پاکستان بار کونسل کی اپیل
ملک میں شفافیت برقرار رکھنے کی بنیادی ذمے داری عدلیہ کی ہے
پاکستان بار کونسل نے ایک حالیہ پریس ریلیز میںسپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مطالبہ کیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار سیٹھ کی سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے کی جانے والی تعیناتیوں کے خلاف پٹیشن فوری سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔ سیٹھ وقار کا کورونا میں انتقال ہو گیا تھا۔
لیکن اپنی وفات سے پہلے بطور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ انھوں نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی۔ جس میں سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتیوں میں سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
ان کی زندگی میں اس پٹیشن کی سماعت نہیں ہو سکی۔ وہ سپریم کورٹ سے انصاف مانگتے مانگتے ہی اللہ کے حضور پیش ہو گئے تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو سزا سنانے کے بعد سیٹھ وقار کو سپریم کورٹ میں جج بننے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔
حالانکہ سینیارٹی میں ان کی سپریم کورٹ تعیناتی بنتی تھی۔ خود کو نظر انداز کرنے کے خلاف انھوں نے سپریم کورٹ میں انصاف کے لیے پٹیشن دائر کی۔ لیکن وہ پٹیشن سماعت کے لیے مقرر نہ ہو سکی۔
سپریم کورٹ کے جج مظاہر علی نقوی اور اعجاز الا حسن کے مستعفی ہونے اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں ججز کی آسامیاں خالی ہو گئی ہیں۔ اب سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتیاں ہو نی ہیں۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ نئی تعیناتیاں کس اصول کے تحت کی جائیں گی۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ جب چیف جسٹس نہیں تھے لیکن ججز تعینات کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے تب بھی یہی مطالبہ کرتے تھے ججز کی تعیناتی کے لیے ایک شفاف طریقہ کار بنایا جائے۔
اس طرح مرضی کے ججز کو تعینات کرنا اور سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے تعیناتیاں کر نا درست نہیں ہے۔ شاید اسی لیے پاکستان بار کونسل اور ویگر وکلاء تنظیموں کو موجودہ چیف جسٹس سے یہ امید ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے کوئی شفاف طریقہ بنائیں گے۔ اور من پسند ججز کی تعیناتیوں کا راستہ روکیں گے۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ عدلیہ پورے ملک میں میرٹ کے نظام کے نفاذ کی ذمے د ار ہے۔ ملک میں کہیں بھی میرٹ کی خلاف ورزی ہو تو ہم عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ۔ عدلیہ میرٹ کی بحالی کا حکم دیتی ہے۔
ملک میں شفافیت برقرار رکھنے کی بنیادی ذمے داری عدلیہ کی ہے۔ لیکن اگر عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کا نظام ہی شفافیت پر نہ ہو تو کہاں سوال کیا جائے۔ نظام کا تقاضہ یہی ہے کہ عدلیہ میں نا انصافی پر بھی انصاف عدلیہ سے ہی طلب کیا جائے۔
اسی لیے مرحوم جسٹس وقار سیٹھ کے ساتھ جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے زیادتی کی وہ نظام کی وجہ سے سپریم کورٹ میں اسی چیف جسٹس سے انصاف مانگنے پر مجبور تھے۔
ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اسی چیف جسٹس سے انصاف طلب کرتے جس نے ان کے ساتھ زیادتی کی۔ اور پھر وہی ہوا کہ ان کی پٹیشن سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی۔ اب سوال یہ موجود ہے کہ جب ججز کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو وہ کیا کریں۔
دنیا بھر میں اس معاملہ کے حل کے لیے پارلیمانی کمیٹیاں موجود ہیں۔ لیکن یہاں عدلیہ نے ججز کی تعیناتی میں پارلیمان کی کمیٹی کو تقریبا ربڑ سٹمپ ہی بنا دیا ہے۔
اس لیے ججز کے ساتھ ہونیوالی زیاددتیوں میں بھی پارلیمانی کمیٹی کا کوئی کردار نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حق میں سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ میں بنچز بننے کا کچھ طریقہ کار طے ہو گیا ہے۔ لیکن ابھی کیس لگنے کا کوئی شفاف طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
