پاک ایران تعلقات

وطنِ عزیز کی جانب سے تحمل اور بُردباری کے مظاہرے کو ہماری کمزوری نہ سمجھنا ایرانی بست و کُشاد کے حق میں ہوگا

S_afarooqi@yahoo.com

اِس وقت جب کہ یہ کالم سپردِ قلم کیا جا رہا ہے کئی واقعات ایسے ہیں کہ جو انتہائی توجہ طلب ہیں جن میں بھارت اور پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات، بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی رام مندر کے حوالے سے ہونے والی بوکھلاہٹ اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ اور وطنِ عزیز کے سینئر سیاستدان مولانا فضل الرحمن کا حالیہ دورہ افغانستان شامل ہیں لیکن پاکستان کے صوبہ بلوچستان پر ایران کا اچانک فضائی حملہ سرِفہرست ہے۔

یہ حملہ جو 16 جنوری کو ہوا سب سے زیادہ توجہ طلب ہے۔اِس حملے کے محرکات اور مضمرات ہمارے کالم کا مرکزی موضوع ہے۔ یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ اِس سے قبل ایران کی جانب سے عراق اور شام پر بھی حملے ہوچکے ہیں۔

یہ حملے ایسے نازک وقت پر ہوئے ہیں کہ جب عالمِ اسلام کے تمام ممالک کے مابین زیادہ سے زیادہ اتحاد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ایک جانب مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک کو متحد ہوکر فلسطینی مجاہدین کی اسرائیل کے خلاف مدد اور مکمل حمایت درکار ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیری مسلمانوں پر بھارت کے سفاکانہ ظلم و تشدد کے خلاف جدوجہد کرنے والے مجاہدین کی امداد اور حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ غور و فکر کرنا ضروری ہے کہ یہ صورتحال کیوں درپیش ہے۔

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں، دونوں ہی ملک ایک دوسرے کے برادر ہیں اور دونوں کی تاریخ اور ثقافت کے ڈانڈے ایک دوسرے کے ساتھ اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔

وطنِ عزیز کی قومی زبان اردو فارسی کی مرہونِ منت ہے اور اگر فارسی کو مادرِ اردو کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ زبانِ فارسی کی اہمیت اور وقعت کا اندازہ اِس بات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ پڑھا لکھا آدمی صرف اُسی کو سمجھا جاتا تھا جسے فارسی آتی ہو۔

فارسی ہی سرکاری زبان ہوا کرتی تھی حتیٰ کہ بعد ازاں مرہٹہ حکمرانوں کی سرکاری دستاویزات تک فارسی زبان میں ہوا کرتی تھیں۔ اردو کے تمام معروف شعرائے کرام نے فارسی سے ہی خوشہ چینی کی ہے جس میں غالبؔ اور اقبال خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جن کا فارسی کلام طرہ امتیاز ہے۔ جیسے کہ سب کو معلوم ہے کہ اقبالؔ نے مولانا روم کو اپنا پیر و مرشد تسلیم کیا ہے۔

دوسری جانب اقبالؔ کی فارسی شاعری کو اہلِ ایران نے نہایت پسند کیا ہے اور اِس کی بے حد پذیرائی کی ہے۔

پاکستان کے ساتھ ایران کے تعلقات کی اہمیت کا اندازہ صرف اِس بات سے ہی کرنا کافی ہوگا کہ ایران واحد ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔

اِس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاک بھارت جنگوں میں ایران نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور اِس کی فضائیہ کو تمام مطلوبہ سہولیات فراہم کی تھیں جن کے بغیر پاکستان کے لیے بھارت کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا۔


پاکستان نے بھی آڑے وقت پر ایران کا ساتھ دیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ:

دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست

درپریشاں حالی و درماندگی

پاکستان اور ایران تجارت کے شعبے میں بھی مشترکہ تعاون کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔ ایران پر بیرونی طاقتوں بالخصوص امریکا کا بہت زیادہ دباؤ رہا ہے جس کی وجہ سے یہ ملک دنیا کے اہم ممالک سے کٹ کر تن تنہا ہوگیا ہے اور اسے پاکستان جیسے حریف ملک کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

ایرانی قیادت کو اِس حقیقت کا جتنی جلدی احساس ہوجائے اتنا ہی ایران کے مفاد میں ہوگا۔ اِدھر پاکستان کو جو توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے اور جس وجہ سے نہ صرف پاکستان کے عوام بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کی صنعتیں بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں اور اُن کی برآمدات کا شعبہ شدید مشکلات میں پھنسا ہوا ہے۔ایران کی مدد کی ضرورت ہے۔

ایران کے اربابِ اختیار کو اِس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ نہ صرف اُس کے لیے بلکہ اُس کے عزیز برادر ملک پاکستان کے خلاف بھی ایک سوچی سمجھی گہری سازش ہے۔

برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ دونوں ممالک میں موجود بھاڑے کے ٹٹو پاک ایران تعلقات کو خراب کرنے کے درپے ہیں اور ایک دوسرے کی سرزمین کو اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان کی زیرِ حراست بھارتی جاسوس کلبوشن یادَو اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ایرانی فضائیہ کی بلوچستان کے حدود میں بلا اشتعال داخل ہوکر کوہِ سبز کے مقام پر حملے کے جواب میں مشتعل ہوکر فوری جوابی کارروائی نہ کرنا بہت غنیمت ہے کیونکہ خدا نخواستہ اگر ایسا ہوجاتا تو اِس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھِڑ جانے سے ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا۔

وطنِ عزیز کی جانب سے تحمل اور بُردباری کے مظاہرے کو ہماری کمزوری نہ سمجھنا ایرانی بست و کُشاد کے حق میں ہوگا کیونکہ ایٹمی قوت کے حامل پاکستان جیسے ملک کو چھیڑنا آ بَیل مجھے مارکے مترادف ہوگا۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ایران کی اِس بلااشتعال کارروائی کا بڑا سخت نوٹس لیا ہے اور اِس پر ٹھنڈے دل سے اِسے درگزرکر دیا ہے۔

پاک ایران بدخواہوں اور دشمنوں کو اِس سے یقیناً بہت مایوسی ہوئی ہوگی کیونکہ اِس سے اُن کے مذموم عزائم کو شدید ناکامی ہوئی ہے تاہم ایرانی حکومت کو بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ،دونوں برادر ملک ایک دوسرے کا بازو بنیں تو بہتر ہے ۔
Load Next Story