تربیت بیٹوں کی بھی ضروری ہے

لاڈلوں کی سرگرمیوں کو نظرانداز کرنے کا رویہ ترک ہوگا تو بہتری ہوگی

لاڈلوں کی سرگرمیوں کو نظرانداز کرنے کا رویہ ترک ہوگا تو بہتری ہوگی ۔ فوٹو : فائل

جس گھر میں بیٹیاں زیادہ اور بیٹے کم ہوں، وہاں عموماً بیٹوں کو ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار دیا جاتا ہے کیوں کہ وہی خاندان کے وارث ہوتے ہیں۔ کیا انھیں تمیز تہذیب سیکھانا ماں باپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔

کہتے ہیں کہ بیٹے ماؤں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور ان کے لاڈلے بھی ہوتے ہیں۔ ماں ہی ہوتی ہے، جو انھیں بگاڑنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

ان کی بہت سی باتیں باپ سے چھپا لیتی ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بیٹوں کی پردہ پوشی نہیں بلکہ انھیں سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ رات کو گھر کب واپس آیا ہے؟ کس وقت آیا اور کس کے ساتھ تھا سب کچھ پوچھیں اور باپ کو بھی اس کے معمولات ضرور بتائیں تاکہ انھیں معلوم ہو کہ ان کا بیٹا کیسے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ یہ مت کہیں کہ وہ باہر نکلا ہی نہیں، یعنی اس کے کاموں پر پردہ نہ ڈالیے۔

بیٹے کی پردہ داری کرتے اس وقت آپ کو بالکل احساس نہیں ہوتا کہ آپ کس قدر غلط کر رہی ہیں۔ جب بیٹے گھر دیر سے لوٹیں تو ان سے باز پُرس کرنا ماں باپ دونوں کی ذمہ داری ہے۔

اس بات کا بالکل یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ڈنڈا ہی اٹھا لیں اور مار پیٹ شروع کر دیں بلکہ شروع دن سے بچوں میں عادت ڈالیں کہ رات کے وقت بلا ضرورت گھر سے نہیں نکلنا، اگر کوئی بہت ضروری کام ہے تو گھر پر بتا کر جائیں اور جلدی واپس آجائیں۔کچھ ایسی سرگرمیاں رکھیں کہ بچوں کو رات کے وقت باہر جانے کا موقع ہی نہ ملے۔

یہ نہیں کہتے کہ اس پر سختی کریں، بلکہ آپ کو چاہیے اسے سمجھائیں اور اپنی معاشی حالت کا احساس دلائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی خواہشات کی رو میں بہ جائے۔ماں باپ دونوں کو چاہیے کہ وہ بیٹوں کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیں۔ انھیں بات کرنے کا طریقہ سلیقہ سیکھائیں اور ذمہ داریوں کا احساس چھوٹی عمر سے دلائیں۔ بیٹوں کی شخصیت میں نکھار پیدا کرنا چاہتی ہیں، تو انھیں اخلاقیات سکھائیں۔

آج ہم آپ کو ایسی ہی کچھ سرگرمیاں بتائیں گے، جن پر عمل کر کے آپ اپنے بیٹوں کی بہت عمدگی سے زیادہ وقت گھر میں رہنے پر آمادہ کرسکتی ہیں۔


جیسا کہ سب مل کر کسی دل چسپ کتاب کا مطالعہ کریں اور اگلے دن بچوں سے اس کتاب سے سوالات کیے جائیں اور جس کے جواب ٹھیک ہوں، اسے انعام دیا جائے۔

بچوں کو انعام میں گھر پر کچھ منگوا کر کھلا دیں یا ان کی ضرورت کی اشیا میں سے کچھ لے کر دے دیں اسی پر بچے خوش ہو جائیں گے۔

گھر پر اپنے بیٹوں کے قریبی دوستوں کو بلائیں ان سے بات چیت کریں ان کا تعارف حاصل کریں، ان کی سرگرمیوں اور رجحانات کی سن گن لیں۔ بالخصوص باپ ان کے پاس بیٹھے اور اسے معلوم ہو کہ وہ کس قسم کی صحبت رکھتے ہیں۔ اس طرح ان کے دوستوں کو بھی معلوم ہوگا کہ ان کے دوست کے والد کس مزاج کے ہیں اور وہ ان کے سامنے کس طرح پیش آئیں۔

بچوں کو کبھی دوستوں کے گھر ٹھیرنے کی اجازت نہ دیں، انھیں اپنے ساتھ ہی کسی تقریب میں شرکت کے لیے لے جائیں اور چاہے کتنی دیر کیوں نہ ہو جائے، انھیں واپس بھی اپنے ساتھ لے کر آئیں۔ اسکول، کالج کے ٹرپ کے ساتھ بہت تسلی کے بعد جانے کی اجازت دیں جس طرح بیٹیوں کے لیے پریشان ہوتے ہیں نہ اسی طرح بیٹوں کو بھی رنگین تصویر دکھانے والوں سے بچائیں۔ موبائل فون کی لت ایسی ہے کہ اچھے سے اچھے کو خراب کر دیتی ہے۔

ایسے بہت سے طریقے ہیں جن کے ذریعے آپ بچوں کو پیار سے اپنی پسند کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو کام میں لائیں اور انھیں اپنے جذبات کہانیوں اور رنگوں سے لکھنا سیکھائیں۔

ان کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا کریں، انھیں سمجھائیں کہ خوابوں کی دنیا بہت چھوٹی ہے اور حقیقت کی دنیا بہت بڑی ہے۔بچوں کو ایک مقصد دیں، تاکہ وہ اس پر ہی اپنی توجہ مرکوز کریں، انھیں برگزیدہ ہستیوں اور تاریخ کے سبق آموز واقعات سنائیں اور بتائیں کہ انھوں نے اپنے دامن کو کس قدر شفاف اور پاکیزہ رکھا اور خود کو برائیوں سے کس قدر دور رکھا۔

ماؤں کو چاہیے کہ بیٹوں کو باپ کے قریب زیادہ رکھیں۔ باپ بیٹوں کا آپس میں جتنا تعلق اچھا ہوگا اتنا ہی وہ ایک دوسرے کو سمجھیں گے اور دوستوں سے باتیں کرنے کے بہ جائے باپ سے کرنے لگیں گے۔ اگر آپ بیٹوں کی شخصیت میں نکھار پیدا کرنا چاہتی ہیں، تو انھیں اخلاقیات سیکھائیں۔

بیٹوں کو اتنی فوقیت نہ دیں کہ وہ خودسری کی حدود پار کرنے لگیں۔ عورت کی عزت کرنا سیکھائیں اور بتائیں کہ عورت صرف ماں اور بہن کے روپ میں نہیں بل کہ ہر روپ میں قابلِ عزت ہے۔
Load Next Story