کوئی یہ سوال نہیں کر سکتا کہ سیٹھ وقار کی پٹیشن بروقت کیوں نہیں لگی۔ انھیں انصاف کیوں نہیں ملا۔ ان کے مقابلے میں ان سے جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں کیوں تعینات کیا گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ جب ایک جج ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہے۔ جب ایک جج ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کا اہل ہے۔ تو وہ سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل نہیں۔ اگر کوئی ہائی کورٹ میں مقدمہ سن سکتا ہے تو پھر سپریم کورٹ میں کیوں نہیں سن سکتا۔
آج تک کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ جونیئر ججز کی تعیناتی میں کیا فائدہ تھا اور سنیئرز کو نظر انداز کرنے کے کیا فوائد ہیں۔ جن کو لایا گیا ہے ان میں کیا اضافی خصوصیات ہیں۔ اور جن کو نظرانداز کیا گیا ان میں کیا کمی تھی۔ یہ سوال اہم ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں پسند و نا پسند کی بنیاد پر پابندیوں کی بازگشت نظام عدل کے لیے ٹھیک نہیں۔ پسند و نا پسند کی بنیاد پر تعیناتیوں کی وجہ سے ہی ہم خیال بنچ کا شور اٹھا۔ اسی وجہ سے ہم خیال ججز کے گروپ کا تاثر قائم ہوا۔
میں سمجھتا ہوں ماضی میں ہم نے سپریم کورٹ میں ججز کے درمیان جو اختلاف دیکھا ہے اس کی بنیادی وجہ بھی ججز کی تعیناتی میں شفافیت کا فقدان نظر آیا ہے۔
سپریم کورٹ میں سینئر ججز کے درمیان اختلاف کی بنیادی وجہ بھی یہی رہی ہے۔ ماضی میں بھی چیف جسٹس صاحبان نے کوشش کی ہے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنے گروپ کے ججز کو سپریم کورٹ میں لے آئیں۔ میں سمجھتا ہوں اب اس روش کو ختم ہونا چاہیے۔
یہ سوال بھی ٹھیک ہے کہ کیا صرف سنیارٹی سپریم کورٹ میں ترقی کی بنیاد ہونی چاہیے؟ کیا اچھے فیصلوں کی کوئی اہمیت ہونی چاہیے؟ ابھی تو یہ صورتحال ہے کہ اگر کوئی میرٹ سے ہٹ کر ہائی کورٹ کا جج بن گیا ہے تو سنیارٹی پر چیف جسٹس بن جائیں گے۔
چاہے آپ نے زندگی میں کوئی ابھی اچھا فیصلہ نہ دیا ہو۔ چاہے آپ کے مقدمے سننے کی رفتار سب سے کم ہو۔ چاہے آپ سب سے کم کام ہی کرتے ہوں۔ لیکن اگر آپ ایک دفعہ بن گئے ہیں تو پھر چیف بننا آپ کا حق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ جانا بھی سنیارٹی کی بنیاد پر آپ کا حق ہونا چاہیے۔ یا کارکردگی کے بھی کوئی نمبر ہونے چاہیے۔
اس کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ اچھے اور برے جج کی کیا تعریف ہو؟ نمبر کیسے دیے جائیں گے؟ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اگر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے آپ کو نالائق کہہ دیا ہے تو آپ نالائق ہیں۔ کوئی تو نظام ہونا چاہیے کہ آپ سپریم کورٹ آسکتے ہیں' آپ نہیں آسکتے۔ اس کا کوئی نہ کوئی شفاف معیار تو ہونا چاہیے۔
لیکن اپنی وفات سے پہلے بطور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ انھوں نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی۔ جس میں سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتیوں میں سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
ان کی زندگی میں اس پٹیشن کی سماعت نہیں ہو سکی۔ وہ سپریم کورٹ سے انصاف مانگتے مانگتے ہی اللہ کے حضور پیش ہو گئے تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو سزا سنانے کے بعد سیٹھ وقار کو سپریم کورٹ میں جج بننے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔
حالانکہ سینیارٹی میں ان کی سپریم کورٹ تعیناتی بنتی تھی۔ خود کو نظر انداز کرنے کے خلاف انھوں نے سپریم کورٹ میں انصاف کے لیے پٹیشن دائر کی۔ لیکن وہ پٹیشن سماعت کے لیے مقرر نہ ہو سکی۔
سپریم کورٹ کے جج مظاہر علی نقوی اور اعجاز الا حسن کے مستعفی ہونے اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں ججز کی آسامیاں خالی ہو گئی ہیں۔ اب سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتیاں ہو نی ہیں۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ نئی تعیناتیاں کس اصول کے تحت کی جائیں گی۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ جب چیف جسٹس نہیں تھے لیکن ججز تعینات کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے تب بھی یہی مطالبہ کرتے تھے ججز کی تعیناتی کے لیے ایک شفاف طریقہ کار بنایا جائے۔
اس طرح مرضی کے ججز کو تعینات کرنا اور سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے تعیناتیاں کر نا درست نہیں ہے۔ شاید اسی لیے پاکستان بار کونسل اور ویگر وکلاء تنظیموں کو موجودہ چیف جسٹس سے یہ امید ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے کوئی شفاف طریقہ بنائیں گے۔ اور من پسند ججز کی تعیناتیوں کا راستہ روکیں گے۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ عدلیہ پورے ملک میں میرٹ کے نظام کے نفاذ کی ذمے د ار ہے۔ ملک میں کہیں بھی میرٹ کی خلاف ورزی ہو تو ہم عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ۔ عدلیہ میرٹ کی بحالی کا حکم دیتی ہے۔
