پاکستان کے قرضوں کا استحکام ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا

آمدنی کا مجموعی تخمینہ 9 ہزار ارب روپے ،سود کی مد میں 8.5 ہزار ارب روپے ادا کرنے ہیں

چین، سعودیہ، متحدہ عرب امارات کی مدد کے بغیر پاکستان کیلیے قرضوں کا حصول مزید چیلنجنگ ہوگا۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے قرضوں کا استحکام ایک بار پھر موضوع بحث بن چکا ہے جب کہ 28 سال قبل پاکستان میں شرح سود 20 فیصد کی شرح پر پہنچ گئی تھی۔

پاکستان کی کل ٹیکس وصولی کا تخمینہ 9 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ پاکستان کو محض سود کی مد میں ہی 8.5 ہزار ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، قرضوں کو راتوں رات کم نہیں کیا جاسکتا، اس کیلیے بڑے پیمانے پر اسٹرکچرل اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ خرچوں کو کم کیا جاسکے اور ریونیو کو بڑھایا جاسکے، جبکہ شرح سود پر بھی نظرثانی کرنا ضروری ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پہلی ششماہی، پاکستان کو 8 ارب 10 کروڑ ڈالر کے بیرونی قرض وصول


ماہرین اس بات پر منقسم ہیں کہ مہنگائی بے تحاشا کرنسی چھاپنے کا نتیجہ ہے یا پھر کرنسی کی قدر میں کمی اس کا سبب ہے، 22 فیصد شرح سود پاور، گیس اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے ہونے والی مہنگائی کو کتنا کنٹرول کرسکتی ہے، یہ ایک الگ بحث ہے، چین، سعودی عرب اور یو اے ای کی مدد کے بغیر پاکستان کیلیے قرضوں کا حصول مزید چیلنجنگ ہوگا۔

اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کی فعالیت کی فوری ضرورت ہے، ٹی بلز کی نیلامی سے گورنمنٹ کی جانب سے قرضوں کے حصول پر شرح سود میں 4 فیصد تک کمی آئی ہے، دسمبر میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونے سے کچھ موہوم امیدوں کو جلا ملی ہے۔

برآمدات میں اضافے کیلیے روپے کی قدر میں اضافے کو روکنا پڑسکتا ہے، شرح سود میں کمی ضروری ہے، لیکن یہ اسی وقت کارآمد ہوگی جب جامع اسٹرکچرل اصلاحات کی جائیں گی۔
Load Next Story