی سیکیورٹی کسی کو قریب نہیں جانے دیتی لہذا کوئی چانس نہیں تھا، شاہ رخ کرکٹ کے بہت شوقین ہیں، مختلف لیگز میں انھوں نے ٹیمیں خریدی ہوئی ہیں، پیسے کی تو ان کو کمی نہیں ظاہر ہے شوق میں ایسا کرتے ہیں،عماد وسیم انہی کی ٹیم کا حصہ ہیں،میں آپ کو ان سے پوچھ کر بتاؤں گا کہ ٹیم اونر سے کیا بات ہوئی، اب میری بھی وطن واپسی کی تیاری ہے۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ پی سی بی کا سربراہ کون بنے گا، امیدواروں نے اپنی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں مگر آئے گا وہی جس کی پارٹی عام انتخابات جیتے گی، شاید نجم سیٹھی کو ایک اور اننگز کھیلنے کا موقع مل جائے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ندیم عمر بھی دوڑ میں شامل ہیں، میں نے پی سی بی کے الیکشن کمشنر شاہ خاور سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اس ہفتے صورتحال واضح ہو جائے گی،خیر چیئرمین جو بھی آئے اسے کام کرنے کیلیے پورے تین سال ملنے چاہیئں تاکہ ملکی کرکٹ سے غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)