ملک میں شفافیت برقرار رکھنے کی بنیادی ذمے داری عدلیہ کی ہے۔ لیکن اگر عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کا نظام ہی شفافیت پر نہ ہو تو کہاں سوال کیا جائے۔ نظام کا تقاضہ یہی ہے کہ عدلیہ میں نا انصافی پر بھی انصاف عدلیہ سے ہی طلب کیا جائے۔
اسی لیے مرحوم جسٹس وقار سیٹھ کے ساتھ جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے زیادتی کی وہ نظام کی وجہ سے سپریم کورٹ میں اسی چیف جسٹس سے انصاف مانگنے پر مجبور تھے۔
ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اسی چیف جسٹس سے انصاف طلب کرتے جس نے ان کے ساتھ زیادتی کی۔ اور پھر وہی ہوا کہ ان کی پٹیشن سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی۔ اب سوال یہ موجود ہے کہ جب ججز کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو وہ کیا کریں۔
دنیا بھر میں اس معاملہ کے حل کے لیے پارلیمانی کمیٹیاں موجود ہیں۔ لیکن یہاں عدلیہ نے ججز کی تعیناتی میں پارلیمان کی کمیٹی کو تقریبا ربڑ سٹمپ ہی بنا دیا ہے۔
اس لیے ججز کے ساتھ ہونیوالی زیاددتیوں میں بھی پارلیمانی کمیٹی کا کوئی کردار نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حق میں سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ میں بنچز بننے کا کچھ طریقہ کار طے ہو گیا ہے۔ لیکن ابھی کیس لگنے کا کوئی شفاف طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
کوئی یہ سوال نہیں کر سکتا کہ سیٹھ وقار کی پٹیشن بروقت کیوں نہیں لگی۔ انھیں انصاف کیوں نہیں ملا۔ ان کے مقابلے میں ان سے جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں کیوں تعینات کیا گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ جب ایک جج ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہے۔ جب ایک جج ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کا اہل ہے۔ تو وہ سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل نہیں۔ اگر کوئی ہائی کورٹ میں مقدمہ سن سکتا ہے تو پھر سپریم کورٹ میں کیوں نہیں سن سکتا۔
آج تک کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ جونیئر ججز کی تعیناتی میں کیا فائدہ تھا اور سنیئرز کو نظر انداز کرنے کے کیا فوائد ہیں۔ جن کو لایا گیا ہے ان میں کیا اضافی خصوصیات ہیں۔ اور جن کو نظرانداز کیا گیا ان میں کیا کمی تھی۔ یہ سوال اہم ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں پسند و نا پسند کی بنیاد پر پابندیوں کی بازگشت نظام عدل کے لیے ٹھیک نہیں۔ پسند و نا پسند کی بنیاد پر تعیناتیوں کی وجہ سے ہی ہم خیال بنچ کا شور اٹھا۔ اسی وجہ سے ہم خیال ججز کے گروپ کا تاثر قائم ہوا۔
میں سمجھتا ہوں ماضی میں ہم نے سپریم کورٹ میں ججز کے درمیان جو اختلاف دیکھا ہے اس کی بنیادی وجہ بھی ججز کی تعیناتی میں شفافیت کا فقدان نظر آیا ہے۔
سپریم کورٹ میں سینئر ججز کے درمیان اختلاف کی بنیادی وجہ بھی یہی رہی ہے۔ ماضی میں بھی چیف جسٹس صاحبان نے کوشش کی ہے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنے گروپ کے ججز کو سپریم کورٹ میں لے آئیں۔ میں سمجھتا ہوں اب اس روش کو ختم ہونا چاہیے۔
یہ سوال بھی ٹھیک ہے کہ کیا صرف سنیارٹی سپریم کورٹ میں ترقی کی بنیاد ہونی چاہیے؟ کیا اچھے فیصلوں کی کوئی اہمیت ہونی چاہیے؟ ابھی تو یہ صورتحال ہے کہ اگر کوئی میرٹ سے ہٹ کر ہائی کورٹ کا جج بن گیا ہے تو سنیارٹی پر چیف جسٹس بن جائیں گے۔
چاہے آپ نے زندگی میں کوئی ابھی اچھا فیصلہ نہ دیا ہو۔ چاہے آپ کے مقدمے سننے کی رفتار سب سے کم ہو۔ چاہے آپ سب سے کم کام ہی کرتے ہوں۔ لیکن اگر آپ ایک دفعہ بن گئے ہیں تو پھر چیف بننا آپ کا حق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ جانا بھی سنیارٹی کی بنیاد پر آپ کا حق ہونا چاہیے۔ یا کارکردگی کے بھی کوئی نمبر ہونے چاہیے۔
اس کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ اچھے اور برے جج کی کیا تعریف ہو؟ نمبر کیسے دیے جائیں گے؟ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اگر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے آپ کو نالائق کہہ دیا ہے تو آپ نالائق ہیں۔ کوئی تو نظام ہونا چاہیے کہ آپ سپریم کورٹ آسکتے ہیں' آپ نہیں آسکتے۔ اس کا کوئی نہ کوئی شفاف معیار تو ہونا چاہیے۔