کاش ہم جدا نہ ہوتے کبھی الوداع نہ کہتے

ریاض الرحمان ساغرکی پہلی برسی پران کے نواسے اور نواسیوں کی خصوصی تحریر


ریاض الرحمان ساغرکی پہلی برسی پران کے نواسے اور نواسیوں کی خصوصی تحریر۔ فوٹو : فائل

زندہ رہنے کی آرزو سے بھرپور وہ آنکھیں اور اپنوں میں مزید خوشیاں اور پیار بانٹنے کا وہ خواہشمند چہرہ حسرت سے منہ موڑتی زندگی کو دیکھ رہا تھا۔

ان کی زندہ رہنے کی چاہ بیماری کے خلاف ہر دم ڈھال بنی ہوئی تھی، اس قدر علیل ہونے کے باوجود وہ آنکھوں کے اشاروں سے ہمارے ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔ شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا، آخر زندگی ہار گئی اور موت جیت گئی، یکم جون 2013ء کو ہمارا اور نانا ابو کا پیار بھرا سفر اختتام پذیرہوا، انہوں نے جناح ہسپتال کے آئی سی یو میں ہفتہ کی شب سوا نو بجے کے قریب اپنی آخری سانس لی، وہ ہمیں روتا بلکتا چھوڑ کر اپنی گلی منزل کی طرف چل دیئے۔

ریاض الرحمن ساغر اب ہمارے بیچ نہیں ہیں، فلمی دنیا میں وہ ایک نہ پُر ہونے والا خلا تو چھوڑ ہی گئے ہیں مگر ہم اپنی حقیقی زندگی کے ایک بے مثال ہیرو سے محروم ہو گئے ہیں، یہ بلاشبہ ہمارے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، ان کے پیار، شفقت اور پرخلوص محبت نے بھی ہماری زندگی سے رخصت لی تھی، وہ ہمیں اپنی یادوں اور محبتوں کے سہارے غمزدہ چھوڑ گئے۔

ان کے ساتھ گزرا ہر اک پل زندہ ہے، بظاہر وہ ہمارے ساتھ نہیں لیکن وہ ہماری ہر بات میں زندہ ہیں، کچھ لوگ ایک بہترین زندگی گزارنے کے بعد مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں،ایسی ہی ایک داستان یہ بھی ہے۔

منفرد اور اپنی طرز کے ایک الگ منظوم کالم نگار، شاعر اور ادیب کی حیثیت سے تو انہوں نے کامیابی کے آسمان چھوئے ہی ہیں مگر بحیثیت شوہر،بیٹا،والد، سسر اور نانا ان کا مقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ اپنے گھر والوں پر جان چھڑکتے، ان کی ضروریات کو سمجھتے اور خیال رکھتے، ان میں خوشیاں بانٹتے بانٹتے وہ سب کو تنہا کر گئے، کوئی کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انہیں الوداع بھی کہنا پڑے گا، اپنی اکلوتی بیٹی ، اپنے نواسے اور نواسیوں کو اپنی زندگی اور جگر کا ٹکڑا کہتے تھے۔

ان کی زندگی حقیقی معنوں میں مشعل راہ ہے۔ ہسپتال میں جب ان کے دماغ میں دو جگہ کینسر کی رسولی کی تشخیص ہوئی تو ہر ڈاکٹر کا یہی سوال ہوتا تھا کیا ان کی یادداشت ٹھیک ہے جو ان کے ہوش وحواس کے لمحات میں آخری وقت تک قائم رہی، ڈاکٹروں کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ شاید اب یہ آپ میں سے بھی کسی کو نہ پہچانیں مگر اللہ کا خاص کرم تھا کہ وہ ہم سب کو تو پہچانتے ہی تھے بلکہ کئی رشتہ دار اور ان کے قریبی دوست احباب جو کم ہی نظر آتے تھے۔



ان کو وہ بھی یاد تھے، ماضی کی کئی باتیں اور حوالے بھی وہ اکثر دیتے رہتے تھے، ہم بھی آخری دن تک پرامید تھے کہ اللہ تعالیٰ ضرور کوئی معجزہ دکھائیں گے اور وہ پھر سے پہلے کی طرح ہمارے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔ سب کچھ وہیں کا وہیں رہ گیا، بس زندگی کے رنگ پھیکے پڑ گئے، نظام قدرت ہے جو یونہی چلتا رہے گا، اس ظالم موت کو کیا پتہ جدائی کا درد کیا ہوتا ہے۔

ان کے جانے سے زندگی رکی اور نہ ہی ہم نے سانس لینا چھوڑ دیا، بہرحال نانا ابو کے بعد ایک تبدیلی ضرور آئی ہے، اب کوئی بھی الٹا کام کرنے سے پہلے ہم اس کے نتائج کے بارے میں اچھی طرح سوچ لیتے ہیں کیونکہ ہمیں بچانے اور پیار سے سمجھانے کیلئے اب نانا ابو نہیں ہیں، ان کی موجودگی میں دل کو حوصلہ ہوتا تھا کہ اور کوئی ساتھ دے نہ دے، نانا ابو ضرور دیں گے، اپنے امی ابو سے کوئی بھی بات منوانی ہو، بس ایک فون کرنا پڑتا تھا، نانا ابو کی سفارش آجاتی تھی، واقعی بڑوں کی اپنی ہی حیثیت اور رونق ہوتی ہے، خاص کر اگر بڑے نانا ابو جیسے ہوں، کسی انسان کا کوئی نعم البدل نہیں، کوئی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا، یہ حقیقت ہے کہ نانا ابو کی جگہ کسی نے اب تک لی ہے اور نہ کوئی آئندہ لے سکے گا۔

ان کے جانے سے ہمارا دکھ اس لئے بھی اور زیادہ ہو گیا تھا کہ ہمارے دادا ابو ان سے چار سال پہلے اس دنیا سے چلے گئے تھے، دونوں کے درمیان بہت دوستی تھی، ایک دوسرے کا بہت احترام بھی کرتے تھے، دادا ابو کے جانے کے بعد نانا ابو کہا کرتے تھے کہ اب میں تم لوگوں کا دادا بھی ہوں اور نانا بھی۔

وہ ہاتھ جو ان کیلئے صحت، تندرستی اور طویل عمری مانگنے کیلئے اٹھتے تھے، وہ اب ہر دفعہ ان کیلئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام مانگتے ہوئے کانپتے ہیں، زبان لڑکھڑاتی ہے مگر کوئی فائدہ نہیں، ہمارے چاہنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔

شاید اس میں بھی اللہ کی طرف سے کوئی بہتری تھی، اگر انہیں کینسر جیسی موذی بیماری کے ساتھ مزید زندگی مل جاتی تو شاید ہم بھی ان کی تکلیف نہ دیکھ سکتے، ہسپتال میں جب انہیں کوئی انجکشن وغیرہ لگتا تھا تو دل تڑپتا تھا، آخری دنوں میں تو وہ وینٹی لیٹر پر تھے، کئی قسم کی نالیاں لگی ہوئی تھیں، ان کو تکلیف بھی بہت تھی جسے دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو نہیں تھمتے تھے، اپنی بے بسی پر غصہ آتا تھا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن انہوں نے اپنی بیماری کے دوران کسی لمحے بھی اپنے دکھ اور تکلیف کا اظہار تک نہیں کیا۔

بہرحال سچ یہی ہے، ہمیں ہر حال میں اس کو تسلیم کرنا ہے کیونکہ وہ کبھی نہیں لوٹیں گے، ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ رب کی ذات نے انہیں اس دنیا میں جتنی عزت اور پیار بخشا، اگلی دنیا میں اس سے بھی دوگنا، چوگنا بخشیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، ان کے کبیرہ صغیرہ تمام گناہ معاف کریں اور ان کو اپنے حبیب ؐ کی شفاعت نصیب کریں، آمین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں